گوجرخان کچہری جانا ھوا ، عرصہ 20 سال پہلے کی بات ھے ،، ایک اٹارنی اٹیسٹ کرانی تھی ،، اٹارنی دینے والا اسلام آباد کمپلیکس اسپتال میں تھا ، گینگرین ھو چکی تھی اور ایک ٹانگ چار آپریشن میں کٹ چکی تھی ،، جبکہ اب اسے Hip joint سے نکالنا تھا ، ان کی ابوظہبی میں کمپنی تھی،، اس کے لئے اٹارنی چاھئے تھی کیونکہ ویزے ایکسپائر ھو چکے تھے اور گاڑیوں کی رجسٹریشن بھی رکی ھوئیتھی ،، اب کس میجسٹریٹ کو اسپتال لے جایا جائے کوئی بھی جانے کو تیار نہیں تھا ،،،
گوجرخان کچہری چوھدری طارق مسعود ایڈوکیٹ سے مشورے کے لئے حاضر ھوا ، سارا ماجرا عرض کر کے گزارش کی کہ کوئی حل کی صورت بتائیے ! ساری بات تسلی سے سن لینے کے بعد کچھ یوں گویا ھوئے کہ ” کام قانونی طریقے سے کرانا ھے یا مسلمانی طریقے سے ؟ ” میں پریشان ھو گیا پوچھا جناب پہلے یہ تو سمجھائیے کہ قانونی طریقہ کونسا ھے اور مسلمانی طریقہ کونسا ھے ؟ ویسے بحیثیت امام مسجد مجھے اسلامی طریقے کو ھی ترجیح دینی چاھئے ،، فرمانے لگے کہ قانونی طریقہ تو یہ ھے کہ گوجرخان کا میجسٹریٹ اسلام آباد میں کسی اٹارنی کی تصدیق نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اس کی جیورسڈکشن یعنی عدالتی دائرہ اختیار سے باھر کا علاقہ ھے ،، ھم نے بے صبری سے پوچھا مسلمانی طریقہ کونسا ھے ؟
فرمانے لگے مسلمانی طریقہ یہ ھے کہ ایک کیری ڈبہ بُک کریں گے ،، روپیہ 1500 میجسٹریٹ صاحب کو دیں گے اور وہ اسلام آباد اسپتال میں متعلقہ شخص کا بیان لے کر اپنی عدالتی مہر مار دیں گے ،ابوظہبی والوں کو کیا پتہ کہ گوجرخان کہاں ھے اور اسلام آباد کہاں ھے ان کو تو ترازو والی مھر چاھئے ،،،
اپنے وطن میں کم ازکم ھر مسئلے کا کوئی حل تو ھے ،
ھر چند کہ بگولا مضطر ھے ،اک جوش تو اس کے اندر ھے !
بے چین سہی بیتاب سہی ،اک رقص تو ھے اک وجد تو ھے !
خیر ھمارے گاؤں کا ایک لڑکا ملک ضمیر اسلام آباد کچہری میں ھرکارہ تھا ،یعنی جو آواز لگاتے ھیں کہ ” سرکار بنام ،،، اس سے مسئلہ بیان کیا تو کہنے لگا کہ فلاں میجسٹریٹ دیانتدار ھے صبح میرے ساتھ چلیں تو اس سے بات کرتے ھیں ، صبح جب اس میجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ھوئے تو ساری بات سننے کے بعد انہوں نے پوچھا کہ یہ بتایئے کہ اس بندے سے آپ کا کیا تعلق ھے ؟ میں نے عرض کیا کہ جناب بس کلمے کا تعلق ھے،، ورنہ یہ وادئ ھنزہ کے ھیں اور میں گوجرخان سے ھوں ،، اتنا سننا تھا کہ بولے اگر آپ کلمے کے تعلق سے اتنے دور سے آ گئے ھیں ایک دوست کی خاطر تو تُف ھے ھماری مسلمانی پر کہ ھم چپے پر بھی نہ جا سکیں ، انہوں نے ڈرائیور منگوایا اپنی گاڑی میں ساتھ بٹھا کر اسپتال پہنچے اور حاجی شریف اللہ صاحب کا بیان لے کر اٹارنی اسٹیمپ کر دی ،، ھاتھ ملایا اور واپس چلے گئے ،، ایک فلس بھی نہیں لیا اور گاڑی کی بکنگ کے نام پہ بھی کچھ نہ لیا ،، حاجی شریف اللہ صاحب کا اس کے بعد انتقال ھو گیا، انہوں نے مجھ سے ترجمہ قرآن پڑھا تھا ،، صرف نام ھی لکھ پڑھ سکتے تھے مگر ذھین اتنے تھے کہ سال کے اندر اندر ترجمہ قرآن اس طرح پڑھا تھا کہ کسی جگہ سے بھی قرآن کھول کر ان کے سامنے رکھیں ،فر فر ترجمہ سنانا شروع کر دیتے تھے،، اللہ پاک مغفرت فرمائے ! آمین !!