ہمارے سچے زمانوں میں شادیاں جلدی ہو جایا کرتی تھیں ، لڑکا ۱۸ کا ہو جائے اور لڑکی چودہ سے سولہ کے درمیان بیاہ دیئے جاتے تھے ، لڑکے نے کونسا ماسٹر کرنا ہوتا تھا ، ڈنگر چرانے ، ہل چلانے اور فصل بونے اور کاٹنے میں والدین کی مدد کرنا ہی جاب ھوتا تھا ـ لڑکیوں نے بھی بس ناڑنے بُننا اور کروشیا سیکھنا ھونا تھا اسی کے ساتھ گریجوئیشن کی ڈگری بصورتِ شوہر مل جایا کرتی تھی ، عام طور پر بہن بھائیوں میں پہلے سے ہی طے ہو جاتا تھا کہ کس کی بچی کس نے کرنی ہے لہذا لوگ ایک دوسرے سے بنا کر رکھتے تھے ـ نہ لڑکی والوں کو رشتے کی فکر ہوتی تھی اور نہ لڑکے والوں کو کوئی ٹینشن ،، لڑکی نے اگلے گھر وہی کام کرنا ہوتا تھا جو والد کے گھر کرتی تھی ، بس سائٹ تبدیل ھو جاتی تھی جاب وہی تھا ،، صبح اٹھنا گوبر صاف کرنا ، دودھ دوہنا ، ناشتہ بنانا شوہر یا باپ کھیتوں میں ہل لے کر گیا ہوا ہے تو بڑے کھارے میں ناشتہ رکھ کر کھیتوں میں پہنچانا ، وغیرہ وغیرہ ،،
بہن بھائیوں میں بے تکلفی کا یہ عالم ہوتا کہ بہن بھائی کو پہلے سے کہہ دیتی کہ اس دفعہ اگر لڑکی ہوئی تو تیرے بیٹے کو دونگی ،، یا بھائی ہی مطالبہ کر دیتا کہ اگر اس دفعہ بیٹی ہوئی تو میری ،، ماموں اور بھانجے ، چچا اور بھتیجے کی عمر میں بہت تھوڑا فرق ہوتا بعض صورتوں میں چچا اور بھتیجا ہم عمر ہوتے اور کئ دفعہ بھتیجا بڑا اور چچا چھوٹا ھوتا ـ ہمارے دو چچا جو دو الگ الگ دادیوں کی اولاد ہیں وہ ہم سے کوئی چار سال ہی بڑے ہیں ، ان میں سے ایک چچا مٹی کھاتے تھے ،کوئلہ بھی کھا لیتے تھے اور کاغذ بھی کھاتے تھے ، ہماری ڈیوٹی ان کی نگرانی پر تھی ، ہم بھی منہ نہایت معصوم بنا کر اس چچا کے پیچھے پیچھے چلتے جیسے موسی علیہ السلام کی بہن تابوت پر اجنبی بن کر نظر رکھے ہوئے تھی ،، جب دو چار دفعہ چھاپہ پڑا تو چچا کو یقین ہو گیا کہ اس مخبری میں ہمارا ہی ہاتھ ہے اور یہ کہ ’’ یہ بھولے بھالے بڑے ہوشیار ہوتے ہیں ‘‘ یہ والے چچا پانچویں کلاس کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے اور فوج نے ان کی مٹی چھڑوائی ،، افسروں نے ان کو سمجھایا کہ ہمیں اس مٹی پر فخر بھی ہے اور ہم نے اس کی حفاظت بھی کرنی ہے باہر کے دشمن سے بھی اور اندر کے دشمن سے بھی اور تم ڈیوٹی کے دوران ہی مٹی کا بالاتکار کرتے ہو ، ایسے نہیں چلے گا ـ
دوسرے چچا جو ان سے بھی چھوٹے تھے اور دادا جی کی آخری اولاد تھے بہت لاڈلے تھے لہذا اسکول بھیجے ہی نہیں گئے بلکہ ان کو ہمارا اتالیق مقرر کیا گیا ،، مزاح کا شہکار ہیں یہ چچا ،، عشاء کی نماز پڑھنے جا رہے تھے ،، گاؤں میں بجلی نہیں ہوتی تھی، موسم گرمیوں کا تھا اور رات چاندنی ،، چچا نے ہمیں عشاء کی نماز کی نیت سکھائی اور کہا کہ میں مسجد کے غسل خانے میں ہونگا لہذا نیت اونچی آواز میں کرنا تا کہ مجھے آواز صاف سنائی دے ،، ہم مسجد میں داخل ہوئے وضو کیا ،، جبکہ چچا غسل خانے میں اسی طرح مورچے میں بیٹھ گئے جیسے کنٹرول لائن پر ہمارے شیرجوان دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈالے چیک پوسٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں ،، ابھی امام صاحب نہیں آئے تھے چند نمازی صحن میں بیٹھے اپنے گھٹنوں پر سر رکھے اونگھ رہے تھے ، ایک دو وضو کر رہے تھے کہ ہم نے اچانک خبرنامے کی طرح بلند آواز سے نیت شروع کی ،، میں نیت کیتی اس نماز نی پڑھناں خاص واسطے اللہ تعالی نے، ستاراں رکعاتاں نماز کُفتاں ،، اس کے ساتھ غسل خانے سے چچا کے قہقے کی آواز نے ہمیں بتا دیا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے ،، وہ جو اونگھ رہے تھے وہ سراپا تراہ بنے ہوئے ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے جبکہ وضو والوں نے بھی کوزے چھوڑ کر ہمیں گھُورنا شروع کر دیا تھا ، ان میں سے ایک نے تو جھنجھلا کر کہہ بھی دیا کہ ’’ بہوں تاول ای ؟ ‘‘ مطلب تمہیں بہت جلدی ہے ؟ مسجد سے ملحق چھت پر سوئے ہوئے محمد حسین بھٹی مرحوم کے بچے بھی اٹھ کر بیٹھ گئے تھے ـ پوری نماز کے دوران ہماری آنکھوں میں پانی بھرتا رہا اور ہم اس کو پیتے رھے ، بےوقوف بننے کا احساس بہت اذیتناک ہوتا ہے ،، کبھی بھی اپنے بچے کو بےوقوف بنا کر قہقے مت لگایئے ، یہ قہقے ساری زندگی اس کا پیچھا کرتے ہیں ،بڑوں کا احترام تو کرتے ہی ہیں خدا را بچوں کے احساسات کا بھی احترام کیا کیجئے !
قاری حنیف ڈار بقلم خود۔
نشر مکرر۔