رفع و نزولِ عیسی علیہ السلام – ایک نقطہ نظر
الحمد للہ وحدہ ، والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ،،
اما بعد،،
عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے اور واپس بھیجے جانے کے بارے میں شروع سے مختلف رائے رھی ھے ،، دونوں طرف امت کے عظیم اور ذھین و فطین لوگ
رھے ھیں ، قرآن مھدی اور دجال کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کرتا ، گویا ان دو کا کوئی وجود ھی نہیں ،، اگر دجال واقعی اتنا بڑا خطرہ تھا اور ھر نبی اس سے اپنی امت کو ڈراتا چلا آیا ھے تو اس کا ذکر قرآن میں ھونا لازمی تھا کیونکہ قرآن حکیم چھوٹے چھوٹےفتنوں کی بات تو کرتا ھے پھر اتنے بڑے فتنے کا ذکر کیونکر نہ کرے گا کہ جس میں ایک شخص کو مکمل خدائی طاقتیں و شکتیاں دے کر انسانوں کے ایمان کو تہس نہس کرنے کے لئےبھیج دے ،،جو زندگی اور موت دے ،جو آسمان کو برسنے سے روک دے ،، زمین کو اگانے سےروک دے ،جس طرف اشارہ کرے زمین سرسبز کر دے ، اس کی انگلی کے اشارے سے زمین اپنےخزانے اگل دے ، مرے ھوئے اونٹ اور انسان زندہ کر دے ،، الغرض اس کی خدائی کو رد کرنے کے لئےایک مومن جو بھی دلیل پیش کرے یا جو بھی مطالبہ کرے ،، دجال اسے پلک جھپکتے پورا کر دے ،، ایک طرف یہ سب امتحان اور دوسری طرف قرآن اس کے ذکر سے خالی ھو ?? ،،وہ قرآن جس کے بارے میں نبی پاک خود فرمائیں کہ اس میں تم سے پہلوں کی خبریں بھی ھیں اور قیامت تک آنے والے واقعات کی پیش گویاں بھی ھیں ،،
وذكر رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) الفتنة يوماً فقلنا:”يا رسول الله كيف الخلاص منها؟” فقال (صلى الله عليه وآله وسلم):”بكتاب الله، فيه نبأ من كان قبلكم، ونبأ من كان بعدكم، وحكم ما كان بينكم،وهو الفصل وليس بالهزل، ما تركه جبار إلاّ قصم الله ظهره، ومن طلب الهداية بغير القرآن ضل، وهو الحبل المتين والذكر الحكيم
والصراط المستقيم، وهو الذي لا تلبس على الألسن، ولا يخلق من كثرة القراءة، ولا تشبع منه العلماء، ولا تنقضي عجائبه.”
اگر مھدی اور دجال کو بریکٹ کھول کر اس تکون کے سیٹ سے باھر نکال لیں تو ، عیسی علیہ السلام کے لئے جو مشن منتخب کیا گیا واپس بلانے کے لئے وہ مشن ھی ختم ھو کر رہ جاتا
ھے ،، لہذا ان کی واپسی کا تنازع ھی نہیں رھتا ،،،
اب آیئے موجودہ مشاھیر امت کی طرف جو عیسی علیہ السلام کی واپسی کا انکارکرتے ھیں ،
مفتئ اعظم مصر محمد عبدہ ،،،
الشیخ محمد رشید رضا شیخ السلفیون ،،
( انہ عقیدۃ نصرانیہ مخالفۃ لکتاب اللہ ) وہ فرماتے ھیں عیسی علیہ السلام کی واپسی کا عقیدہ عیسائیوں کا ھے جو اللہ کی کتاب کے خلاف ھے ۔۔
علامہ مصطفی المراغی مصنف تفسیر المنار ،،،،،،،،
الشیخ محمود شلتوت ،، مفتی ازھر ،،،،،،،،
الشیخ محمد الغزالی ،،،،،،،،،،،،
احمد شلبی ،،،،،،،،،،،
شیخ ابوزھرہ ،مفتی ازھر ،،
الدکتور محمد محمود حجازی ،،،،،،،،،
الدکتور حسن ترابی ،،
جبکہ برصغیر میں ،، مولانا عبیداللہ سندھی ، حمید الدین فراھی ، امین احسن اصلاحی جاوید احمد غامدی وغیرہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامل ہیں
ھم اس موضوع کو قرآن کے شروع سے لیتے ھیں اور اس سلسلے کی ان تمام آیات پہ بات کرتے ھیں جن کو رفع عیسی علیہ السلام کو ثابت کرنے کے لئے بطور
دلیل کے طور پہ استعمال کیا جاتا ھے ،،
