قرن اول میں قرآن اور حدیث میں قضا کا لفظ ادا کے لئے استعمال ہوتا تھا ،، پھر فقہاء نے اپنے اصول کے تحت قضا کا لفظ فوت شدہ عبادت کے بارے میں ایجاد کیا ، اور وقت پر ادا کیئے جانے کو ادا کے طور پر متعارف کرایا ،، پھر قرّآن تو ان کی دستبرد سے بچ گیا مگر روایات میں ازواج مطھرات کی طرف سے استعمال کیئے گئے مسنون لفظ قضا یعنی ادا کو اپنی اصطلاح کے تابع لا کر ادائیگی کے حکم کو عدم ادائیگی کے ترجمے میں لے آئے ، یہاں حضرت عائشہؓ صدیقہ فرما رہی ہیں کہ ہمیں روزے تو ادا[ قضا] کرنے کا کہا جاتا تھا مگر نماز کی ادائیگی کا نہیں کہا جاتا تھا ،، یہ فقہاء لا قضا والا ترجمہ قرآنی آیات میں داخل کر کے دیکھئے دین کا کیا حشر ہوتا ھے ـ
۱ـ فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا (103) النساء ـ
پھر جب تم نماز قضا کر دو تو اللہ کا ذکر کرو، کھڑے،بیٹھے اورلیٹے ہوئے اپنی کروٹوں کے بل ـ پھر جب مطمئن ہو جاؤ تو نماز قائم کرو نماز بےشک نماز وقت پر پڑھنا فرض کیا گیا ہے[ یہاں قضا ادا کے معنوں میں ہے ، مگر فقیہوں کی قضا کا ترجمہ دیکھ لیں ۱۸۰ ڈگری مخالف ہے ،،
۲۔ ـ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (10) الجمعہ
پھر جب نماز قضا کر دی جائے تو زمین میں منتشر ہو کر اللہ کا فضل تلاش کرو اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو تا کہ تم کامیاب ہو ـ[ یہاں بھی قضا اللہ کی لغت میں ادا ہی کے معنوں میں ہے مگر فقیہوں کی قضا کا ترجمہ دیکھ لیں
۳ ـفَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (200) البقرہ
پھر جب تم حج کے مناسک قضا کر دو تو اللہ کا اس قدر ذکر کرو جس قدر اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ ـ ،،،،،
اگر کسی نے روزہ رکھ لیا بعد میں کسی وجہ سے توڑنا پڑا۔ شوگر کم ہو گئی یا بخار زیادہ ہو گیا، تو صرف قضا روزہ رکھنا ہے کفارہ نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ اس ڈر سے روزہ ہی نہیں رکھتے کہ اگر درمیان میں توڑنا پڑا تو گناہ ہو گا اور کفارہ ادا کرنا پڑے گا،ایسی کوئی بات نہیں ،اللہ توکل روزہ رکھ لینا چاہئے تکلیف زیادہ ہو جائے تو توڑ دینا چاہیے۔یہ جو مشہور ہے کہ روزہ رکھ کے توڑنا بہت بڑا گناہ ہے،عذر کی وجہ سے جب چاہے روزہ توڑ سکتا ہے۔ نفلی روزہ رکھنے والا اپنی مرضی کا مالک ھوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں کچھ بھی نہ ھونے کی وجہ سے روزہ رکھ لیا اور اھل بیت نے بھی ۔ بعد میں کسی نے ھدیئے میں گوشت بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا روزہ بھی ختم کر دیا اور ازواج مطہرات کا روزہ بھی کھلوا دیا ۔ نفلی روزے کی قضا لازم نہیں ۔ فرض روزے کی قضاء لازم ہے ۔
واضح رہے فرض روزہ اگر جنسی عمل سے توڑا جائے تو کفارہ ہے۔کھانے پینے کے ذریعے توڑنے کا کوئی کفارہ نہیں ۔
محمد حنیف ڈار