ھماری اکثریت کا ایمان علم پر مبنی نہیں بلکہ اس تصور اور اس امیج پر مبنی ھے جو ھمیں اپنے والدین سے ملا ھے اور جو ھمارے دل و دماغ میں بطور ایڈمنسٹریٹر انسٹال ھے ،،
جب بھی کوئی روایت اس امیج پر حملہ آور ھو اور آپ محسوس کریں کہ اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور اس کی کتاب کے بارے میں آپ کا ایمان یا وہ تصور جو آپ ان کے بارے میں رکھتے ھیں وہ ھاتھ سے نکلا جا رھا ھے اور آپ کا ان پر ایمان زلزلے کی زد میں ھے تو آپ اس روایت کو چاھے وہ کتنی بھی قوی ھو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیجئے اور اللہ ، اس کے رسولﷺ اور اللہ کتاب پر ایمان کو قائم و دائم رکھئے ،یاد رکھئے چھری سونے کی بھی ھو تو پیٹ میں نہیں مار لیتے ،حدیث کتنی بھی قوی ھو اسے مت اجازت دیجئے کہ وہ آپ کو کافر و مرتد و ملحد بنا دے ،،
ھر دوا ھر انسان پر ایک جیسا اثر نہیں کرتی ، اس لئے میڈیکل کا اصول ھے کہ پہلے مریض سے پوچھ لیا جاتا ھے کہ آپ کو کسی دوا سے الرجی تو نہیں ؟ چاھے وہ پیراسیٹامول ھی کیوں نہ ھو ،، ھمارے ایک دوست ھیں انہوں نے نہار منہ صبح صبح وولٹران ( ڈیکلوفینک ایسڈ ) کھا لی ، یہ درد کش دوا ھے اور لوگ اس کو چاکلیٹ کی طرح استعمال کرتے ھیں ،، مگر ان کو یہ دوا لڑ گئ انہیں چکر آنا شروع ھو گئے ، بیہوش ھو کر گرنے سے پہلے انہوں نے بیٹے کو بتا دیا کہ میں نے وولٹران کھائی ھے ،، جب تک ان کو اسپتال پہنچایا جاتا سوجن کے آثار ان کے چہرے پر واضح ھو گئے تھے پھر پورا بدن سوج گیا اور وہ تین دن مسلسل کومے میں رھے جبکہ دو ھفتے اسپتال میں گزار کر نکلے تو پہچانے نہیں جاتے تھے ان کی جلد کا بھی بیڑہ غرق ھو گیا تھا ،،،
یہی حال ایمان کا بھی ھوتا ھے کسی بندے کے سر سے گزر جاتی ھے اور کسی کو گولی بن کر لگتی ھے ،مگر یاد رکھیں یہ وہ کتابیں ھیں جن پر ھمیں ایمان مجمل رکھنے کا بھی حکم نہیں ھے جیسا کہ ھم تورات زبور انجیل پہ رکھتے ھیں ،، یہ ھمارے بزرگوں نے اپنی آخرت سنوارنے اور ثواب کمانے کے لئے نبی ﷺ سے وابستہ قصے لکھے ھیں ،، جب یہ کتابیں نہیں تھیں تب بھی لوگ ان کو جانے بغیر مسلمان ھی فوت ھوتے تھے ،، اگر ان میں سے کوئی قصہ آپ کا ایمان نہیں قبول کرتا تو حدیث کھا کر ایمان کو بھی اگل دینے کی بجائے اس حدیث کو مت مانئے اور صاف کہہ دیجئے کہ جناب ” میرا دل نہیں مانتا ” اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ ” استفتِ نفسک ” اپنے نفس یعنی اپنے ضمیر سے فتوی لو ” اور اگر وہ کسی بات کا انکار کر دے تو وہ عمل مت کرو ” ولوا یفتیک ، ولو یفتیک ، ولوا یفتک ” چاھے تجھے فتوی دیا جائے ، چاھے تجھے فتوی دیا جائے ، چاھے تجھے فتوی دیا جائے ” جب تیرے اندر کا مفتی نہیں مان رھا تو یاد رکھیں ھمارا محاسبہ اندر کے مفتی کی سمجھ کی بنیاد پر ھو گا،،
ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ نہ امام مالکؒ ھوتے تھے اور نہ امام ابو حنیفہؒ ،نہ امام شافعی ھوتے تھے اور نہ امام احمد نہ امام بخاری ھوتے تھے اور نہ امام مسلم ، نہ امام نسائی ھوتے تھے اور نہ امام ترمذی ،، نہ ابن ماجہ ھوتے تھے اور نہ ابوداؤد ،،،
اور دین تب بھی مکمل تھا ،،،،،
ھے ناں تعجب کی بات ،،،
بھلا لوگ نمازیں کیسے پڑھتے ھونگے ؟ اس وقت کے لوگ ھاتھ کہاں باندھتے ھوں گے ؟ یا باندھتے ھی نہیں ھونگے کہ کوئی آئے اور طے کرے کہ وہ ھاتھ کہاں باندھیں ،،
لوگوں کے یہاں شادیاں بیاہ اور موت و جنازے بھی ھو رھے تھے ، پتہ نہیں یہ سب کچھ لوگ بغیر کسی امام کا ریفرینس دیئے بغیر کیسے کر لیتے ھوں گے ،
کپڑے اس وقت بھی پلید ھوتے تھے اور لوگ بھی پلید ھو جاتے ھونگے کیونکہ اس وقت کے لوگوں کو بھی جنابت تو لاحق ھوتی ھو گی ،،اب کس فقہ کے ریفرینس سے پاک ھوتے ھوں گے یہ بھی ایک قابلِ تحقیق مسئلہ ھے !
سب سے بڑا سوال یہ ھے کہ اماموں اور صحاح ستہ کے بغیر دین کو جس نے مکمل کہا ھو گا اس پہ فتوی کیا لگا ھو گا ؟
کیونکہ فتوے کے لئے بھی تو کوئی مثل موجود ھونی چاھئے ،، مثلاً وھابی، پرویزی،نیچری ، غامدی، مودودی وغیرہ وغیرہ !!
نیز جب لوگ کتاب و سنت کہتے ھوں گے تو ” سنت ” سے ان کا دھیان کس کتاب کی طرف جاتا ھو گا ؟ کیونکہ آج کل تو دھیان صحاح ستہ کی طرف جاتا ھے ،، کیا سنت بھی کوئی کتاب تھی یا قرآن کے احکامات پر عملی طور پر چلنے کو سنت کہتے تھے ؟ تھیوری تو کتاب میں لکھی ھوئی ھوتی ھے ۔۔ پریکٹیکل کس کتاب میں لکھا ھوتا ھے ؟ کیا وہ کر کے سکھانے(Learning By Doing) اور کرا کے دیکھنے کا نام نہیں ھے ؟