مغرب کا وقت تھا ، بجلی کا رواج نہیں تھا اور قصہ ھے عرب امارات کا ،،
جلدی جلدی کھانا کھانے کا رواج تھا ، کیونکہ شام کے بعد لال بیگ اور سرخ موٹھی کی دال کا فرق مٹ جاتا تھا ،، ابا جی بھی کھانا کھا رھے تھے اور مچھروں نے ان کے سر پر گھٹا بنا رکھی تھی ،، خون کا رشتہ ھی ایسا ھوتا ھے کہ ھم سے ابا جی کی یہ مظلومیت دیکھی نہ گئ ، ادھر تازہ تازہ پف پاف چلی تھی ،جس پر لکھا تھا مکھیوں اور مچھروں کے لئے ، ھمیں یہ یقینِ واثق تھا کہ یہ انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتی کیونکہ بنی مچھروں کے لئے ھے !
ھم گولی کی طرح اندر بھاگے اور آتے ھی ابا جی کے سر کو نشانہ بنا کر پف پاف کا اسپرے بےدردی سے شروع کر دیا ،، ابا جی کے پاس کچھ کہنے کا وقت ھی نہیں تھا وہ اٹھ کر باھر کی طرف بھاگے ،،، ھم سمجھے وہ مچھروں سے بھاگ رھے ھیں ، ھم بھی خشوع و خضوع کے ساتھ ان کی سر کی طرف نشانہ لے کر پف پاف کو دبائے ان کے پیچھے دوڑے چلے جا رھے تھے ،، بس ابا جی کا فیوز اڑ گیا انہوں نے پیچھے دیکھے بغیر یونس خان کی طرح سویپ کر دیا ،، ھمیں یہی پتہ چلا کہ ھم پف پاف پہ ھی بیٹھے ، اڑے چلے جا رھے ھیں ،،
اس دن ھمیں اس محاورے کا پتہ چلا ” نیکی برباد گناہ لازم
ھم نے اپنے کزن کو قرآن کالج لاھور داخل کرایا ،،،،،،،،،،،،، ایک دن ایک ھوٹل پہ چائے پینے گیا تو رونا شروع کر دیا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ھوٹل کا مالک کوئی رحم دل انسان تھا ،وہ پاس آیا اور پوچھا ” بیٹا چائے کے پیسے نہیں ھیں ؟ انہوں نے سسکیاں لیتے ھوئے جیب میں ھاتھ ڈالا اور پیسوں کی گڈی نکال کر دکھا دی ، مگر منہ سے کوئی جواب نہیں دیا ،، پوچھا بیٹا اسٹودنٹ ھو ؟ انہوں نے سر اثبات میں ھلا دیا ،،،،،، پوچھا ” پڑھنے پہ دل نہیں کرتا ؟ جی مجھے پڑھنے کا شوق ھے ،، تو میرے ابا جی اب یہ بتانے کے کتنے پیسے لو گے کہ تم کیوں رو رھے ھو ؟ ھوٹل والے نے تپ کر کہا ،،،،،،،،،
جی پنڈی ڈھوک سیداں میرے ماموں کا ھوٹل ھے ، اس کی کرسیاں بالکل آپ کے ھوٹل جیسی ھیں،، ان کو دیکھ کر گھر یاد آ گیا ھے ،کزن نے جواب دیا ،،،،،،،،،،،،،،
یہی حال ھمارا پانی پینے والے ڈرم میں جونک کو بے تکلفی سے کبھی بٹر فلائی اسٹروک اور کبھی بیک اسٹروک لگاتے دیکھ کر ھوا ،،،،،،،،،،،، پہلے ھمیں پاکستان یاد آیا ،پھر اپنا ضلع یاد آیا ،،،، پھر اپنا گاؤں یاد آیا ،، پھر اپنی بَن یاد آئی اور پھر دادی کی گائے یاد آئی جس کے تھنوں سے ایسی جونکیں لپٹی ھوتی تھیں ،، ھماری سسکیاں نکل نکل گئیں ،، ھمیں اس جونک سے پیار ھو گیا ،،،،،،، ھم دن میں کئ بار جا کر اسے دیکھتے اور پھر دیکھتے ھی رہ جاتے ، بعض دفعہ امی ھمیں چائے کا خیال رکھنے کو بول کر اپنے کام میں لگ جاتیں اور ھم جونک کا خیال رکھنے چلے جاتے ،، چائے چولہے میں اور جوتے ھمارے سر پہ ھوتے مگر ،، یہ پیار کا وہ والا بخار نہیں تھا جو اس قسم کے جوتوں سے ختم ھو جائے ،،،،،،،،،، ٹھنڈا پانی لینے ھم 35 کلومیٹر دور ابوظہبی بس میں جاتے جہاں سے 2 درھم میں ٹھنڈے پانی کا کولر بھر کر لاتے ،،،،،،،،،،، بس کا کرایہ 25 فلس یعنی چار آنے ھوا کرتا تھا