سورہ الماعون مکی دور کے ابتدائی زمانے کی سورت ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں مشرکین مکہ کی نماز کا حال بیان کیا جا رہا ہے، اور ان کی نماز کو اس شخص کی نماز قرار دیا جا رہا ہے جس کا بدلے کے دن پر ایمان نہ ہو۔ سماجی اخلاقیات سے تہی دامن ہو، یتیم کو دھکے دیتا ہو اور اپنے قول و فعل سے مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دیتا ہو۔ایسے نمازیوں کی نماز ان کے لئے ھلاکت کا سبب ہوتی ہے کیونکہ وہ ان میں یہ غرہ پیدا کر دیتی ہے کہ وہ تو بڑا نیک اور بخشا بخشایا ہوا ہے لہذا اسے چھوٹی موٹی نیکیوں کی ضرورت نہیں، حالانکہ جب نماز کردار میں تبدیلی پیدا نہ کرے تو ایسےظ اخلاقیات سے عاری لوگوں کی نماز صرف دکھاوے کی ہوتی ہے، جن کے اخلاق کی پستی کا یہ عالم ہو کہ اڑوس پڑوس میں روزمرّہ استعمال کی چیزوں کا لین دین جو ہر نیک و بد کرتا ہے وہ اس ںاہمی تعاون کی صفت سے بھی محروم ہو۔
اس سورت سے واضح ہوتا ہے کہ نماز مشرکینِ مکہ کے لئے کوئی غیر معروف چیز نہیں تھی اور نہ ہی مسلمانوں کے لئے کوئی اوپری اور انوکھی عبادت تھی۔ ابراھیم علیہ السلام کی ساری اولاد میں یہ مشترکہ میراث تھی ۔ اس لئے اس کو قائم و دائم رکھنے کا حکم دیا گیا،نبئ کرہم صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے پہلے بھی نماز پڑھتے تھے اسرث دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پڑھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو” قم اللیل الا قلیلا ” کا حکم سورہ المزمل میں معراج سے بہت پہلے دیا گیا تھا کہ تھوڑی سی رات چھوڑ کر ساری ساری رات اللہ کے سامنے قیام میں نازل شدہ قرآن ترتیل کے ساتھ پڑھیں اسی سورت میں نمازِ کے دیگر ارکان کا بھی ہے گویا نماز کی ہیئت بھیئ معلوم تھی کہ اس میں قیام رکوع اور سجدہ ہے۔ سورہ مدثر میں فرمایا گیا کہ کفار مکہ سے جب پوچھا جائے گا کہ ان کو جھنم کس بات نے پہنچایا تو وہ کہیں گے کہ۔۔۔۔۔
لم نک من المصلین ، ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔
و لم نک نطعم المسکین۔اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔
و کنا نخوض مع الخائضین۔ اور ( صحن حرم میں ) گپیں مارنے والوں کے ساتھ مجلس لگا کر گپییں لگاتے تھے ۔
و کنا نکذب بیوم الدین،اور ہم بدلے کے دن کی تکذیب کیا کرتے تھے ۔
حتی اتانا الیقین۔ یہانتک کہ ہمیں موت نے آ دبوچا ۔یہاں یقین سے مراد موت ہے۔
فما تنفعھم شفاعۃ الشافعین۔ پس سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آوے گی۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی نماز پڑھا کرتا تھا۔
نماز عربوں میں اس قدر معروف تھی کہ اس کو سہ روزے کی جماعت کی طرح کسی کو سکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئ۔ بلکہ حکم دیا گیا کہ مجھے دیکھو جہاں کہیں کسی جگہ کوئی اضافہ کیا گیا ہے تو اس کو کاپی کر لو ۔ یہاں ارکان کی نسبت خشوع و خضوع اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
قاری حنیف ڈار عفی اللہ عنہ و عافاہ