انسانوں میں نفسیاتی خلیج کو وسیع کرنے، اور جینیریشن گیپ کی تخلیق میں زمانوں کے تقدس کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ھے ! یہی زمانی تقدس نئی تحقیق و تخلیق میں زھرِ قاتل اور انسان کی ذھنی نشو و نما کے شجر کے لئے آکاس بیل ھے ! ھمارا زمانہ بھی بہت مقدس ھوتا تھا،اس کی ھر چیز مقدس تھی، ھمارے زمانے کا پیار بھی مقدس ھوتا تھا – اس کی دو واضح وجوھات تھیں،، ایک تو وہ پیار اس لیئے مقدس تھا کہ وہ شروع ھی مسجد سے سیپارہ پڑھتے ھوئے ھوتا تھا، اب جس محبت کی جائے پیدائش ھی مسجد ھو اس کے تقدس میں کس کو شک ھو سکتا تھا، مرزا اور صاحبہ کی محبت کی اوریجن بھی مسجد تھی جو اس شعر سے واضح ھے” صاحبہ پڑھے پٹیاں تے مرزا پڑھے قرآن ” اس سے یہ بھی ثابت ھوا کہ مرزا عمر میں صاحبہ سے بڑا تھا کیونکہ وہ سینئر تھا،، مسجد اور محبت کا چولی دامن کا ساتھ تھا،وجہ اس کی غالباً یہ تھی کہ اسکولوں میں اس زمانے میں ” کو ایجوکیشن ” کا رواج نہیں تھا ! نتیجہ یہ تھا کہ اسکول کوئی جائے نہ جائے،مدرسہ کوئی مس نہیں کرتا تھا،، ھمارے زمانے کی محبت کے تقدس کی دوسری دلیل یہ ھے کہ یہ محبت اس لئے ھوتی تھی کہ محبوبہ کی شکل میں محبوب کی والدہ یا مرحومہ پھوپھو جی کی جھلک پائی جاتی تھی اور کوئی تیسری خفیہ وجہ نہیں ھوتی تھی،نتیجے کے طور پر کسی قسم کے زنانہ اور مردانہ خفیہ امراض بھی نہیں پائے جاتے تھے،، ھمارے زمانے کے گانے بھی مقدس ھوتے تھے، جن میں کئی بار اللہ کا نام آتا تھا،، واسطہ ای رب دا تو جانویں وے کبوترا،، ھم ان گانوں سے پیٹرول کا کام لیتے تھے،،اس لئے ھمارے زمانے میں پیٹرول مہنگا بھی نہیں ھوتا تھا،، ھم صبح اسکول جاتے تو سردی میں کہر زدہ صبح کو پانچ میل پیدا جاتے ھوئے گرم گرم گانے گاتے جاتے، اتنے گرم کہ کئی دفعہ گرم گرم آنسو ٹپک پڑتے ،ویسے بھی سنا تھا کہ موسیقی حرام ھے گانا حرام نہیں ھے،،گرمیوں میں ٹھنڈے گانے اتنے ٹھنڈے کہ کسی ماحولیاتی آلودگی کا کوئی خطرہ نہ پایا جاتا تھا،الغرض کوئی احساسِ جرم نہ تھا،، مولوی حضرات بھی اپنے بھائی بند ھوتے تھے،فتوی فتوی نہیں کھیلا کرتے تھے،گویا ھمارے زمانے کے علماء بھی اللہ والے ھوتے تھے فتوے والے نہیں ! زمانے کے تقدس کا تعلق تقوے کے عروج و زوال کے ساتھ بھی تھا،، کبھی جو چیز گناہ ھوتی تھی بڑے گناہ کے آ جانے کے بعد وہ ریٹائرڈ ھو کر نیکی بن جاتی تھی،جس طرح کسی بھی بوڑھی خاتون کو دیکھو تو اپنی امی کی طرح مقدس لگتی ھے،حالانکہ جوانی میں وھی لارا لپا گرل لگتی تھی،جس طرح بڑھاپا آؤٹ لک کو پاکیزہ بنا دیتا ھے، اسی طرح سابقہ زمانے کے عیب بھی خوبیاں کہلانا شروع کر دیتے ھیں،، تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ھے کہ ھم گانے ریڈیو پر سنا کرتے تھے،مغرب کی نماز کے بعد آ کر مکان کی چھت پر لیٹ کر سینے پر ریڈیو رکھ کر گانا سننے کا اپنا ھی مزہ ھوتا تھا،جبکہ ان کی آواز پڑوس میں بھی سنی جا رھی ھو ! مگر ھم الحمد للہ اپنے کو گنہگار نہیں سمجھتے تھے،کیونکہ یہ گانا ھم تک پہنچنے سے پہلے اتنی دفعہ ری سائیکل ھوتا تھا کہ گناہ کا وزن بس اتنا ھی رہ جاتا تھا جتنا وزن شہر کے تندور کی روٹی کا ھوتا ھے ! سب سے پہلی