سب سے پہلی بات یہ کہ نبیوں اور رسولوں کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ اور مومنین کا عقیدہ سورہ البقرہ کے آخر میں بیان کر دیا گیا ھے ، اور یہ عقیدہ قرآن کے آخر تک اور آخری مسلمان تک ،، ھمیشہ کے لئے ھے ،، یہ دو آیات اللہ پاک نےاپنے عرش کے خاص خزانے سے نبئ کریم ﷺ کو عطا فرمائیں جنہیں آپ ﷺ ھمیشہ ھر رات کواٹھ کر سب سے پہلے پڑھا کرتے تھے ،،،
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لانُفَرِّقُ بَيْنَ
أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (285)
لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ
رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا
رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا
رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا
أَنْتَ مَوْلانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (286)
مومنین کے ایمان کی تفصیل بیان کر کے سورہ البقرہ کو مکمل کر دیاگیا ،، اب سورہ آل عمران میں عیسائیت اور یہودیت کے عقائد کا پوسٹ مارٹم کیا گیاھے اور وھی وھاں مخاطب ھیں ،،جب تک آپ مخاطب کو نہیں سمجھیں گے تب تک خطاب کے ھرجملے پہ آپ کو اشکالات پیدا ھوتے رھیں گے ،، کہیں تو ان کا عقیدہ بیان کر کے ردکیا ھے اور کہیں عقیدہ بیان کیئے بغیر ان کے عقیدے پہ سوالیہ شان کھڑا کیا گیا ھے،،،،،،
نجران کا وفد مدینہ آیا ھوا ھے اور مدینہ یہود کا گڑھ ھے ،،
اب عیسائی اور یہودی عقیدہ زیرِ بحث ھے اور مسلسل چوتھے پارے کے ربع تک یہی عقائد اوریہود کی فطرت زیرِ بحث ھے عیسائیوں کی تعریف کی جا رھی ھے کہ ان میں سارے ایک جیسےنہیں ھیں بلکہ اب بھی حق شناس موجود ھیں جو راتوں کو رب کے حضور کھڑے رھتے ھیں تلاوتِ آیات کرتے ھیں اور فلاح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ھیں یہ جو بھی نیکی کرتے ھیں ھم ضائع نہیں کریں گے ، یہی اسلوب ھے کہ جس نے نجران کے بادشاہ کےبھائی کو مسلمان کر دیا ھے اور وہ وفد سے کٹ کر حضور ﷺ کے پاس ھی رہ گیا ھے ،،
یہودکہتے ھیں کہ ھم نے عیسی علیہ السلام کو سولی چڑھا دیا یعنی صلیب پہ مار دیا ،، اوریہود کے نزدیک صلیب کی موت جنت کا رستہ بند کر دیتی ھے ،، ” من وضع علی الخشب فھو ملعون ” جو لکڑی پہ رکھ دیا گیا وہ ملعون ھو گا ” یہ یہود کا عقیدہ ھے ،جبکہ عیسائی تسلیم کرتے ھیں کہ عیسی صلیب پہ تو چڑھے ،، مگر وہ وھاں مر کردوبارہ زندہ ھو گئے اور آسمان پہ چڑھ کر باپ کے دائیں طرف بیٹھ گئے اور قربِ قیامت میں دوبارہ آ کر یہود سے بدلہ لیں گے اور ان سب کو ھلاک کریں گے ، اس زمین پر اللہ کی مرضی اسی طرح نافذ کریں گے کہ جس طرح آسمان پہ اس کی مرضی چلتی ھے ، جس طرح آسمان پہ کوئی کافر نہیں زمین پر بھی کوئی کافر نہیں رھے گا ، دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی ،، ھر چیز میں برکت ھو جائے گی اور نفرت اور دشمنی نہ صرف انسانوں میں بلکہ جانوروں میں بھی ختم ھو جائے گی ،انسانوں کا ھی نہیں سانپوں کا زھر بھی ختم ھو جائے گا اور ایک بچہ بڑے آرام سے سوراخ میں ھاتھ ڈال کر سانپ کو کھینچ کرباھر نکالے گا اور اس کے ساتھ کھیلے گا ، الغرض اللہ کی مرضی عیسی آ کر پوری کریںگے ،، اور یہی سب کچھ کاربن پیپر نیچے رکھ کر ھماری حدیثوں میں نقل کیا گیا ھےترتیب تک تبدیل کرنے کی زحمت گورا نہیں کی گئ ،، ذرا بائیبل کو پڑھیئے تا کہ آپ کوپتہ چلے کہ کیوں عیسائی یہ بات کہتے ھیں کہ اسلام اصل میں عیسائیت کا چربہ ھے ،،
