ھم پردیسی ھوئے تو والد صاحب نے سب سے پہلا سبق پڑھایا کہ جب بھی کوئی آپ سے بات کرے تو آپ نے اسے جواب دینا ھے ” انا عربی ما اعرف ” ھم مخاطب کو جب عربی لہجے میں تجوید کے پورے مخارج کا خیال رکھتے ھوئے بتاتے کہ ھمیں عربی نہیں آتی تو وہ بھی سھیل وڑائچ کی طرح حیران ھو کر پوچھتا کہ عربی بول کر کہتے ھو کہ عربی نہیں آتی ،، کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ھے ؟ ھم اسے عربی کہہ کر اپنا چہرہ اپنے دائیں ھاتھ کی ہتھیلی پر لٹا کر اور آنکھیں بند کر کے سمجھاتے کہ ، اس کے بعد ھماری عربی سو گئ ھے ،،
دس تک گنتی سکھائی گئ جس میں ھمیشہ تسعہ اور ستہ نے کنفیوز رکھا ،، ھم ستہ کی جگہ تسعہ کہہ دیا کرتے تھے ،، آخر ھم نے عربی سیکھنے کا ایک کریش پروگرام شروع کیا ،،جس کے لئے طوطا کریسی سافٹ ویئر استعمال کیا گیا ،، طوطے کو بات چیت پر مجبور کرنے اور پھر کچھ سکھانے کے لئے سبز مرچ کھلائی جاتی ھے ،، بس کھا کر اسے جب مرچیں لگتی ھے تو وہ ٹیں ٹیں کرتا ھے ، اس وقت اسے الفاظ پکڑائے جاتے ھیں کہ ” میاں مٹھو چوری کھاسیں ” یا گڈ مارننگ ،، مگر اصل میں وہ طوطا گالیاں دینا چاھتا ھے اور آپ اس سے مثبت کام لے لیتے ھیں ،وہ ھم پہ اعتبار کر کے سمجھتا ھے کہ یہ جملہ بولوں گا تو مرچیں ختم ھو جائیں گی اور ھم اس کے اعتماد سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ھیں ،،پڑوس کے ایک عربی لڑکے کو ھم سارے بھائی گھیر لیتے اور اسے خوب تنگ کرتے ،، جس پر وہ جتنی گالیاں دیتا وہ ھم نوٹ کر لیتے اور شام کو والد صاحب سے ان کا ترجمہ پوچھتے مگر وہ ایسے بچوں کے ساتھ گھومنے سے منع کرتے جو اس قسم کی عربی بولتے ھیں ، ھمارے ساتھ ھمیشہ یہی واردات ھوتی ھے جب پشتو سیکھنے کی کوشش کی تو پٹھان نے بھی گالی سکھا کر دوسرے مچھندر قسم کے پٹھان کے پاس بھیج دیا کہ پریکٹیکل کر کے آؤ، جب تک ھم اس پٹھان کو یہ سمجھاتے کہ ھم پشتوکے طالب علم ھیں تب تک وہ ھمارے کان لال کر چکا تھا خیر ھم جوابی عربی بھی اس کے ساتھ بولا کرتے جو عموماً گلاساً وۜ چمچًا وَۜ کھیراً و پلیٹاً وۜ حلوی الکتاب و کُکڑ الذین و سیویاں ھُو و دالُہ پر مشتمل ھوتی ،، مگر اس بات کا خاص اھتمام ھوتا کہ لہجہ عربی ھی نظر آنا چاھئے ،،ھماری عربی سن کر اس ” تُلُنگے” عربی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں ، تُلُنگا نام اس کو نہایت کمزور اور پتلا ھونے کی وجہ سے ھمارے بھائی نے دیا تھا ،، آخر تنگ آ کر اس نے اپنے والد کو بتایا کہ یہ لڑکے مجھے تنگ کرتے ھیں ،، اس کا والد پولیس میں کام کرتا تھا ،،
امی جان بیمار ھو کر اسپتال داخل تھیں اور ھمیں چالیس دن کی بہن کو سنبھالنا پڑ رھا تھا ،، اس شدید گرمی میں ھم لکڑی کے بنے کمرے میں کہ جس کا فرش کچا اور ریتلا تھا ، ایک گڑھا کھودتے پھر اس کی ریت کو پانی سے بھر کر ٹھنڈا کرتے ،، اور پھر بہن کو اس میں لٹاتے ،، نیڈو کا پاؤڈر دودھ فیڈر بنا کر پلاتے ، اور پانی چولہے پہ رکھ کر چاول ڈال دیتے جو کہ ابل ابل کر پانی اندر ھی خشک ھو جاتا اور چاول بھات بن جاتے ،، ابا جی بھی صبر شکر کر کے کھا لیتے ،، مگر وہ سمجھ نہیں پائے کہ چاول کا یہ بھُرتہ ھم کیسے بناتے ھیں ،، آخر انہوں نے پوچھ ھی لیا کہ یہ چاول ھی ایسے ھیں یا تم ان کے ساتھ کوئی خاص حرکت کرتے ھو ؟ ھمارا فارمولہ سن کر انہوں نے سمجھایا کہ چاول جب ابل جائیں تو پانی نکال دیتے ھیں ،، ھم تو چاول پکانے میں لگے ھوئے تھے ،، ادھر عربی کلاس کا وقت بھی ھو گیا ،، ھم نے چھوٹے بھائی کو ھی جہاد پر بھیج دیا کہ آج آپ اکیلے ھی جاؤ،، وہ بھی ” چل چل رے نوجوان ،ڈرنا تیرا کام نہیں ،لڑنا تیری شان پڑھتا ھوا چلا گیا ،،مگر ابھی ھم نے پانی والا دیگچہ رکھا ھی تھا کہ ،، ٹھاہ ٹھاہ ،، تڑال تڑال ،دھما دھما ،، اور رونے دھونے اور ھائے مر گیا ،کی آوازیں آنا شروع ھوئیں ،، ھم باھر دوڑے کہ مسئلہ کیا ھے ؟ کہیں تُلُنگہ آج ڈاکٹر جیکل والا عفریت تو نہیں بن گیا ،،،،،،، دور سے دیکھا کہ اس تُلنگے کا باپ شرطے کی وردی میں ،، چھوٹے بھائی کی سروس کر رھا ھے ،، اس کا باپ چھپ کر دیکھتا رھا ،جونہی میرے بھائی نے اس کے بیٹے کا رستہ روکا وہ چیل کی طرح دروازے سے نکلا اور سارے بدلے چکا لئے ،، ھمارے خون نے بھی جوش مارا ،مگر ھم نے اس کا گیئر تبدیل کر کے ریورس میں کر لیا اور دروازے کی اوٹ سے بھائی کی درگت بنتے دیکھتے رھے ،