زندہ لیڈر اور زندہ لاشیں ،،
ھم لیڈروں کی بجائے زومبی پالنے کے عادی ھیں ، اس لئے ھمیں زندہ لیڈروں کی خصوصیات عجیب لگتی ھیں ، زندہ لیڈر ھمیشہ جب کوئی چال چلتا ھے تو پہلے اس کے نتائج کو جمع تفریق کرتا ھے ،جہاں جس جگہ اس کے طے کردہ اھداف کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ھو وہ وھاں فورا اپنی چال کا جائزہ لے کر نئے فیصلے لیتا ھے اور اپنے مقاصد کو پا لیتا ھے ، نبئ کریم ﷺ نے بیعت رضوان کے موقعے پر بیعتِ موت مکی مشرکین کا مورال ڈاؤن کرنے کے لئے کی تھی کیونکہ اس دوران مکے میں مذاکرات چل رھے تھے ،مکے والوں نے مسلمانوں کا مورال ڈاؤن کرنے کے لئے شہادتِ عثمانؓ کی افواہ اڑا دی ،، جس کو نبئ کریم ﷺ نے موت تک لڑنے کی بیعت کر کے مشرکین پر ھی الٹ دیا ، اگرچہ آپ جانتے تھے کہ عثمانؓ زندہ ھیں مگر آپ اس افواہ کوکیش کرانا چاھتے تھے چنانچہ آپ نے اپنا بایاں ھاتھ اپنے دائیں ہاتھ میں دے کر اعلان فرمایا کہ یہ عثمانؓ کی بیعت ھے ، بیعت کے بعد مشرکین میں ہلچل مچ گئ اور اسی دن ان کا وفد نبئ کریم ﷺ کو شانت کرنے حدیبیہ آیا اور صلح کا ڈول ڈالا ،جس کو اللہ پاک نے فتح مبین قرار دیا ،کہ آج مکے والوں نے آپ ﷺ کو اپنے مقابل کی قوت تسلیم کر لیا ھے ، چنانچہ اسی اسٹیٹس کو کام میں لاتے ھوئے اللہ کے رسولﷺ نے قیصر و کسری کو بھی خط لکھے ،، صلح کی بات چیت کے دوران ایک موقعے پر بدمزگی پیدا ھو گئ اور قریش نے اعتراض اٹھایا کہ معاہدے میں محمد رسول اللہ ﷺ نہ لکھا جائے کیونکہ اگر آپ کو رسول اللہ تسلیم کر لیں تو پھر خود معاہدے ھی کی ضرورت باقی کیا رہ جاتی ھے ،، اس موقعے پر آپ نے اپنے دستِ مبارک سے محمد رسول اللہ ﷺ صاف کیا اور محمد بن عبداللہ لکھنے کا حکم دیا مگر قریش کو صلح سے پھسلنے نہیں دیا کیونکہ آپ پہلے ھی اس صلح کی اھمیت و عواقب سے آگاہ تھے ،اور قسم کھا رکھی تھی کہ اگر قریش مجھ سے حرام چیز کا نہ مطالبہ کریں تو میں ان کی ھر شرط مان کر بھی صلح کر کے واپس جاؤنگا ،، صلح لکھی تو جا چکی تھی مگر دستخط ھونا باقی تھے کہ قریش کے سفیر سہیل ابن وعمرو کے بیٹے ابوجندلؓ بیڑیاں کھول کر کسی طرح میدانِ حدیبیہ میں پہنچ گئے، ان کے زخم دیکھ کر مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ھو گئے ،، سہیل نے معاہدے میں لکھی گئ شرط کہ ” مکے سے جو بھی مسلمان ھو کر مدینے جائے گا اس کو ھمارے حوالے کیا جائے گا ” پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا ، جس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی تو دستخط نہیں ھوئے ،مگر اس نے کہا کہ زبانی معاہدہ طے ھو جانے کے بعد کاغذی کاروائی کی حیثیت ثانوی ھے ، یا تو ابوجندل میرے حوالے کیا جائے یا معاہدہ پھاڑ دیا جائے ،، اس جذباتی کیفیت میں بھی آپ نے صحابہؓ کے جزبات کی پیروی کی بجائے ایک لیڈر کا سا فیصلہ کیا اور ابوجندل کو ان کے باپ کے حوالے کر دیا اس تسلی کے ساتھ کہ اللہ پاک تیرے لئے رستہ نکالے گا ،، ترکی نے اسرائیل کے خلاف اسلامی دنیا میں سب سے سخت اور جراتمندانہ موقف اپنایا تھا جس کے اھداف باقاعدہ طے کیئے گئے تھے ،، یورپی یونین کے کرائسس کو ابھی 48 گھنٹے نہیں گزرے کہ اس نے اپنے موقف کا جائزہ لیا اور اھداف کو دوبارہ طے کیا ،، معافی مانگنے ،ھرجانہ لینے اور فسطینیوں کے لئے پابندیوں میں نرمی کے معاہدے کے تحت اس نے اسرائیل سے اپنے روابط بحال کر لئے اور اپنے ملک کے معاشی کرائسس کو Divert کر دیا ، دوسری جانب خود روس سے اس کا جہاز گرانے کی معافی مانگ لی یو ں روسی پابندیوں کو بھی کھلوا لیا ،، زندہ لیڈر اور زندہ قومیں مشکل فیصلے کرنے میں دیر نہیں کرتیں ،مگر ھم چونکہ زومبی یا زندہ لاشیں پالنے کا تجربہ رکھتے ھیں ،ھمارے لئے یہ نئ بات ھے ،،، |