جن ذھنوں میں صدیاں لگا کر بھر دیا گیا ھے کہ ایک ھاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار لے کر نکلو اور دنیا پہ چھا جاؤ ،، ان ذھنوں میں نئے حقائق ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ھے ، پرانے کو ادھیڑ کر چھوٹا کرنے کی بجائے نیا کپڑا سینا بہت آسان ھوتا ھے – فرعون کے بھٹے پر اینیٹیں بنانے والے اور آل فرعون کے گھروں میں برتن دھونے اور بھنگی کا کام کرنے والے پرانے مائنڈ سیٹ کو دو جلیل القدر پیغمبر بھی تبدیل نہیں کر پائے تھے یہاں تک کے پوری قوم کو 40 سال کے لئے 30 مربع میل کے لق و دق صحراء میں قید کر دیا گیا ، صحراء میں پیدا ھونے والے نئے ذھن نے نئے زمانے کے مطابق حالات کا جائزہ لے کر جب قدم اٹھائے تو بیت المقدس سمیت سب ارضِ مقدس ان کے حوالے کر دی گئ -اسی طرح ھم مر جائیں گے تو آئندہ چالیس سال میں وہ نوجوان نسل وجود میں آ جائے گئ جو ایک ھاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کردار لے کر نکلے گی اور دنیا پر اتمامِ حجت کر دے گی ،، تلوار لے کر نکلنے کا جتنا حق آپ کو حاصل ھے ویسا ھی حق امریکہ برطانیہ فرانس اور روس کو حاصل ھے پھر ان کے خلاف شور کرنے کا فائدہ کیا ؟ لینے کے پیمانے اور دینے کے پیمانے اور ؟