علماء اور سیلزمین !
ایک بچی لکھتی ھے کہ آپ کا بہت صبر ھے کہ آپ اتنے لوگوں کو ڈیل کرتے ھیں،، میرا خیال ھے کہ یہ بات کچھ زیادہ درست نہیں !
ایک شہر کے سارے علماء کا صبر ایک طرف اور اسی شہر کی کلاتھ مارکیٹ کی ایک دکان کے ایک سیلز مین کا صبر ایک طرف بلکہ میرا خیال ھے کہ اگر انصاف سے کام لیا جائے تو وہ سیلزمین سارے مولویوں سے بھاری نکلے گا !
صبح صبح خواتین اس کی دکان میں گھستی ھیں، اور اچھے بھلے سلیقے سے رکھے ھوئے تھان کھلوانا شروع کرتی ھیں،کچھ تو واقعی خریدنا چاھتی ھونگی،مگر اکثریت وقت گزارنے اور نیا کپڑا دیکھنے اور قیمتوں کے بارے میں اپ ڈیٹ رھنے کے لئے کپڑے کی دکان کا چکر لگاتی ھیں !
وہ جانتا ھے کہ یہ خواتین صرف پسینہ سکھانے اندر آئی ھیں ،، ایک بیٹھ کر پکوڑے کھانا شروع کرتی ھے تو دوسری تھان کھلونا شروع کرتی ھے ،مگر اتنے سنجیدہ ٹاسک کے دوران بھی اپنے حصے کا پکوڑا اٹھانا نہیں بھولتی ! ساتھ ساتھ اس کی بےعزتی بھی کرتی جاتی ھیں کہ وہ بہت مہنگا بیچتا اور حرام کھاتا ھے ، اور وہ بےچارہ جی باجی، جی باجی ، کی گردان لگائے سب تسلیم کرتا چلا جاتا ھے !
دوسری عورتیں داخل ھوتی ھیں اور کپڑا دیکھنا شروع کرتی ھیں تو پکوڑے والی پارٹی ان کو بتانا شروع کرتی ھے کہ پچھلی دکان پہ کپڑا سستا ھے ،ایہہ مہنگا دیندا جے،،، کوئی پوچھے اللہ کی بندیو ! پھر تم پکوڑے بھی ادھر بیٹھ کر کھا لیتی ادھر تم اس کے گاھک خراب کرنے آئی ھو ! یہ احسان کا بدلہ ھے !
خیر رنگ رنگ کی ٹولیاں دکان میں داخل ھوتی رھتی ھیں اور اس کے رول کر کے رکھے ھوئے تھان پھر کھول کر پھیلا دیتی ھیں،، نہ وہ ان کو مذھب کی وجہ سے دکان سے نکالتا ھے اور نہ ان کے حلیئے پر اعتراض کرتا ھے ، برقعے والی بھی اس کی باجی ھے اور بغیر برقعے والی بھی اس کی باجی ھے ، یعنی وہ سب کو گاھک سمجھتا ھے اور خود کو سیلزمین جسے اپنا اخلاق اپنے گاھک کے لئے پرکشش بنانا ھے تا کہ گاھک تکلف میں مبتلا ھو کر یا اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کپڑا کھولنے کی فرمائش سے رک نہ جائے پہلے وہ اس کی فرمائش پوری کرتا ھے،ھر تھان کی طرف اٹھنے والی انگلی کی اطاعت کرتا ھے،،پھر وہ اپنی پسند ان کے سامنے رکھتا ھے ، کہ باجی ایک نئ کولیکشن آئی ھے میں کسی اھل ذوق کا انتظار کر رھا تھا وہ بس آپ جیسی صاحب نظر ھستی ھی خرید سکتی ھے کیونکہ کپڑے کے معاملے میں آپ کی پسند اور ذوق کا کیا کہنا ،،جب یہ کپڑا آیا تھا تو مجھے سب سے پہلے آپ کا ھی خیال آیا تھا کہ ھو ناں ھو یہ میری باجی ھی خریدے گی،عام عورت کو تو اس کی پہچان ھی نہیں ! بس جناب وہ باجی کی پسند پکوڑے والے کاغذ کے ساتھ ھی ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اپنی پسند باجی کو پکڑا دیتا ھے، اور باجی یہ وعدہ بھی اس سے لیتی ھے کہ آئندہ بھی کوئی اچھا کپڑا آئے تو وہ اسی کو بتائے گا ! یوں 35 درھم کا سوٹ 65 درھم میں باجی کو دے کر وہ اپنے صبر اور اخلاق کی فتح کا جھنڈا گاڑ دیتا ھے ! اگر کسی کو میری بات کا یقین نہیں تو کسی بھی بڑے سے بڑے عالم کو ایک کپڑے کی دکان پر بھیج دیجئے کہ بس ایک دن دکانداری کر کے آئیں ،،یقین کریں وہ شام کو گوالمنڈی تھانے سے ملیں گے !
یہ سارا اخلاق صرف دنیا کی خاطر ھے،، جب کہ ھمیں تو اللہ بار بار اپنی ذات کی خاطر صبر کا حکم دیتا ھے،، فرعون جیسے گنہگار کی طرف بھی پیغبر بھیجے تو اس ھدایت کے ساتھ کہ” قولا لہ قولاً لیناً،،اس کے ساتھ بات نرمی سے کرنا ” جاتے ھی چڑھ نہ دوڑنا ” ھمیں بار بار کہا” و قولوا للناسِ حسناً و اقیموا الصلوۃ،، لوگوں کے ساتھ( نہ کہ مسلمانوں کے ساتھ ) اچھے طریقے سے بات کرو اور نماز قائم رکھو ! ھم بھی تو دین کے سیلز مین ھیں ۔دین لگا کر معاشرے میں بیٹھے ھیں کہ لوگ لے جائیں،، ھم میں فرق اتنا ھے کہ ھماری اجرت اللہ دے گا،،مگر اجرت تھوڑی لیٹ ھو جانے کی وجہ سے ھم گاھکوں کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ھیں،، جو مریض ھمارے پاس آتا ھے ،، لاعلاج ھو کر جاتا ھے ! وہ مسلمان ھونے آتا ھے ھم کفر کا فتوی ھاتھ میں تھما کر بھیج دیتے ھیں !
فیس بک پہ شاعری کی پوسٹ پر سارے علماء کتنے پیار بھرے کمنٹس دے رھے ھوتے ھیں ! مگر جونہی کوئی مذھبی پوسٹ شیئر ھوتی ھے سارے اپنے اپنے مورچوں کی طرف پوزیشن لینے کو دوڑتے ھیں اور پھر اللہ دے اور بندہ لے !