سادگی

ھمیں گرمی کی چھٹیوں میں مختلف ھنر سیکھنے کے کام پر لگا دیا جاتا ،، مثلاً درزی کے پاس بٹھا دیا جاتا جہاں ھم دو ماہ میں ساری برادری کے چھوٹے کپڑے بڑے اور بڑے کپڑے چھوٹے کرتے یوں اپنی مہارت میں اضافہ کرتے جس کو عرفِ عام میں ہاتھ سیدھا کرنا کہتے ھیں ، عام طور پہ بعض ساسیں بھی دو چار بہویں تو ہاتھ سیدھا کرتے کرتے ” ھَنڈا بر وزنِ ھٹا ” دیتی ھیں اور جب تین چار قسم کے پوتیاں پوتے جمع ھو جاتے ھیں تو اصلی بہو لے کر آتی ھیں ،، ھمارے خطبوں میں اعتماد کا وجود اسی زمانے کی عطا ھے ،جو لوگ اپنے اندر اعتماد کی کمی پاتے ھیں صرف دو ماہ علاج سمجھ کر کسی درزی کے پاس صرف ناپ لینے کا کام کریں ، ان شاء اللہ پھر کسی انسان کے رعب میں نہیں آئیں گے ،، انسان کو ناپتے ناپتے انسان کی حقیقت ان کے اندر بیٹھ جاتی ھے یوں لوگوں سے بات نہ کر سکنا ، یا بات کرتے ھی پسینے چھوٹ جانا یا ھکلاہٹ یا بوکھلاہٹ کا شکار ھو جانا قسم کی نفسیاتی بیماریوں کی گرہ کھل جاتی ھے ،،،، جب کبھی کسی خاص بندے کے کپڑے سینے ھوتے تو ماسٹر محمد عالم مرحوم ” اللہ پاک انہیں غریقِ رحمت فرمائے ” مجھے وارننگ دیا کرتے کہ یہ بندہ خود بھی درزی کا کام جانتا ھے لہذا ” سیڑھ ” یعنی سلائی سیدھی رکھنا ،، مولوی جب مولوی ھی سے ھمکلام ھو تو ” سیڑھ ” سیدھی رکھنی چاھئے کیونکہ چار حرف اگلا بھی جانتا ھوتا ھے ،،
امارات میں آمد ھوئی تو بھی یہ سلسلہ جاری رھا ،یہاں چھٹیوں میں الیکٹریشن ،فریج ریپئر ، اور موٹر مکینک کے ساتھ کام کرنا ھوتا تھا ،، یوں سارے کام آتے چلے گئے ،، آج الحمد للہ سینیٹری ،الیکٹرک اور موٹر مکینک کے سارے ٹولز الماریاں بھر کر رکھے ھیں ،، کاروبار شروع کیا تو ریڈی میڈ کپڑوں اور زنانہ ضروریات کے سامان کی دکان کھولی گئ ، عمانی عورتیں کالی سیاہ اوپر سے ننجنا ٹرٹل کی طرح کا نکوڑا ھوتا جس نے ماتھا ناک کی لمبائی اور پھر آنکھوں کے گرد کا ایریا گھیرا ھوتا ،، وہ جب دکان میں داخل ھوتی تو وھی منظر ھوتا جو حبشیوں کے طواف و سعی کے دوران ھوتا ھے ،، بس افراتفری ،، خواتین جب اپنے سامان والے حصے میں جاتیں تو ھم کبھی ادھر کا رخ نہ کرتے کیمرے بھی کوئی نہیں تھے اور ان کو خوفِ خدا بھی نہیں تھا ، وہ ایک خرید کر جبکہ دو چرا کر لے جاتیں ،،، اور جو خریدا جاتا وہ بھی قرض ھوتا ، یہ قرضِ ھسنا نہیں بلکہ قرضِ رونا ھوتا کہ تفصیل جس کی آیا چاھتی ھے ،،،،، ھمارے سب سے زیادہ لائن لاسز(Line Losses ) خواتین والے سیکشن میں ھی ھوتے ،،
قرض وصول کرنا بھی ایک الگ عذابی مرحلہ ھوتا ،، آپ جونہی گھر کے باھر سے آواز دیتے خاتون کہتی تعال ،ادخل ،،، جب داخل ھو جاتے تو وہ دروازہ بند کر لیتی اور” ھیت لک "کی بجائے ” نس کے دس ” والی صدا آتی ،، مار مار کر وہ توبہ کرا لیتیں کہ آئندہ آؤ گے پیسے لینے ؟ دو چار بار مار کھانے کے بعد ھم نے یہ قرض قیامت کو ھی وصول کرنے کا فیصلہ کیا ،، لوگ ویسے بھی ننگے ھونگے تو اچھے ریٹ پر بک جائیں گی ،،،، البتہ ھم نے ان گھروں کو اوپن یونیورسٹی کا درجہ دے کر اپنے چھوٹے بھائیوں کی تربیت کے کورسز شروع کر دیئے ،، اسی یونیورسٹی کا کمال ھے کہ الحمد للہ آج بھی ھمارے بھائی مثالی تابعدار ھیں ،، جب بھی کوئی بھائی ھماری حکم عدولی کی جسارت کرتا ،، اس کو سبق سکھانے کے لئے یونیورسٹی داخل کرا کر خود باھر کھڑے ھو جاتے ،، ھم والد صاحب کو کہتے کہ کچھ بقایا لینا ھے تو ذرا چھوٹے بھائی کو ساتھ بھیجنا کیونکہ یہ ابھی نابالغ ھے ،، بس بھائی کو ھم ایک گھر میں داخل کرا دیتے جس میں ایک خاتون رانا ثناء اللہ ٹائپ رھتی تھی ،،، جونہی بھائی جا کر پیسے مانگتا وہ لمبا ڈال لیتی اور اندر سے آہ و بکا کی دلدوز آوازیں آنا شروع ھو جاتیں ،،، تھوڑی دیر کے بعد بھائی ٹام کی طرح سوجی ھوئی بہتی ناک اور آنسوؤں سے لبریز بھینگی آنکھوں کے ساتھ باھر نکلتا تو ھم ھمدردی کے انداز میں کنفرم کر لیتے کہ مارا تو نہیں اس نے ؟ اور اس کے مثبت جواب پر اسے گھر لے آتے ،، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادھر ھمارے منہ سے بات نکلتی ادھر بھائی پورا کرنے دوڑ پڑتے کیونکہ انہیں اگلی منزل کا پتہ ھوتا تھا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،