عام طور پر عام مسلمان پہ فوقیت اور علماء کی عظمت کی دلیل کے طور پر ایک آیت استعمال کی جاتی ھے !
” ﴿ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ ﴾ [الزمر:9]
کہہ دیجئے کیا برابر ھیں جاننے والے اور وہ جو نہیں جاننے والے ؟
ھماری مولویانہ ترجمانی ھوتی ھے ” کہہ دیجئے کیا برابر ھیں علماء اور عام مسلمان ؟ ”
حالانکہ اس آیت میں جاننے والے سے مراد مسلمان اور نہ جاننے والوں سے مراد کافر ھیں ! سارے مسلمان جاننے والے ھیں ،، چاھے وہ علماء ھوں یا عام مسلمان !
جس کو وضو کے مسائل معلوم نہیں ، جمعہ جماعت ، وضو غسل ، روزے ،زکوۃ اور حج کے مسائل جنہیں نہیں معلوم وہ بھی یعلمون میں شامل ھیں کیونکہ یہ آیت مکی ھے اور وھاں نہ وضو تھا نہ اس کے مسائل تھے ، نہ غسل تھا نہ اس کے مسائل تھے ، نہ جمعہ تھا نہ اس کے مسائل تھے، نہ روزہ تھا نہ اس کے مسائل تھے ، نہ زکوۃ تھی نہ اس کے مسائل تھے ، نہ حج تھا نہ اس کے مسائل تھے ،، درسِ نظامی تو صدیوں بعد کی ایجاد ھے مگر مسلمان اس وقت بھی یعلمون میں شامل تھا،،
وضو اور غسل کا حکم مدینے آ کر مدنی صورتوں میں دیا گیا ھے ، اسی طرح جمعے جماعت ،روزے زکوۃ اور حج کے احکامات اس آیت کے نزول کے بعد مدینے میں نازل ھوئے !!
اگلی دھمکی !
تمہارے نکاح اور جنازے کون پڑھاتا ھے ؟ اپنے نکاح اور جنازے فلاں فلاں سے پڑھا لینا !
نکاح کوئی آدمی میں پڑھا سکتا ھے ، کوئی بندہ بھی ایجاب و قبول کرا سکتا ھے ، یہانتک کہ کسی غیر مسلم جج کی عدالت میں بھی ایجاب و قبول ھو سکتا ھے ،، خطبہ نکاح سنت ھے ، نکاح کے فرائض و واجبات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ،، لوگوں کی سُستی نے مولانا صاحب کو نکاح کا لازمی جزو قرار دے کر ان کی روزی روٹی کا سامان کر رکھا ھے اس کے لئے مولانا صاحب کو معاشرے کا مشکور ھونا چاھئے نہ کہ بلیک میل کرنا چاھئے !
جنازہ یا تو حاکمِ وقت یا اس کا کوئی نمائندہ پڑھائے ،، ورنہ سب سے زیادہ حقدار میت کا شوھر باپ بیٹا اور بھائی ھیں ،، جس دردِ دل سے ایک بیٹا اپنے والد کے لئے دعا کرے گا مولوی صاحب کبھی نہیں کر سکتے ،یہاں بھی معاشرے کی سستی ھے جو مولوی صاحب کے لئے ویکنسی پیدا کرتی ھے ورنہ جنازے کے ساتھ مولوی صاحب کا کوئی تعلق نہیں ،، یہ دو چیزیں ھیں جن کے لئے میرے دوست کہتے ھیں کہ مولوی معاشرے کا لازم و ملزوم جزو ھے ،، حالانکہ دائی اور نائی زیادہ لازم و ملزوم حصہ ھیں معاشرے کا ،، مگر وہ دونوں بلیک میل نہیں کرتے ، نہ خدا کے لہجے میں بولتے ھیں عام انسانوں میں عام انسان کی طرح رھتے ھیں ،، مولوی صاحب کو علم کا خمار اتار کر عام انسانوں میں شامل ھونا چاھئے ،، ھماری جوتیاں ھمارے سر نہیں مارنی چاھئیں !!