گنہگار ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی آف پاکستان،، دوسری گنہگار ریڈیو پاکستان کارپوریشن،، تیسرا پروگرام کا پروڈیوسر وغیرہ وغیرہ ،،ھمارے نزدیک گنہگار صرف ٹیپ پر گانا سننے والا تھا کیونکہ وہ کیسٹ خرید کر اپنے انتخاب کے گانے سنتا تھا، اور یوں گناہ کا سارا بوجھ اٹھاتا تھا،،ھمارا پھوپھی زاد حافظ شکیل ھمارے نزدیک اتنا گنہگار تھا کہ ھم اس سے دور ھو کر گزرتے تھے،، پھر ایک دن پتہ چلا کہ حافظ شکیل بھی ھماری طرح پوتر ھو گیا ھے،، کیونکہ گاؤں میں دو گھروں میں ٹی وی آ گیا تو،،یوں میں اور حافظ شکیل ھر نماز کے بعد ان ٹی وی والوں کی عاقبت پر کافی دیر تبصرہ کرتے اور افسوس کا اظہار کرتے ! یہ دونوں ٹی وی بیٹری پر چلائے جاتے تھے،جو مرزا غلام جیلانی اور محمد شان بھٹی کے گھر میں چلتے تھے،جن پر میں نے پہلی دفعہ انوکی اور اکرم عرف اکی پہلوان کی کشتی دیکھی تھی ! پھر وھی ھوا جو اس قسم کے کاموں مین ھوتا ھے،،وی سی آر آ گئے اور یوں ٹی وی والے معصوم بن گئے اور وی سی آر والے مجرم، یہ سلسلہ آج تک جاری ھے،، آج کل کیبل والے گنہگار ھیں باقی سارے پاک صاف ! یہ سلسلہ علمی دنیا میں بھی چلتا ھے،، ھر زمانے میں کسی بھی نئی آراء کو صرف ایک ھی جرم کے تحت رد کیا جاتا رھا کہ یہ بات پچھلے زمانے کے نیک پاک ذھین اور متقی لوگوں نے کیوں نہیں کہی ؟؟ ما سمعنا بھٰذا فی آباءِنا الاولین ! ما سمعنا بھٰذا فی الملۃ الآخرہ ! یہ الگ بات ھے کہ اپنے زمانے میں نئی بات کہہ کر رد کر دیئے جانے والی آراء ،،پرانی ھو کر آنے والے زمانے کے لوگوں کا ایمان بن گئیں،صرف ایک خوبی کی وجہ سے کہ وہ پرانے زمانے کے لوگوں نے کہی تھیں،، یہی معاملہ شخصیات کے ساتھ ھوا،، جن کو اپنے زمانے میں الحاد اور زندقہ اور متجدد کے فتوؤں کا سامنا تھا ، جو ضال اور مضل کہلاتے تھے وہ آنے والے زمانوں کے امام ٹھہرے،، گویا زمانے نے طے کر رکھا ھے کہ ھر زندہ شخص نہ صرف بے وقوف، بدنیت ھے بلکہ فاسق فاجر دین کا دشمن اور ریاکار ھے،، پاک صاف اور نیک پرھیز گار ذھین و فطین اور جینئس کہلانے کے لئے مرنا پڑتا ھے،، اگر آپ کو یقین نہیں ھے تو سیاستدانوں اور علماء کے مرنے کے بعد اگلے دن کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں جنازہ پڑھے جانے سے پہلے ھی وہ پاک صاف ذھین و فطین اور مخلص و متقی ،، امت مسلمہ کی وحدت اور بہتری کے لئے سرگرم و پرجوش مبلغ بن چکے ھوں گے، جن کا خلا صدیوں پُر نہیں ھوگا،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،گویا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ھــو کے بیـتاب میت پہ مـیری ،کیوں یہ تــــم بے نقـــاب آ گئے ھو !
عمر بھـــــر جس سے پردہ کیا تھا،آج کیوں اس سے پردہ نہیں ھے؟؟
ھم تو تازہ تازہ اور گرم گرم کھانے کے عادی ھیں، اس لئے جسے کل زمانہ امام کہے گا ،ھم اسے اپنے زمانے میں ھی امام مان کر اس کے ھاتھ چوم لیتے ھیں، کہ جنازوں پہ رونا ھمیں نہیں آتا،، یہ سبق ھم نے عربی اور اردو لٹریچر پڑھ پڑھ کے سیکھا ھے ! اور اپنی عادت ھے جو سیکھتے ھیں اسے عمل میں بھی لاتے ھیں ! اللہ پاک سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین !!