شادی کی رسم

یار شادی کی رسموں کے خلاف تو ھمارے سمیت سب لکھتے ھیں ،، کبھی ان رسموں کے فوائد پہ بھی کوئی تحریر نظر سے گزری ھے ؟ نہیں گزری تو میرا خیال ھے کہ ایسی تحریر آپ کی نظروں سے گزار دی جائے تا کہ سند رھے ،،،،،،
ان رسموں کے مُضر اثرات تو والدین پہ پڑتے ھونگے ،مگر اس کے مثبت اثرات اولاد پہ پڑتے دیکھے گئے ھیں ،، ان رسموں کی رنگینی کی وجہ سے ابھی بڑے بھائی کی مہندی نہیں اترتی کہ چھوٹا بھائی بھی ماں کے کان پھونکنا شروع کر دیتا ھے ،، بلکہ بعض پہلے سے شادی شدہ بھی رالیں ٹپکاتے دیکھے گئے ھیںحالانکہ دوسری شادی تو ھم نے بڑے بڑے پھنے خانوں کی بھی کہیں چھپ چھپا کر ھوتے دیکھی ھے ، چاھے وہ خادمِ اعلی ھوں ،، اس دوسری شادی کے ساتھ شہنائیاں کم اور جگ ھنسایاں زیادہ ھوتی ھیں کیونکہ عموماً دوسری بیوی شوھر سے آدھی عمر کی ھوتی ھے ،، حالانکہ دوسری شادی اپنے سے دگنی عمر کی عورت سے کرنے چاھئے جس کے آگے رو رو کر پہلی بیوی کے مظالم کا دکھڑا سنایا جائے ،،،، یوں والدہ کی فوتگی کا صدمہ بھی کم ھو جاتا ھے کہ دکھ سکھ پھولنے کی متبادل ھستی دستیاب ھو جاتی ھے ،، ھمیں بچپن سے ھی شادی کا شوق ان رسموں کی وجہ سے ھی پڑا تھا ،، جب دولہا دوسرے لوگوں پہ ہتھیلیاں بھر بھر کر پانی پھینکتا تھا تو ھمارے ” معصوم ” چہرے پہ اس بچگانہ حرکت کے تصور سے ھی مسکراھٹ پھیل جاتی کہ کسی دن ھم بھی یہ شرارت کریں گے ،،
ھمارے چچا جان نے تو اپنے بیٹے کی ختنے بھی شادی کی طرح کیئے تھے ،، پوری برادری کی دعوت ،، پھر لڑکیاں ڈھول کی تھاپ پرگھڑولی بھر کر لائیں ،اس گھڑولی کو بھرنے کی حسرت آج تک عابدہ پروین کے دل میں کروٹیں لے رھی ھے – پھر ھمارے کزن کو چوکی چڑھایا گیا ،، واضح رھے یہ پولیس چوکی کا ذکر نہیں ھے ، پھولوں سے سجی چوکی پہ ھی مشہورِ زمانہ استرا( مولوی بشیر استرا نہیں ) اور سرکنڈے کا کانا بھی رکھا ھوا تھا ،جیسے کرکٹ کی ٹرافی بھی گراؤنڈ میں سجا کر رکھی جاتی ھے اور بار بار کیمرہ مار کر دکھائی جاتی ھے ، چونکہ ھم بھی اس مرحلے سے باھوش و حواس گزرے تھے لہذا ھماری نظر کزن سے زیادہ اس استرے کی طرف اٹھتی تھی جس نے ان اٹکھیلیوں اور مسکراھٹوں کا اینڈ ایک دردناک چیخ کے ساتھ کرنا تھا ،، مگر سچی بات یہ ھے کہ دھوم دھام کو دیکھ کر ایک دفعہ تو ھم نے بھی وضو تازہ کرنے کی طرح ختنہ تازہ کرنے کا سوچا تھا ،،،،،،،،،

شادی میں گانا بجانا اصل میں نکاح کا اعلان کرنا ھے اور اس کو اسطرح مزین کرنا ھے کہ لوگوں کے دل خفیہ کی بجائے اس قسم کی شادیوں کی طرف مائل ھوں نیز آئندہ بچیاں بھی اسی قسم کی شادی کے خواب دیکھیں ، اس موقعے پر ایسے تمام دوہے ،ماہیے اور گیت جائز ھیں جن میں لڑکی کے عزیز و اقارب اور خود لڑکی کے اپنے جذبات کی عکاسی ھوتی ھو ،،،
بابل دا وہڑہ چھڈ کے ، ھو کے مجبور چلی ،
گُڈیاں پٹولے چھڈ کے ویراں تو دور چلی ،،
یا ،،،،،،
بنو رانی بڑی دلگیر وے، کندھا ڈولی نون دے جائیں ویر وے ،،
یا ،،،،،، دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا،امبڑی دے دل دا سہارا ،نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا،
یا ،، قربان نبی دی شان توں اڑیئے ویر ویاہ گھر آیا
میں صدقے رب رحمان توں اڑیئے ویر ویاہ گھر آیا
عرب شادیوں میں اپنے ماحول کے مطابق گانے گائے جاتے تھے ، اور خود نبی کریمﷺ نے اسے پسند فرمایا اور ترغیب بھی دی ،،،
دخلت علینا جاریۃ لحسان بن ثابت یوم فطر ناشرۃ شعرھا معھا دف تغنی فزجرتھا ام سلمۃ فقال النبی دعیھا یا ام سلمۃ فان لکل قوم عیدا وھذا یوم عیدنا. ( رقم ۵۵۸)