عیسائی اور یہودی اس بات پہ متفق ھیں کہ عیسی مصلوب ھوئے ھیں مگر عیسائی کہتے ھیں کہ وہ مصلوب ھو کر پھر زندہ ھو گئے تھے اور پھر آسمان پہ چڑھ گئے ،، اب قرآن اس موضوع کو یہاں لیتا ھے اور عیسائیوں کو سمجھاتا ھے کہ میں نے عیسی سے وعدہ کیا تھا کہ میں اسے سلامتی کی موت دونگا ، ایک نارمل طبعی موت ،، اے یہود تم یہ کہنا چاھتے ھو کہ تم اللہ کے ارادے پہ غالب آ گئے اور عیسی کو ذلت کی موت سے دوچار کر دیا ،، جبکہ عیسی کے منہ سے بچپن کی حالت میں کہلوایا گیا کہ ” سلامۤ علی یوم ولدت و یوم اموتُ و یوم ابعث حیاً،، میں پیدائش کے دن بھی سلامتی میں تھا اور موت کے وقت بھی سلامتی میں ھونگا اور جب مبعوث کیا جاؤں گا اس دن بھی سلامتی میں ھونگا ،،
وَالسَّلامُ عَلَيَّ يَوْمَ "وُلِدْتُ ” وَيَوْمَ’ أَمُوتُ "وَيَوْمَ "أُبْعَثُ ” حَيّاً ) مريم/33
اب ان مراحل کو دیکھ لیجئے جن میں سلامتی کا ذکر کیا گیا ھے ،،
1-پیدائش ،،
2- موت ،،،
3- بعثت ،،،
یہ تینوں مراحل ھر نیک و بد انسان کو پیش آنے ھیں ان میں رفع و نزول کے دو مراحل کس نے ڈالے ھیں ؟
یہی تین مراحل حضرت یحی علیہ السلام کے بارے میں ذکر کیئے گئے ھیں ،،
والسَّلامُ عَلَيهِ يَومَ ” وُلِدَ ” وَيَومَ "يَموتُ "وَيَومَ "يُبعَثُ "حَيّاً )
وھی ترتیب ھے اور وھی تین مراحل ھیں ،، نہ رفع و نزول یحیٰ علیہ السلام کے ساتھ ھے اورنہ عیسی علیہ السلام کے ساتھ ،،
سورہ آل عمران میں وعدہ یاد دلایا گیا ،،
اذ قال الله یعیسی انی متوفیک و رافعک الی و مطهرک من الذین کفروا ،،،،
جب اللہ نے کہا ” اے عیسی میں تجھے وفات دونگا اور تجھے اٹھا لونگا اپنی طرف اور پاک کرونگا تجھے کافروں سے ،،،
اس آیت میں اللہ کے وعدے کی ترتیب ھی اس کو رفع کے لئے استعمال کرنے والوں کے خلاف ھے،، یہ ایک فطری ترتیب ھے ،،
تجھےوفات دونگا ،،
تجھےاٹھا لوں گا اپنی طرف ،
تجھےکافروں سے یعنی یہود سے پاک کرونگا ،،
اگررفع پہلے ھے اور عیسی علیہ السلام کو موت بعد میں آنی ھے تو خود خدا کو ھی مراحل کی ترتیب یاد نہیں رھی ؟
پھرتو یوں ھونا چاھیئے تھا کہ ” اے عیسی میں تجھے اٹھا لوں گا ،پھر نازل کروں گا پھر وفات دونگا ،،
یہ رفع یا اٹھا لینا ھماری زبان میں بھی مستعمل ھے ،، جب مائیں دعا دیتی ھیں کہ یااللہ اسے یا تو ھدایت دے یا اٹھا لے ،، اب اس اٹھا لے میں بمعہ بدن اٹھا لے کسی ماں کے وھم و گمان میں بھی نہیں آتا ھو گا ،، وفات ھمیشہ فطری عمر پوری کر کے مرنےکو کہتے ھیں ،، یعنی اس نے فطری عمر ” پوری وصول کی اور خرچ کر لی ” ھر ویزے والے کے ویزے پہ لکھا ھوتا ھے ” استوفیت رسوم ” یعنی فیس وفا کر لیگئ ھے ،، یعنی ایک طرف سے پوری ادا کر دی گئ ھے تو دوسری طرف سے پوری وصول کر لیگئ ھے ،، گویا اللہ پاک یہود کے عقیدے کی بھی نفی فرما رھے ھیں اور عیسائیوں کےعقیدے کی بھی نفی فرما رھے ھیں لفظ وفات استعمال کر کے ،،
پھرمرتے تو کافر بھی ھیں اور وفات کے لفظ کے ساتھ مرتے ھیں یہاں رفع سے قرب بتانا مقصود ھے کہ آپ معاذاللہ ملعون نہیں ھیں بلکہ ھم آپ کو فطری وفات دیں گے ،اور اپنےپاس بلا لیں گے ،اور آپ کے دشمنوں سے آپ کو پاک کریں گے ،،
