اگر مرد کو بدکاری سے بچانے والی نگران بیوی نہ دی جاتی تو جنت میں مرد بس اتنے ہی ہوتے جتنے سفید گھوڑے کے ماتھے پر کالے بال۔
مرد جو سوچتا ہے عورت کو اس کا خیال فورا منتقل ہو جاتا ہے ، جیسے موسی علیہ السلام کو جادوگروں کی سوچ کا خیال منتقل ہو گیا تھا۔ بری سوچ رکھنے والے کو وہ دور سے سونگھ لیتی ہے جبکہ مرد اس شخص پر اعتبار کیئے بیٹھا ہوتا ہے۔
محمود غزنوی ایک دفعہ سفر کے دوران ایک جنگل میں سے گزرا، اس نے لشکر کو منع کر دیا تھا کہ وہ جنگل میں چرتے ہرنوں کا شکار نہیں کریں گے، لہذا ہرن بھی بےفکری کے ساتھ چرتے رہے۔ مگر جنگل سے نکلنے سے پہلے اس کو خیال آیا کہ شکار کر کے کچھ ہرنئ ساتھ رکھ لینا مناسب ہو گا, ادھر غزنوی کا ارادہ تبدیل ہوا ادھر چرتے ہوئے تمام ہرنوں نے بدک کر چرنا چھوڑا اور پھر چھلانگیں لگاتے ہوئے نو دو گیارہ ہو گئے ۔۔ بادشاہ نے مشیر سے پوچھا یہ کیا ہوا؟ مشیر نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر خطرے سے خبردار کرنے والا نظام رکھا ہے ، جب شیر کا پیٹ بھرا ہوا ہو اور اس کا ارادہ شکار کا نہ ہو تو ہرن اس کے اردگرد چرتے رہتے ہیں لیکن جونہی وہ شکار کا ارادہ کرتا ہرن بدک کر بھاگنا شروع کر دیتے ہیں ،آپ نے بھی جب تک ان سے تعرض نہیں کیا ان کو خطرے کا سگنل نہیں ملا جونہی آپ کا ارادہ تبدیل ہوا ان کو سگنل مل گیا اور وہ بھاگ نکلے۔ وہی سسٹم عورت کے اندر بھی انسٹال ہے ۔۔کم از کم عصمت کے معاملے میں عورت کی رائے کو حتمی سمجھنا چاہئے۔ اور اس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