’’عید الفطر کے دن حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی ہمارے پاس آئی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے پاس دف تھا اور وہ گیت گا رہی تھی۔ سیدہ ام سلمہ نے اسے ڈانٹا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام سلمہ اسے چھوڑ دو۔ بے شک ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج کے دن ہماری عید ہے۔‘‘
شادی بیاہ پر موسیقی
عن ابن عباس قال انکحت عائشۃ ذات قرابۃ لھا من الانصار فجاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال أھدیتم الفتاۃ قالوا نعم قال ارسلتم معھا من یغنی قالت لا فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ان الانصار قوم فیھم غزل فلو بعثتم معھا من یقول:
اتیناکم اتیناکم
فحیانا وحیاکم. (ابن ماجہ، رقم۱۹۰۰)
’’حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ نے انصار میں سے اپنی ایک عزیزہ کا نکاح کیا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لائے۔ آپ نے (لوگوں سے )دریافت کیا : کیا تم نے لڑکی کو رخصت کر دیا ہے؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں۔ آپ نے پوچھا:کیا اس کے ساتھ کوئی گانے والا بھی بھیجاہے؟ سیدہ عائشہ نے کہا: جی نہیں ۔ آپ نے فرمایا: انصار گانا پسند کرتے ہیں۔ یہ بہتر ہوتا کہ تم اس کے ساتھ کسی گانے والے کو بھیجتے جویہ گیت گاتا: ۴؂
ہم تمھارے پاس آئے ہیں،
ہم تمھارے پاس آئے ہیں۔
ہم بھی سلامت رہیں، تم بھی سلامت رہو۔‘‘ ۵ ؂
اس روایت سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں:
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے والے کو بھیجنے کے بارے میں جس انداز سے دریافت فرمایا ، اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اہل عرب رخصتی کے موقع پر دلہن کے ساتھ بالعموم کسی گانے والے کو بھیجا کرتے تھے۔
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جان کر کہ گانے والے کو دلہن کے ہم راہ نہیں بھیجا گیا، خوش گوارتاثر کا اظہار نہیں فرمایا۔
o آپ نے شادی کے موقع پر گانے والے کو دلہن کے ہم راہ بھیجنے کی ترغیب دی۔
o آپ نے گائے بغیر گیت کے بول بھی ادا فرمائے۔
o آپ نے انصارکے گانا پسندکرنے کو بیان فرمایااور اسے باطل قرار نہیں دیا۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیتوں کو پسند فرماتے تھے۔اس کے بعض دوسرے طرق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو اس بنا پر فرمائی کہ آپ کو شادی والے گھر میں گانے کی کوئی آواز سنائی نہ دی۔ ابن حبان کی روایت ہے:
عن عائشۃ قالت کان فی حجری جاریۃ من الانصار فزوجتھا قالت فدخل علي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم عرسھا فلم یسمع غناء ولا لعبا فقال یا عائشۃ ھل غنیتم علیھا او لا تغنون علیھا ثم قال ان ھذا الحی من الانصار یحبون الغناء. (رقم ۵۸۷۵)
’’سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں: میرے زیر کفالت ایک انصاری لڑکی رہتی تھی۔ میں نے اس کی شادی کر دی۔ شادی کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ اس موقع پر آپ نے نہ کوئی گیت سنا اور نہ کوئی کھیل دیکھا۔ (یہ صورت حال دیکھ کر) آپ نے فرمایا: عائشہ، کیا تم لوگوں نے اسے گانا سنایا ہے یا نہیں؟ پھر فرمایا: یہ انصارکا قبیلہ ہے جو گانا پسند کرتے ہیں۔ ‘‘
موسیقی میں جائز اور ناجائز کا سوال ضرور ھے کہ کونسی جائز ھے اور کونسی ناجائز !