وفات میں بمعہ بدن اٹھانے کے مفھوم کو داخل کرنا عربیت میں ایک ایسے مفھوم کو داخل کرنا ھے جس کی مثال نہ عربی شاعری میں دستیاب ھے اور نہ نثر میں ،، علامہ طاھر ابن عاشور اپنی کتاب ” التحریر والنویر ” میں لکھتے ھیں ” تفسیر الوفات بقبض بروحٍ و جسدٍ احداث المعنی فی العربیۃ لم یعرفہ العرب ولا اللغۃ العربیہ شعراً و نثراً ولو لا عقیدہ عودۃ عیسی ما قام النصرانیہ ” وفات کی تفسیر روح اور بدن سمیت قبض ھونا ،، عربیت میں نیا معنی گھسیڑنے کی جسارت ھے جس سے نہ توعربی شاعری واقف ھے اور نہ نثر ، اگر عیسی علیہ السلام کی واپسی کا عقیدہ نہ ھوتا توعیسائیت کے لئے کوئی پائے وقوف نہ ھوتے ،، کفارے کا عقیدہ اپنی موت آپ مر جائے ،،کسی کے گناھوں کا کفارہ کسی سے لینا ،،کبھی بھی اللہ کی سنت نہیں رھا ،، یہ بات سورہ البقرہ کے آخر میں فرما دی گئ تھی ،، لھا ما کسبت و علیھا مااکتسبت،، جس جان نے جو نیکی کمائی وہ اس کے اپنے لئے ھے اور جو بدی کمائی اس کا وبال بھی اسی کے سرھے ،، پھر قرانِ حکیم میں ولا تزر وازرۃ وزر اخری کا اصول بیان کیا گیا ھے ، کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ،،
ھمارے لوگ اس مسئلے میں قادیانیت کی وجہ سے حساس ھیں گویا وفاتِ عیسی ثابت ھو گئ تو قادیانیت ثابت ھو جائے گی ،، ایسا ھر گز نہیں ھے ،، عیسی کی حیات یا وفات کا قادیانیت سے کیا تعلق بنتا ھے ؟ اگر وعدہ کیا بھی گیا ھے تو ابن مریم کا کیا گیا ھے ،ابن چراغ بی ” کا نہیں کیا گیا ،، عیسی کا وعدہ کیا گیا ھو گا ،مسٹر دسوندی عرف غلام احمد قادیانی کا نہیں کیا گیا ،، پھر جو نعمتیں اور دودھ اور شھد کی نہروں کے وعدے ابن مریم کے ساتھ جڑے تھے ، "ابن چراغ بی ” ان میں سے کچھ بھی پورے نہ کر سکا ،، اگر کوئی وعدہ کرتا ھے کہ قاری حنیف کسی جگہ آئے گا اور وہ نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ کہاں سے ھو گیا کہ کوئی غلام احمد آ کر کہہ دے کہ چونکہ قاری حنیف نہیں آیا لہذا میں قاری حنیف ھوں،،، اپنے نام کی طرح اپنے پانچ خاندان بدلنے والا شخص نبی تو دور کی بات ایک شریف النفس شخص بھی ثابت نہیں ھوتا ،، کبھی بنی اسرائیل میں سے بنا تو کبھی فاطمی بناگویا اسحاق کی اولاد بھی ھے اور اسماعیل کی بھی مرزا وہ شروع سے اپنے نام کے ساتھ لکھتا تھا اور مغل کہلاتا تھا ،، پھر ابن عربی کے کشف میں مھدی کا چائنا سے ھونا پڑھا تو اگلی کتاب میں دعوی کر دیا کہ میں چینی النسل ھوں ،، اس کا ھر الھام اس کی نسل تبدیل کر دیتا تھا ،
ویکلم الناس فی المھدِ و کہلاً و من الصالحین ،،، ( آل عمران )
وہ لوگوں سے کلام کرے گا پنگھوڑے میں بھی اور پختگی میں بھی اور صالحین میں سے ھو گا،،،
ھم اس کو یوں دلیل بناتے رھے کہ جناب جس طرح بچپن میں ان کا بولنا معجزہ ھے اسی طرح جب وہ پلٹ کر آئیں گے تو بھی ان کا بولنا معجزہ ھو گا ،، کیونکہ وہ
رفع جسمانی کے بعد آئیں گے ،، اس سلسلے میں میرے تند و تیز مضامین غالباً کہیں محفوظ ھونگے ،،
اصل دلیل ،،،،،،،،،،،،
یہودنے عیسی علیہ السلام کے بچپن میں بولنے کو منسوب کر دیا تھا جنات کی طرف کہ بچے کےمنہ سے کوئی شیطان جن بول رھا ھے جو اس بچے پہ چڑھ گیا ھے اور یہود کو گمراہ کرنےکی کوشش کر رھا ھے ،، فرمایا گیا کہ صرف بچپن میں ھی نہیں بڑے ھو کر بھی وہ یہی باتیں کرے گا اور شیطان نہیں ھے بلکہ صالحین میں سے ھے ،، کہولت عربی میں 30 سال سے شروع ھوتی ھے ،،مافوق الثلاثین ،،
2- وجیھاً فی الدنیا والآخرۃ و من المقربین ،،، ( آلعمران )
یہاں وجیہہ اور مقرب سے بدنی قرب مراد لیا جا رھا ھے ،جبکہ یہ قرب مقام و مرتبے کا قرب ھے ،مکان کا قرب نہیں ھے اور یہ بہت سارے لوگوں کے لئے استعمال کیا گیا ھے
والسابقون السابقون ، اولئک المقربون ،، فاما ان کان من القمربین ( الواقعہ )
موسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ” و قربناہ نجیاً ” ھم نے اسے سرگوشی سے اپنا قرب عطا کیا ،، یعنی وہ مقام و مرتبہ عطاکیا کہ رب نے ان سے سرگوشی کی ،،
