روایات کے رد و قبول کے مراحل میں قران کا کردار

روایات کے رد و قبول کے مراحل میں قرآن مہمان کے طور پر بھی کہیں نہیں۔ روایت خود اپنے اصولوں کی بنیاد پر خم ٹھونک کر کھڑی ہے قرآنِ کریم کے ساتھ اس کا سرے سے کوئی تعلق نہیں، لیکن قرآن مجید پر وار کرنے اس کے محکم کو مشکوک کرنے،اس کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے کے معاملے میں یہ بالکل یہود کی مشنی کے نقش قدم پر چلتی ہے۔ روایت کے اصول بھی حقیقت میں یہود سے ہی لئے گئے ہیں جہاں یہ اصول اس قدر طاقتور تھے کہ اگر کوئی روایت ان کے اصول پر پورا اتر جاتی تو وہ اس کی بنیاد پر اپنے رسول پر بدکاری کا الزام بھی لگا دیتے اور امت اس کو تسلیم بھی کرتی اور مدارس میں اپنے بچے بھی پیش کر دیتی ۔ یہی کچھ روایات کی بنیاد پر نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ساتھ بھی کیا گیا ایک فرق کے ساتھ کہ یہود کی روایات کو قرآن نے رد کر کے آن انبیاء کی عصمت کی گواھی دی۔ مگر خود نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے یہی قرآن بےبس ہے۔ قرآن کا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم الگ ہے اور روایات کا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم الگ ہے۔
جہاں قرآن نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے معاملے میں اس قدر حساس ہے کہ مردوں کی بیعت میں نںئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط اطاعت کا حکم ہے، وہیں خواتین کی بیعت میں باقاعدہ معروف کی شرط رکھی گئ کہ نبئ اگر اچھی بات کا حکم دیں تو خواتین ان کی اطاعت کی پابند ہیں اور حکم غیر معروف ہے تو وہ اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیں۔ "ولا یعصینک فی معروف فبایعھن” اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایات کہتی ہیں کہ اپنی گیارہ بیویاں چھوڑ کر دوسری عورتوں سے جؤئیں نکلواتے تھے اور ان کے گھر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ برتن میں جمع کر کے عطر کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ کسی ایک زوجہ مطہرہ سے جوئیں نکلوانے کی کوئی روایت نہیں، نہ ہی پسینہ جمع کرنے کی سعادت امھات المومنین کو نصیب ہوئی۔ ایک روایت میں اس خاتون کو ماں کے رشتے سے محرم بتاتے ہیں تو دوسری روایت میں اس خاتون کو موھوبہ ثابت کرتے ہیں کہ اس خاتون نے اپنے آپ کو گفٹ کر رکھا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ قاتلکم اللہ انی تؤفکون ۔
جب سلفی روایت کو کتاب اللہ کے بالمقابل اس طرح لے آئے ہیں کہ روایت کو قرآن نہ کمزور کر سکتا ہے نہ ہی رد کر سکتا ہے، تو ہم بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ کتاب اللہ کے کسی حکم کو منسوخ کرنے یا مشکوک کرنے یا اس میں کسی آیت کے کم کرنے یا زیادہ کرنے کی جسارت کو مسترد کر دیں۔ یہ کام کرنے اور اس پر چلنے سے ہو گا۔ قرآن سے حوالہ مل جانے کے بعد اطمینان کے لئےں نیچے کسی حوالے کو تلاش کرنا ایمان بالقرآن نہیں بلکہ ایمان بالبخاری و مسلم ہے، یہ قرآن کی سوکنیں بن چکی ہیں ایک دو نہیں، پوری دس ۔ چھ اھلسنت کی اور چار اھل تشیع کی ۔۔ شیعہ کم از کم اس قرآن کو پی سی او کی طرح وقتی سمجھتے ہیں ان کے بقول اصلی تے وڈا ، کامل مکمل قرآن امام مھدی لائیں گے۔ مسئلہ اھلسنت کا ہے جو اسی قرآن کو کامل مکمل سمجھتے ہوئے بھی اس کو بس چوم کر ،اور تلاوت کر کے رہ جاتے ہیں۔ شریعت کے معاملہ ہو یا عقائد کا ان کا ریفرینس کبھی قرآن مجید نہیں ہوتا بلکہ جب تک بخاری شریف اس کی تصدیق نہ کرے ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پھاڑ دیئے اور یہ روایتوں کے پیچھے فرقہ فرقہ ھو چکے ہیں فکان کل فرق کالطود العظیم۔
یہ روایتیں ہر فرقے کو دودھ پلاتی ہیں اور تمام فرقے ان کتابوں کے رضاعی بیٹے ہیں، مگر ایک دوسرے سے لڑتے بھی رہتے ہیں اور اپنی لڑائی کے جواز میں انہی رضاعی ماؤں کا حوالہ دیتے ہیں۔
رہ گیا قرآن تو اپنا مقدمہ قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی عدالت میں پیش کرے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وکالت فرمائیں گے۔
و قال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا۔
#روایت_کو_قرآن_پر_پیش_کرو