حرام حرام کی رَٹ لگانے والوں سے گزارش ھے کہ قاسم بن محمد بن ابوبکر سے جب پوچھا گیا تھا کہ کیا موسیقی حرام ھے ، تو آپ نے تین بار سوال کرنے والے سے منہ موڑ لیا تھا اور چوتھی دفعہ سوال کرنے کے بعد انتہائی غصے سے فرمایا تھا کہ ” حرام وھی ھے جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حرام کے لفظ کے ساتھ حرام کہا ھے ” اس کے بعد جائز ، ناجائز ، مکروہ باقی رہ جاتا ھے ،،،،،،
ھر بندہ اپنے اپنے تقوے کو دوسرے پر لادنے کے لئے تیار بیٹھا ھوتا ھے ،، نتیجہ یہ ھے کہ فاسقوں کی تعداد مساجد کی تعداد کی نسبت دگنی رفتار سے بڑھ رھی ھے ،، میں نے ریاض الجنہ میں لوگوں سے گانے کی ٹون سنی ھے ،، مسجدِ نبوی میں امام کے بالکل پیچھے کھڑے لوگوں کے موبائل پہ بج رھی ھوتی ھے ،، طواف اور سعی میں بج رھی ھوتی ھے ،، ایک وبا کی طرح پھیلی ھوئی چیز کو فتوؤں سے نہیں روکا جا سکتا ، پہلا اس کی کلاسیفیکیشن کرنی ھو گی ،، کیا بارش میں سڑکوں پر بہتا گٹر کا پانی بھی کپڑے پلید نہیں کرتا اور لوگوں کی بے بسی کے مدنظر اس چھوٹ کو اختیار کیا گیا ھے ،، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب سڑکوں پر بہتا بارش کا پانی پینا بھی شروع کر دیا جائے ،،،،،،،،،،
کتاب الکبائر ،، علامہ دمشقی صاحب کی ایسی کتاب ھے جس میں ساٹھ سے اوپر کبائر گنوائے گئے ھیں ،، مگر عجیب بات یہ ھے کہ کبائر کی فہرست میں موسیقی کا ذکر نہیں ھے ،،،،،،،، کوئی اس کو قرآن کی سورہ لقمان کی آیت سے نکال کر لے آتا ھے ،، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ( 6)
حالانکہ اس میں موسیقی سرے سے زیرِ بحث نہیں ھے ،،مروجہ موسیقی کو بنیاد بنا کر تمام موسیقی کو ایک ھی لاٹھی سے ھانکنا اسی طرح ھے جس طرح موجودہ مسلمانوں کو دیکھ کر تمام مسلمانوں کے قتل کا فتوی دے دینا ،، جتنی احادیث موسیقی کی مخالفت میں پیش کی جاتی ھیں ، اس سے دگنی حدیثیں موسیقی کے جواز کی بھی موجود ھیں ،، جو چیز نبی ﷺ کی موجودگی میں بجائی گئ ، نبی ﷺ کے حجرے میں بجائی گئ ، نبئ کریم ﷺ نے سکون سے اسے سنا اور ابوبکر صدیقؓ کے منع کرنے پر ان کو شاباش نہیں دی کہ آپ نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا بلکہ فرمایا کہ ان کو گانے دو ان کی عید کا دن ھے ، فتوے لگانے والے پہلے اپنے فتوؤں کا رخ نبئ کریمﷺ کے حجرے کی طرف کریں اور جواب دیں کہ وہ کونسا حرام ھے جو عید والے دن حلال ھو جاتا ھے ؟
احادیث اور موسیقی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موسیقی عرب معاشرت کا حصہ تھی۔ عبادت، خوشی، غم ، جنگ اور تفریح جیسے مختلف مواقع پر موسیقی اور آلات موسیقی کا استعمال عام تھا۔حدیثوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف موسیقی کو پسند فرمایا، بلکہ بعض موقعوں پر اس کے استعمال کی ترغیب بھی دی۔ثقہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گانا سنا؛ شادی کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے کی ترغیب دی؛ہجرت کے بعد آپ مدینہ تشریف لائے توعورتوں نے دف بجا کر گیت گائے اور آپ نے انھیں پسند فرمایا؛ ماہر فن مغنیہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپناگانا سنانے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے سیدہ عائشہ کو اس کا گانا سنوایا؛ سیدہ عائشہ حضور کے شانے پر سر رکھ کر بہت دیر تک گانا سنتی اور رقص دیکھتی رہیں؛ سفروں میں آپ نے صحرائی نغموں کی معروف قسم حدی خوانی کو نہ صرف پسند فرمایا، بلکہ اپنے اونٹوں کے لیے ایک خوش آواز حدی خوان بھی مقرر کیا اور اعلان نکاح کے لیے آپ نے آلۂ موسیقی دف بجانے کی تاکید فرمائی۔ان موضوعات پر متعدد روایتیں حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ چند نمائندہ روایتیں حسب ذیل ہیں:
عید پر موسیقی
عن عائشۃ قالت: دخل علي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و عندی جاریتان تغنیان بغناء بعاث فاضطجع علی الفراش وحول وجھہ ودخل ابوبکر فانتھرنی وقال مزمارۃ الشیطان عند النبی فاقبل علیہ رسول اللّٰہ علیہ السلام فقال دعھما فلما غفل غمزتھما فخرجتا وکان یوم عید.(بخاری، رقم ۹۰۷)
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ اس موقع پر دو(مغنیہ ) لونڈیاں جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ بستر پر دراز ہو گئے او ر اپنا رخ دوسری جانب کر لیا۔(اسی اثنا میں) حضرت ابوبکر گھر میں داخل ہوئے۔ (گانے والیوں کو دیکھ کر ) انھوں نے مجھے سرزنش کی اور کہا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ شیطانی ساز(کیوں)؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا: انھیں (گانا بجانا)کرنے دو۔ پھر جب حضرت ابوبکر دوسرے کام میں مشغول ہو گئے تو میں نے ان( گانے والیوں کو چلے جانے کا) اشارہ کیا تو وہ چلی گئیں۔ یہ عید کا دن تھا۔‘‘ ۲؂
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
o ام المومنین سیدہ عائشہ عید کے روز گیت سن رہی تھیں۔
o یہ گیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گائے جا رہے تھے ۔
o گانے والیاں ماہر فن مغنیات تھیں۔ ۳؂
o گیت کے اشعار حمدیہ یا نعتیہ نہیں تھے۔ انصار کی قبل از اسلام جنگ کا ایک قصہ تھا جسے گیت کی صورت میں گایا جا رہا تھا۔
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تشریف لانے کے بعد بھی سیدہ نے گیت سننے کا سلسلہ جاری رکھا۔
o آپ نے سیدہ عائشہ کو گانا سننے سے منع نہیں فرمایا۔
o آپ نے گانے والیوں کوگانا گانے سے نہیں روکا۔
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود گانے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ، تاہم جس طرح آپ نے سیدنا ابوبکر کی آواز سن لی، اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو گانے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔
o سیدنا ابوبکر نے اسے دیکھتے ہی ’مزمار الشیطان‘ یعنی شیطان کا سازکے الفاظ سے تعبیر کیا۔
o سیدنا ابوبکر نے جب گانے کوروک دیناچاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع فرما دیا ۔
بخاری کی اس روایت سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے موقع پر موسیقی کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے۔ام المومنین سیدہ عائشہ کاآپ کی موجودگی میں گانا سننا ، آپ کااس پرنہ پابندی عائد کرنا اور نہ کسی ناراضی کا اظہار فرمانا، بلکہ سیدنا ابوبکر کو بھی مداخلت سے روک دینا، یہ سب باتیں موسیقی کے مباح ہونے ہی کو بیان کر رہی ہیں۔
اسی موضوع کی ایک روایت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے حوالے سے المعجم الکبیر میں نقل ہوئی ہے۔ وہ بیان فرماتی ہیں:
دخلت علینا جاریۃ لحسان بن ثابت یوم فطر ناشرۃ شعرھا معھا دف تغنی فزجرتھا ام سلمۃ فقال النبی دعیھا یا ام سلمۃ فان لکل قوم عیدا وھذا یوم عیدنا. ( رقم ۵۵۸)