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَاقَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ
يَقِيناً .157
اب آیئے سورہ النساء کی جانب جس کی آیات اس معاملے میں قاطع و ساطع ھیں
یہود فخر سے کہتے تھے کہ ” انا قتلنا المسیح ابن مریم رسول اللہ ” ھم نے مسیح ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کر دیا ،،، اللہ پاک نے نہایت مؤکد انداز میں دو دفعہ اسی کی نفی فرمائی ،، وماقتلوہ ،،،،،،، وہ انہیں قتل نہیں کر سکے ،،، وما صلبوہ ،، اور نہ ان کو صلیب پر چڑھا سکے ولکن شبہ لھم ،، مگر معاملہ ان کے لئے مشتبہ بنا دیا گیا ،، اپنے زعم میں جس کو سولی دے رھےتھے وہ کبھی بھی ایک لمحے کے لئے ان کے ھاتھ نہیں آئے تھے ،، اور خود یہود بھی اس سولی کے بارے میں شک میں ھی تھے اور ان کے دعوے کی بنیاد ظن پر تھی ،وما قتلوہ یقیناً ،، اور یقینی طور پر وہ ان کو قتل نہیں کر سکے ،،
بل رفعہ اللہ الیہ ،، بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ رفع اسی طرح ھے کہ وہ انہیں گرانا چاھتے تھے یعنی صلیب کی موت دے کر ملعون ثابت کرناچاھتے تھے جبکہ اللہ نے انہیں بلند کر لیا اپنی طرف کیونکہ وہ خود بلندی سے منسوب ھے ،، الی سے اگر جسمانی صفت بیان کی جائے تو اللہ کی جہت کا کوئی بھی اقرار نہیں کرتا کہ وہ کس طرف ھے ، اور نہ کوئی اس کا جسم تجویز کرتا ھے ،،
وقال اني ذاهب إلى ربي سيهدين- ( صافآت 99 )
ابراھیم علیہ السلام فرماتے ھیں ،، میں اپنے رب کی طرف جا رھا ھوں وہ مجھے ھدایت دے گایعنی راہ سجھائے گا ،، اب یہ رفع الی سے قوی تر جملہ ھے ،، رفعت تو مقام و مرتبےسے منسوب کی جا سکتی ھے ،،مگر ذھاب کبھی بھی مقام و مرتبے سے منسوب نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے لازم جگہ درکار ھوتی ھے ،، اس کے باوجود ابراھیم علیہ السلام کے اس دعوے سے کبھی کوئی یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ آسمان پر اللہ کے پاس گئے تھے یا اللہ کی طرف آسمان پہ گئے تھے ،، جب ذاھبۤ الی سے آسمان پہ جانا ثابت نہیں تو پھر رفع الی سے یہ کیسے ثابت ھو گیا کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے پاس آسمان پر اٹھا لیئےگئے تھے ؟ اس کے لئے اللہ پاک کو رفع الی السماء کہنا چاھئے تھا ،،
ادریس علیہ السلام کے بارے میں نازل شدہ آیت زیادہ قوی ھے کہ اس سے ان کا آسمان پہ چڑھنا تسلیم کیا جائے جیسا کہ یہود کا عقیدہ ھے کہ ادریس زندہ آسمان پہ اٹھائے گئے تھے،،
وَاذْكُرْفِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ( مریم – 56،57 )
یہاں صاف صاف کہا جا رھا ھے کہ ھم نے اس کو اٹھا لیا بلند جگہ پر ” مکاناً علیاً” اعلی مقام نہیں بلکہ اعلی مکان ،،
اسکے باوجود کوئی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ ادریس علیہ السلام جسمانی طور پہ آسمان پہ ھیں اور فوت ھونے کے لئے لازم زمین پہ نازل ھونگے ،،
اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام فرماتے ھیں ،،
فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُالْحَكِيمُ( العنکبوت 29 ) میں اپنے رب کی طرف ھجرت کر رھا ھوں ، جو الی وھاں عیسی علیہ السلام کے ساتھ ھے وھی الی یہاں ھے ،، تو کیا اللہ فلسطین میں رھتا تھا ؟ جسکی طرف ھجرت کی جا رھی تھی ،، یہ آیت تتمہ ھے آل عمران والی آیت کا ،، وھاں اللہ پاک نے وعدہ کیا تھا کہ ھم آپ کو اپنی فطری زندگی پوری کروائیں گے ، پھر آپ کو اٹھا لیں گے،، سورہ نساء میں اس وعدے کی تکمیل کا اعلان کیا کہ جو وعدہ ھم رسولوں سے کرتے ھیں اسے پورا کرنے کی طاقت اور حکمت بھی رکھتے ھیں