عام طور پر عام مسلمان پہ فوقیت اور علماء کی عظمت کی دلیل کے طور پر ایک آیت استعمال کی جاتی ھے !
” ﴿ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ ﴾ [الزمر:9]
کہہ دیجئے کیا برابر ھیں جاننے والے اور وہ جو نہیں جاننے والے ؟
ھماری مولویانہ ترجمانی ھوتی ھے ” کہہ دیجئے کیا برابر ھیں علماء اور عام مسلمان ؟ ”
حالانکہ اس آیت میں جاننے والے سے مراد مسلمان اور نہ جاننے والوں سے مراد کافر ھیں ! سارے مسلمان جاننے والے ھیں ،، چاھے وہ علماء ھوں یا عام مسلمان !
جس کو وضو کے مسائل معلوم نہیں ، جمعہ جماعت ، وضو غسل ، روزے ،زکوۃ اور حج کے مسائل جنہیں نہیں معلوم وہ بھی یعلمون میں شامل ھیں کیونکہ یہ آیت مکی ھے اور وھاں نہ وضو تھا نہ اس کے مسائل تھے ، نہ غسل تھا نہ اس کے مسائل تھے ، نہ جمعہ تھا نہ اس کے مسائل تھے، نہ روزہ تھا نہ اس کے مسائل تھے ، نہ زکوۃ تھی نہ اس کے مسائل تھے ، نہ حج تھا نہ اس کے مسائل تھے ،، درسِ نظامی تو صدیوں بعد کی ایجاد ھے مگر مسلمان اس وقت بھی یعلمون میں شامل تھا،،
وضو اور غسل کا حکم مدینے آ کر مدنی صورتوں میں دیا گیا ھے ، اسی طرح جمعے جماعت ،روزے زکوۃ اور حج کے احکامات اس آیت کے نزول کے بعد مدینے میں نازل ھوئے !!
اگلی دھمکی !
تمہارے نکاح اور جنازے کون پڑھاتا ھے ؟ اپنے نکاح اور جنازے فلاں فلاں سے پڑھا لینا !
نکاح کوئی آدمی میں پڑھا سکتا ھے ، کوئی بندہ بھی ایجاب و قبول کرا سکتا ھے ، یہانتک کہ کسی غیر مسلم جج کی عدالت میں بھی ایجاب و قبول ھو سکتا ھے ،، خطبہ نکاح سنت ھے ، نکاح کے فرائض و واجبات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ،، لوگوں کی سُستی نے مولانا صاحب کو نکاح کا لازمی جزو قرار دے کر ان کی روزی روٹی کا سامان کر رکھا ھے اس کے لئے مولانا صاحب کو معاشرے کا مشکور ھونا چاھئے نہ کہ بلیک میل کرنا چاھئے !
جنازہ یا تو حاکمِ وقت یا اس کا کوئی نمائندہ پڑھائے ،، ورنہ سب سے زیادہ حقدار میت کا شوھر باپ بیٹا اور بھائی ھیں ،، جس دردِ دل سے ایک بیٹا اپنے والد کے لئے دعا کرے گا مولوی صاحب کبھی نہیں کر سکتے ،یہاں بھی معاشرے کی سستی ھے جو مولوی صاحب کے لئے ویکنسی پیدا کرتی ھے ورنہ جنازے کے ساتھ مولوی صاحب کا کوئی تعلق نہیں ،، یہ دو چیزیں ھیں جن کے لئے میرے دوست کہتے ھیں کہ مولوی معاشرے کا لازم و ملزوم جزو ھے ،، حالانکہ دائی اور نائی زیادہ لازم و ملزوم حصہ ھیں معاشرے کا ،، مگر وہ دونوں بلیک میل نہیں کرتے ، نہ خدا کے لہجے میں بولتے ھیں عام انسانوں میں عام انسان کی طرح رھتے ھیں ،، مولوی صاحب کو علم کا خمار اتار کر عام انسانوں میں شامل ھونا چاھئے ،، ھماری جوتیاں ھمارے سر نہیں مارنی چاھئیں !!