’’عید الفطر کے دن حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی ہمارے پاس آئی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے پاس دف تھا اور وہ گیت گا رہی تھی۔ سیدہ ام سلمہ نے اسے ڈانٹا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام سلمہ اسے چھوڑ دو۔ بے شک ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج کے دن ہماری عید ہے۔‘‘
شادی بیاہ پر موسیقی
عن ابن عباس قال انکحت عائشۃ ذات قرابۃ لھا من الانصار فجاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال أھدیتم الفتاۃ قالوا نعم قال ارسلتم معھا من یغنی قالت لا فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ان الانصار قوم فیھم غزل فلو بعثتم معھا من یقول:
اتیناکم اتیناکم
فحیانا وحیاکم. (ابن ماجہ، رقم۱۹۰۰)
’’حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ نے انصار میں سے اپنی ایک عزیزہ کا نکاح کیا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لائے۔ آپ نے (لوگوں سے )دریافت کیا : کیا تم نے لڑکی کو رخصت کر دیا ہے؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں۔ آپ نے پوچھا:کیا اس کے ساتھ کوئی گانے والا بھی بھیجاہے؟ سیدہ عائشہ نے کہا: جی نہیں ۔ آپ نے فرمایا: انصار گانا پسند کرتے ہیں۔ یہ بہتر ہوتا کہ تم اس کے ساتھ کسی گانے والے کو بھیجتے جویہ گیت گاتا: ۴؂
ہم تمھارے پاس آئے ہیں،
ہم تمھارے پاس آئے ہیں۔
ہم بھی سلامت رہیں، تم بھی سلامت رہو۔‘‘ ۵ ؂
اس روایت سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں:
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے والے کو بھیجنے کے بارے میں جس انداز سے دریافت فرمایا ، اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اہل عرب رخصتی کے موقع پر دلہن کے ساتھ بالعموم کسی گانے والے کو بھیجا کرتے تھے۔
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جان کر کہ گانے والے کو دلہن کے ہم راہ نہیں بھیجا گیا، خوش گوارتاثر کا اظہار نہیں فرمایا۔
o آپ نے شادی کے موقع پر گانے والے کو دلہن کے ہم راہ بھیجنے کی ترغیب دی۔
o آپ نے گائے بغیر گیت کے بول بھی ادا فرمائے۔
o آپ نے انصارکے گانا پسندکرنے کو بیان فرمایااور اسے باطل قرار نہیں دیا۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیتوں کو پسند فرماتے تھے۔اس کے بعض دوسرے طرق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو اس بنا پر فرمائی کہ آپ کو شادی والے گھر میں گانے کی کوئی آواز سنائی نہ دی۔ ابن حبان کی روایت ہے:
عن عائشۃ قالت کان فی حجری جاریۃ من الانصار فزوجتھا قالت فدخل علي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم عرسھا فلم یسمع غناء ولا لعبا فقال یا عائشۃ ھل غنیتم علیھا او لا تغنون علیھا ثم قال ان ھذا الحی من الانصار یحبون الغناء. (رقم ۵۸۷۵)
’’سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں: میرے زیر کفالت ایک انصاری لڑکی رہتی تھی۔ میں نے اس کی شادی کر دی۔ شادی کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ اس موقع پر آپ نے نہ کوئی گیت سنا اور نہ کوئی کھیل دیکھا۔ (یہ صورت حال دیکھ کر) آپ نے فرمایا: عائشہ، کیا تم لوگوں نے اسے گانا سنایا ہے یا نہیں؟ پھر فرمایا: یہ انصارکا قبیلہ ہے جو گانا پسند کرتے ہیں۔ ‘‘
جشن پر موسیقی
۱۔ عن ابن عائشۃ لما قدم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینہ جعل النساء و الصبیان یقلن:
طلع البدر علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
ما دعا للّٰہ داع
ایھا المبعوث فینا
جئت بالامر المطاع
(السیرۃ الحلبیۃ۲/۲۳۵)