اب اگلی آیت 159 کو لیتے ھیں –
( وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً [النساء : 159)
اھل کتاب( یہود+ نصاری ) میں سے کوئی ایسا نہیں جو ایمان نہ لے آتا ھو اس بات پر کہ عیسی اللہ کے رسول اور بشر ھیں اپنی موت سے پہلے ،، وہ یعنی عیسی علیہ السلام قیامت کے دن ان پر گواہ ھونگے ،، (مگر موت کے وقت کا ایمان اللہ کے یہاں قبول نہیں ھے لہذا عیسی علیہ السلام ان کے خلاف گواہ ھونگے کہ حق ان پہ واضح تھا مگر یہ بروقت ایمان نہیں لائے ) موت اور عذاب کے وقت ایمان کی عدم قبولیت کی مثالوں سے قرآن بھرا پڑاھے ،،
1-فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ (84) فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ ( غافر 84-85)
پھرجب انہوں نے دیکھا ھمارا عذاب کہنے لگے ھم ایمان لائے اللہ اکیلے پر اور انکارکرتے ھیں اس شرک کا جو اس کے ساتھ کرتے رھے ھیں – پھر نہ ھوا ان کا ایمان ان کےلئے نفع دینے والا جب کہ دیکھ لیا عذاب ھمارا ، یہی اللہ کی سنت ھے جو جاری ھے اسکے بندوں میں اور گھاٹے میں رھے کافر اس موقعے پر ایمان لا کر بھی ،،
جب فرعون غرق ھونے لگا تو وہ بھی ایمان لے آیا تھا ،،
وَجَاوَزْنَابِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلاَّ الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
آلآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ( یونس 90-91 )
الغرض یہاں اللہ کی اسی سنت کا بیان ھے کہ جب موت کی سختی درپیش ھوتی ھے تو یہود و نصاری ھر دو پر حقیقت آشکار ھو جاتی ھے فرعون کی طرح ،، اور وہ ایمان لے آتے ھیں عیسی کی رسالت و بشریت پہ ،، مگر اس سے ان کے خلاف کیس ڈراپ نہیں ھوتا انہیں اپنے خلاف عیسی علیہ السلام کی گواھی کا سامنا کرنا پڑے گا ،،
اسمیں ” موتہ ” کی ضمیر کو عیسی علیہ السلام کی موت سے جوڑنا تکلف ھے جبکہ مرنے والے خود وھاں مذکور ھیں ،،
اللہ پاک نے سورہ آل عمران اور المائدہ میں عیسی علیہ السلام کو صرف تورات اور انجیل سکھانے کا ذکر کیا ھے ،قرآن کا ذکر نہیں کیا ،، جبکہ اگر وہ واپس آتے
ھیں تو تورات و انجیل کے علاوہ قرآن بھی سکھایا جانا لازم ھے ،،کیا وہ 40 سال میں قرآن بھی حفظ نہیں کر سکیں گے ؟
ان منکم الاۜ اور ان منھم الاۜ ،، کی تاکید کہتی ھے کہ عیسی علیہ السلام اپنی بعثت سےلے کر تمام اھل کتاب پر گواہ ھونگے نہ کہ صرف پلٹ کر آنے کے بعد والے
اھل کتاب پر،جیسا کہ اگر اس آیت کو ان کی واپسی سے منسوب کریں تو مطلب نکلتا ھے ،،
اللہ پاک فرماتے ھیں ،،
((وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا))[مريم:71]
تم میں سے ھر ایک کو ( بلا استثناء ) اس ” پلصراط ” پر سے گزرنا ھو گا ،،
اسمیں قرآن کے نزول کے وقت کے مخاطب بھی شامل ھیں ،، ان سے پہلے والے بھی شامل ھیں اور قیامت تک آنے والے بھی شامل ھیں ،،
لہذا،،
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ) النساء/159
اورنہیں کوئی اھل کتاب میں سے ” عیسی علیہ السلام کی بعثت سے لے کر قیامت تک” جو ایمان نہ لے آتا ھو عیسی ( کی رسالت و بشریت ) پر اپنی موت سے پہلےاور قیامت کے دن وہ ان کے خلاف گواہ ھو گا ،،، نہ کہ نبوت سمیت نازل ھو کر امتِ محمدی علی صاحبھا الصلاۃ والتسلیم پر گواہ ،،
