سورہ النور میں اللہ پاک کی طرف سے نبئ کریم ﷺ اور آپ کے اھلِ بیت کے بارے میں اللہ کا طے کردہ یہ اصول انسانوں کے طے کردہ کروڑوں اصولوں پر فوقیت رکھتا ھے کہ جب بات نبی ﷺ اور ان کے گھر والوں کی ھو تو راوی مت دیکھیو گا ،، فُٹے اور فیتے لے کر راویوں کے قد ماپنے مت چل دیجئو گا ،، سنتے ھی سبحانک ھذا بہتانۤ عظیم کہہ کر اللہ کی پناہ میں آ جائیو گا اور اس واقعے کو اپنے نفس ،اپنی ذات اور اپنے ضمیر پر پیش کیجئو گا ،، جب تیری ذات ،تیرا ضمیر اور تیرا نفس اسے اپنی ذات کے لئے بھی قبول نہ کرے تو اسے کاشانہءِ نبوی کی طرف منسوب مت کیجئو گا کہ وہ تجھ جیسے کروڑوں اور اربوں نیک انسانوں سے بھی زیادہ نفیس اور نیک ، متقی اور خدا ترس لوگ تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ جن کو پاک کرنے اور پاک رکھنے کا عہد اللہ نے آخری کتاب میں لیا ھے ،،، اور یہ اصول جس واقعے پر طے کیا تھا ،ان سے زیادہ قوی راوی کوئی نہیں تھا ،،، حضرت حسان بن ثابت الانصاریؓ شاعرِ رسول ﷺ اور حضرت مسطح ابن اثاثہؓ مھاجر بدری صحابی اور حمنہ بنت جحشؓ نبی ﷺ کی پھوپھی زاد بہن اور سالی لگتی تھی ،، تینوں کی ثقاھت نہیں دیکھی گئ بلکہ 80،80 کوڑے مارے گئے ،،، اور قیامت تک اصول طے کر دیا گیا ،،،،
لولا إذ سمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات بأنفسهم خيرا وقالوا هذا إفك مبين ( النور -12)
جب تم نے اس خبر کو سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا ؟ اور سنتے ھی کہہ کیوں نہیں دیا کہ یہ واضح طور پر تراشا ھوا جھوٹ ھے ،، اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے یہی کہا تھا کہ اے ام ایوب اگر تم عائشہؓ کی جگہ ھوتیں تو کیا اس فعل کا ارتکاب کر لیتی؟ تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی پناہ میں کبھی ایسا نہ کرتی تو انہوں نے فرمایا پھر عائشہؓ جو تم سے بہتر ھے وہ یہ فعلِ بد کیسے کر سکتی ھے اور صفوان مجھ سے بہتر اور بدری صحابی ھے وہ بھلا اس کا ارتکاب کیسے کر سکتا ھے ،،،؟؟
وَ ﻟَوْ ﻻ إِذْ ﺳَﻣِﻌْﺗُﻣُوهُ ﻗُﻟْﺗُمْ ﻣﺎ ﯾَﮐُونُ ﻟَﻧﺎ أَنْ ﻧَﺗَﮐَﻟﱠمَ ﺑِﮭذا ﺳُﺑْﺣﺎﻧَكَ ھذا ﺑُﮭْﺗﺎنٌ ﻋَظِﯾمٌ. ( النور-16)
اور جب تم نے اس خبر کو سنا اسی وقت یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ھم تو اس کو ماننا تو دور کی بات اس پر گفتگو تک کرنے کے روادار نہیں ، اے اللہ تو پاک ھے ( اس کمزوری سے کہ نبی کے حرم کی حفاظت نہ کر سکے ) یہ تو عظیم بھتان ھے ،،
یہ قصے دین کی بنیادی ضرورتوں سے متعلق نہیں ھیں کہ جن کے انکار سے ھمارے دین میں کوئی کمی ھو جاتی ھے یا ھماری عبادات کے طور طریقوں میں کوئی رکاوٹ پیدا ھوتی ھے ،، بلکہ ان کی حقیقت کہانیوں سے زیادہ کچھ نہیں ،، چھُری سونے کی بھی ھو تو پیٹ میں نہیں گھونپی کا جا سکتی روایت قوی بھی ھو مگر میرا ایمان کھا جائے تو میں نے اس کی قوت کی تعریف نہیں کرنی کہ سبحان اللہ دس سیکنڈ میں میرے ساٹھ سال کے ایمان کو کھا گئ ھے بلکہ سانپ سمجھ کر ” ارمِ بہ ” کی طرح اٹھا کر پھینک دینی ھے ،جب میرا ایمان بالرسالت ھی متزلزل ھو گیا تو میں نے ان قوی اور قوی تر کہانیوں کو اوڑھنا ھے یا بچھونا بنانا ھے ؟ ھمیں اپنے ایمان بالرسالت کو بچانا ھے اور اسے لے کر اللہ کے حضور حاضر ھونا ھے ،، راوی اپنے اپنے ایمان کا حساب دیں گے ھم سے ھمارے ایمان کا حساب ھو گا ،، لہذا ایسی ھر روایت کو کہ جس سے نبی کریم ﷺ کی ذات و مقام ،یا آپ کے گھر والوں کو عیب لگتا ھو ،، نبی ﷺ پر ایمان کی قوت کے ذریعے رد کر دیں گے ، یہ نبی ﷺ کو چھوڑنے سے کم نقصان دہ ھے ،،،