۲۔ عن انس بن مالک ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرببعض المدینۃ فاذا ھو بجوار یضربن بدفھن و یتغنین و یقلن:
نحن جوار من بني النجار
یا حبذا محمد من جار
فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اللّٰہ یعلم انی لأ حبکن. (ابن ماجہ ، رقم ۱۸۹۹)
۱۔ ’’ابن عائشہ سے روایت ہے :جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو عورتوں اور بچوں نے یہ گیت گایا:
آج ہمارے گھرمیں وداع کے ٹیلوں سے چاند طلوع ہوا ہے ۔
ہم پر شکر اس وقت تک واجب ہے، جب تک اللہ کو پکارنے والے اسے پکاریں۔
اے نبی ، آپ ہمارے پاس ایسا دین لائے ہیں جو لائق اطاعت ہے ۔ ‘‘
۲۔ ’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :(شہر میں داخل ہونے کے بعد جب )نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی ایک گلی سے گزرے توکچھ باندیاں دف بجا کر یہ گیت گارہی تھیں:
ہم بنی نجار کی باندیاں ہیں۔۶؂
خوشا نصیب کہ آج محمد ہمارے ہمسائے بنے ہیں۔
( یہ سن کر)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جانتا ہے کہ میں تم لوگوں سے محبت رکھتا ہوں ۔ ‘‘ ۷؂
یہ اس موقع کی روایات ہیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے موقع پر جشن کا سا سماں تھا۔
o خوشی کے اظہار کے لیے گیت گائے گئے۔
o یہ گیت لونڈیوں نے گائے۔
o گانے کے ساتھ انھوں نے ایک آلۂ موسیقی دف بھی استعمال کیا۔
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نے گیت سنے اور ناپسندیدگی کا تاثر نہیں دیا۔
o گانے والی باندیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت ومحبت کا اظہار فرمایا۔
یہ اور اس موضوع کی دوسری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تو اہل مدینہ نے آپ کا فقید المثال استقبال کیا۔مدینے میں جشن برپا تھا۔ ہر چھوٹا بڑا آپ کی آمد کی خوشی میں مسرور تھا۔ اس موقع پر عام عورتوں اور بچوں اور مغنیات نے دف بجا کر استقبالیہ نغمے بھی گائے ، جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا۔ چنانچہ ان کی بنا پر یہ بات پورے اطمینان سے کہی جا سکتی ہے کہ جشن یاخوشی کی تقریب کے موقع پر گیت گائے جا سکتے ہیں اور آلات موسیقی کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سفر میں موسیقی
عن سلمۃ بن الاکوع رضی اللّٰہ عنہ قال خرجنا مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی خیبر فسرنا لیلا فقال رجل من القوم لعامر یا عامر الا تسمعنا من ھنیھاتک وکان عامر رجلا شاعرا حداء فنزل یحدو بالقوم یقول:
اللھم لو لا انت ما اھتدینا
ولا تصدقنا ولا صلینا
فاغفر فداء لک ما ابقینا
وثبت الاقدام ان لاقینا
والقین سکینۃ علینا
انا اذا صیح بنا ابینا
وبالصیاح عولوا علینا
فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ھذا السائق؟ قالوا: عامر بن الاکواع. قال: یرحمہ اللّٰہ. (بخاری ،رقم ۳۹۶۰)
’’ سلمہ بن الاکواع سے روایت ہے کہ ہم رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے عامر سے کہا: تم ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے؟ عامر جو حدی خوان شاعر تھے،(لوگوں کی فرمایش سن کر) سواری سے اترے اور یہ (اشعار) گانے لگے :
اے پروردگار ، اگر تیری ہدایت ہمیں میسر نہ ہوتی
تو ہم نماز اور زکوٰۃ ادا نہ کر پاتے ۔
ہمارے گناہوں کو بخش دے ، (جو ہم کر چکے ہیں اور) جو ہم سے سرزد ہوں گے ، ہم تیری راہ میں قربان ہونے کے لیے تیار ہیں ۔
جنگ میں ہمیں ثابت قدمی عطا فرما ۔
اور ہم پر اپنی رحمت نازل فرما ۔