اگرعیسی علیہ السلام کے واپسی پر تمام یہود و نصاری کے ایمان کا ذکر سمجھا جائے تو ان من اھل الکتاب سے ،، ان کی آمد تک کروڑوں مرنے والے اھل کتاب یہود و نصاری خارج ھوجاتے ھیں ، اور صرف اس وقت کے چند کروڑ ھی باقی بچتے ھیں جو موجود ھونگے ،، نیزجنگی حالات کی تفصیل بتاتی ھے کہ وہ پتھر کا زمانہ ھو گا ،، لڑائیاں تلواروں اورنیزوں سے ھونگی اور سواریاں گدھوں پر ھونگی خود جناب دجال صاحب کافی بڑے سائز کےگدھے پہ بیٹھے ھونگے جس کے کانوں کے درمیان 70 ھاتھ یعنی 70 فٹ کا فاصلہ ھو گا ،تو جناب کمیونیکیشن کے ذرائع تو نہیں ھونگے ، سارے اھل کتاب کو حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد اور مختلف معرکوں کی بریکنگ نیوز کیسے ملیں گی ؟ یہ تو ” ان من ” کے 100٪ خلاف ھو جائے گا،،،
سورہ المائدہ آیت نمبر 75 ،،
ماالمسيح ابن مريم إلا رسول قد خلت من قبله الرسل وأمه صديقة كانا يأكلان الطعام انظر كيف نبين لهم الآيات ثم انظر أنى يؤفكون ( المائدہ 75)
نہیں ھے مسیح ابن مریم مگر صرف رسول تحقیق گزر چکے اس سےپہلے کئ رسول !
یہاں گزر چکے سے مراد مر گئے ، فوت ھو گئے ھے
کیافرق ھے اس آیت میں اور سورہ آل عمران کی آیت 144 میں ؟
( وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( آلعمران 144 )
اورنہیں ھیں محمد ﷺ مگر صرف رسول تحقیق گزر چکے ان سے پہلے رسول ،، یعنی مر گئے ان سےپہلے رسول ،، اس لئے کہ آیت کے اگلے حصے میں حضورﷺ کی موت ھی زیرِ بحث ھے ،،جس موت کی افواہ سے مومنین دل چھوڑ بیٹھے تھے ، فرمایا جا رھا ھے کہ محمد ﷺ رسول ھیں خدا نہیں ھیں کہ جنہیں موت نہیں آئے گی، اگر ان سے پہلے رسولوں کے مرنے پہ کوئی قیامت بپا نہیں ھوئی تو ان کی موت سے کیوں ھو جائے گی ؟ اور اگر یہ طبعی موت مر جائیں یاشہید کر دیئے جائیں تو کیا تم ایمان سے پھر جاؤ گے ؟
أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ ) ؟
یہاں اگر عیسی ” خلت ” میں شامل نہ ھوتے تو اللہ پاک ضرور استثنی دیتا الا ماشاء اللہ کہہ کر یا عیسی کا نام لے کر ،، قد خلت من قبلہ الرسل الا ابن مریم ،، یا الا ما شاء اللہ ،،مگر اللہ نے جس طرح عیسی علیہ السلام سے پہلوں کے مرنے”کھپنے ” کا ذکر کیا ھے اسی طرح بغیر کسی کومے اور فل اسٹاپ کے فرق کے وھی”قد خلت من قبلہ الرسل” حضور ﷺ کے ساتھ استعمال فرمایا ھے ،، یا تو عیسی علیہ السلام سے پہلے کوئی رسول زندہ ثابت کردو پھر حضور والی آیت میں سے عیسی علیہ السلام کو استثناء دے سکتے ھو ،، لفظ خلا بڑا سخت لفظ ھے ،، کسی کا ٹھکانے لگ جانا مر کھپ جانا مراد ھوتا ھے ،،، اس کی مثال ھماری زبان میں موجود ھے مگر دینا میں مناسب نہیں سمجھتا –
سورہ الانبیاء- آیت 34
وماجعلنا لبشر من قبلك الخلد أفإن مۜت فهم الخالدون (الانیبیاء34)
كل نفس ذائقة الموت ونبلوكم بالشر والخير فتنة وإلينا ترجعون ( الانبیاء-35 )
اورھم نے آپ سے پہلے کسی بشر کو ھمیشہ کی زندگی نہیں دی ،(وہ مر گئے )تو اگر آپ مرجائیں گے تو کیا یہ کافر زندہ رھیں گے ؟ ھر جان کو موت چکھنی ھے ، اس سے قبل تم میں سے ھر ایک کو برے اور اچھے حالات کے ساتھ آزمایا جائے گا پھر جزا و سزا کے لئےتم ھماری طرف پلٹائے جاؤ گے ،، الانبیاء 35
اگرعیسی بشر تھے تو نبی ﷺ سے پہلے فارغ ھو چکے ھیں ، نہ کوئی خواجہ خضر زندہ ھے اورنہ عیسی زندہ ھیں ،، اب جو عیسی علیہ السلام کو خدا کا جزء مانتا ھے وھی حضور ﷺ سےپہلے ان کا خلود مانتا ھے کیونکہ اللہ نے خاص کر ” من قبلک ” کہہ کرحضور ﷺ سے پہلے کسی بھی بشر کی زندگی کے امکان کا دروازہ بند کر دیا ھے ،،
سورہ الزخرف !