جب دشمن ہمیں للکارتا ہے تو ہم (خوف زدہ ہونے سے) انکار کر دیتے ہیں۔
وہ پکار پکار کر ہم سے نجات چاہتے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ گانے والا کون ہے؟ لوگوں نے کہا: عامر بن الاکواع۔ آپ نے فرمایا: اللہ اس پر رحم کرے۔ ‘‘ ۸؂
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
o صحابۂ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کے مقصد سے دوران سفر میں تھے۔
o ایک صحابی کی فرمایش پر دوسرے صحابی نے حدی خوانی شروع کی یعنی ا شعار گا کر پڑھنے لگے۔
o گانے والے کی آواز اس قدر بلند تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچی۔
o آپ نے پسندیدگی کے ساتھ گانے والے کا نام معلوم کیا ۔
o اس کے اچھے اشعار سن کر آپ نے اس کے لیے رحمت کی دعا فرمائی۔
’’حدی خوانی‘‘صحرائی نغمے کی ایک صنف ہے۔ قدیم عرب میں ساربان صحراؤں میں سفر کرتے ہوئے حدی خوانی کرتے تھے۔اس کا اصل مقصد تو اونٹوں کو مست کر کے انھیں تیز رفتاری کی طرف مائل کرنا ہوتا تھا، مگر شتر سوار بھی اس سے پوری طرح حظ اٹھایا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں متعدد روایتیں موجود ہیں ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام بھی صحرائی سفروں کے دوران میں حدی خوانی سے محظوظ ہوتے تھے۔
بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت خوش آواز حدی خوان انجشہ کو اپنے سفروں کے لیے مقرر کر رکھا تھا۔ ایک سفر کے دوران میں جب اس کے نغمات سے مسرور ہو کر اونٹ بہت تیز چلنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محبت سے ڈانٹا کہ وہ اونٹوں پر سوار خواتین کا لحاظ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اونٹوں کی تیز رفتاری کی وجہ سے گر جائیں۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کان للنبی حاد یقال لہ انجشۃ و کان حسن الصوت فقال لہ النبی رویدک یا انجشۃ لا تکسر القواریر قال قتادۃ یعنی ضعفۃ النساء. ( بخاری ، رقم ۵۸۵۷)
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک حدی خوان مقرر تھا۔ اس کا نام انجشہ تھا۔ وہ نہایت خوش آواز تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک سفر کے دوران میں اسے) فرمایا: انجشہ آہستہ، کہیں نازک آبگینوں کو توڑ نہ ڈالنا۔ قتادۃکہتے ہیں: اس سے نازک عورتیں مراد ہیں۔‘‘
یہاں یہ واضح رہے کہ محققین کے نزدیک حدی خوانی عرب کی اصناف موسیقی ہی میں شامل ہے۔ ڈاکٹر جواد علی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘ ‘میں اس کا ذکراسی پہلو سے کیا ہے:
والحدا، ھو من اقدم انواع الغناء عند العرب، یغنی بہ فی الاسفار خاصۃ، ولا زال علی مکانتہ و مقامہ فی البادیۃ حتی الیوم. و یتغنی بہ فی المناسبات المحزنۃ ایضاً لملاء مۃ نغمتہ مع الحزن. وقد کان للرسول حادی ھو (البراء بن مالک بن النضر الانصاری) وکان حداءً للرجال. وکان لہ حداء آخر، یقال لہ (انجشۃ الحادی) وکان جمیل الصوت اسود، وکان یحدو للنساء ، نساء النبی ، وکان غلاماً للرسول.(۵/ ۱۱۶)
’’حدی خوانی عربوں کے گانے کی قدیم ترین قسموں میں سے ہے۔ یہ صنف بالعموم سفروں کے ساتھ مخصوص تھی۔ موجودہ زمانے میں بھی صحراؤں میں اس کی یہی حیثیت ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ اس کے نغمے جذبات غم کے ساتھ کافی ہم آہنگ ہوتے ہیں، اس لیے غم کے مواقع پر بھی یہ صنف اختیار کی جاتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدی خوان ( البرا بن مالک بن نضر) مقرر کر رکھا تھاجو مردوں کے لیے حدی خوانی کرتا تھا۔ ایک اور نہایت خوش گلوحدی خوان(انجشہ) تھا۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام تھا اور آپ کی ازواج مطہرات کے لیے حدی خوانی کرتا تھا ۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