إن هو إلا عبد أنعمنا عليه وجعلناه مثلا لبني إسرائيل ( الزخرف 59)
نہیں وہ مگر بندے انعام کیا ھم نے اس پہ اور بنایا اس کو مثال بنی اسرائیل کے لئے ،،
غورطلب بات ” مثلاً لبنی اسرائیل ” ھے ،، "مثلاً للعالمین ” نہیں ھے ،جو نقشے کھینچے جاتے ھیں ان کے مطابق تو وہ پوری انسانیت کے لئے مثل نظر آتےھیں ،جبکہ ان کے بارے میں قرآن واضح کرتا ھے کہ ؛؛ وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ – آل عمران 49
وانہ لعلمۤ للساعۃ فلا تمترن بہ واتبعون ،ھذا صراطۤ مستقیم ( الزخرف 61 )
اوریہ قرآن قیامت کے علم یعنی خبروں سے بھرا پڑا ھے پس مت شک میں پڑو اور میری( محمدﷺکی ) پیروی کرو ، یہی سیدھا رستہ ھے ،، اور ( اے مکے والو ) شیطان تمہیں اس سے روک نہ دے بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ھے ،،
” انۜہ ” سے مراد عیسی علیہ السلام کو لینا تکلف کے سوا کچھ نہیں ،، کیونکہ ایک تو انہ خود قرآن کے بارے میں اتنا استعمال ھوا ھے کہ اس کےمقابلے میں کسی اور کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی ،،( و انہ فی ام الکتاب لدینا،وانہ لذکر لک ولقومک ، و انہ تنزیل رب العالمین ، انہ لتذکرۃ للمتقین ،، و انہ لحق الیقین وغیرہ ) دوسرا سورہ کے شروع میں موضوع ھی قرآن حکیم ھے اور قرآن میں ذکرِ عیسی پہ مکے والوں کا استھزاء اور انکار درمیان میں موضوع بنا ،، پھر کہا گیا کہ اب اس کتاب اور اس نبی ﷺ کے بعد قیامت ھی ھے کیونکہ نبوت کے اتمام اور وحی کے اختتام کامطلب ھی یہ ھے کہ اب اگلا سیگمنٹ صرف اور صرف قیامت کا ھے ،، درمیان میں اور کوئی قابلِ ذکر بات نہیں ھے ،، پھر آیت کے آخر میں یہ کون کہہ رھا ھے کہ ” واتبعون” سو میری پیروی کرو ؟ ظاھر ھے یہ نبئ کریم ﷺ ھی اپنے اوپر ایمان کی دعوت دےکر اپنے اتباع کا تقاضہ کر رھے ھیں ،، عیسی علیہ السلام کا اپنی قوم کی طرف آنااور قوم سے خطاب کرنا اور قوم کا جواب دینا تو شروع ھی اگلی آیت سے ھوتا ھے ، اس رکوع کی ابتدائی آیات میں نبی کریمﷺ اور مکے والے آمنے سامنے ھیں ،،
ولماجاء عیسی بالبینات قال قد جئتکم بالحکمۃ ،،، زخرف 63 ،،،
دیکھ لیجئے یہاں سے عیسی علیہ السلام کا اپنی قوم کی طرف آنا مذکور ھے ،
” اور جب عیسی آئے نشانیوں کے ساتھ کہا میں آیا ھوں تمہارے پاس حکمت لے کر اور ،،،،، ” علم کو عَلَم بیان کرنا درست نہیں
پھر خود نبئ کریم کو بھی قیامت کی نشانیوں میں سے بیان کیا گیا ھے [یسئلونک عن الساعۃ ایان مرساھا،فیم ان من ذکراھا ـ]
یہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ھیں کہ وہ کب آئے گی ،، ” اس قیامت کے بارے میں کہ” جس کی نشانیوں میں سے آپ بھی ھیں ،، گویا قیامت کی نشانی سامنے کھڑی ھے کہ اب ان کے بعد قیامت ھی ھے اور کوئی رسول اور وحی نہیں ھے
وماتوفیقی الا باللہ ، علیہ توکلت و الیہ انیب !
تمت بفضل اللہ تعالی ،،