والحدا ھو فی الواقع غناء اھل البادیۃ، … ھذا النوع من الغناء مما یتناسب مع لحن البوادی و نغمھا الحزینۃ البسیطۃ التی تطرب بہا طبیعۃ البداوۃ نفس الاعراب. (۵/ ۱۱۷)
’’حدی خوانی اصل میں اہل بادیہ کا گانا ہے … گانے کی یہ صنف خانہ بدوشوں کے لحن اور ان کے جذبات غم کی تعبیر کرنے والے سادہ اور فطری نغموں سے مناسبت رکھتی ہے جن سے ان خانہ بدوشوں کی بدوی طبیعت مسرور ہوتی ہے۔‘‘
ابن خلدون نے اپنی کتاب ’’مقدمہ‘‘ میں لکھا ہے کہ حدی خوانی کا مقصد محض قافلے کے شرکا کو محظوظ کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ اونٹوں کو نغموں سے سرشار کر کے ان کی رفتار کو تیز کرنا بھی ہوتا ہے:
’’(مسرور ہونے کی) یہ کیفیت انسان تو انسان بے زبان جانور میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اونٹ ساربانوں کی حدی خوانی سے اور گھوڑے سیٹی اور چیخ سے متاثر ہو جاتے ہیں جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ اگر نغمات متناسب اور فن موسیقی کے موافق ہوں تو ان سے جانور مست ہو جاتے ہیں۔‘‘ (۲/ ۸۰)
آلات موسیقی
عن الربیع بنت معوذ قالت دخل علي النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم غداۃ بنی علي فجلس علی فراشی کمجلسک منی وجویریات یضربن بالدف و یندبن من قتل من اباءھن یوم بدر حتی قالت جاریۃ و فینا نبی یعلم ما فی غد فقال النبی لا تقولی ھکذا وقولی ما کنت تقولین. (بخاری، رقم۳۷۷۹)
’’ربیع بنت معوذبیان کرتی ہیں: جب میری رخصتی ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور میرے بچھونے پر اسی طرح بیٹھے جس طرح تم میرے سامنے بیٹھے ہو ۔ اس وقت ہماری (گانے والی ) باندیاں دف پر بدر میں قتل ہونے والے اپنے آبا کا نوحہ (اشعار کی صورت میں) گا رہی تھیں۔ ان میں سے ایک باندی نے (گاتے ہوئے )کہا : اس وقت ہمارے درمیان وہ نبی موجود ہیں جنھیں آنے والے دنوں کی باتیں بھی معلوم ہیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (مصرع) نہ کہو ، وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھی۔‘‘ ۹
؂
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم شادی کی کسی تقریب میں گئے تو باندیاں گیت گا رہی تھیں۔
o آپ کی آمد کے باوجود گانے کا سلسلہ جاری رہا۔
o گانے والیاں گانے میں دف استعمال کر رہی تھیں۔
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم توجہ سے گانا سن رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے انھیں بعض اشعارپڑھنے سے منع فرمایا۔
o چند اشعار سے منع کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیت جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں کثرت سے استعمال ہونے والے آلۂ موسیقی دف پر کوئی پابندی عائد نہیں فرمائی تھی۔ درج بالا دیگر روایتیں بھی اگر پیش نظر رہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خوشی کی تقریبات میں گیتوں کے ساتھ اس کا استعمال عام تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسے مختلف موقعوں پر بجایا گیا اور آپ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ بعض روایتیں اس کے جواز سے آگے بڑھ کرنکاح کے موقع پر اس کے لزوم کو بھی بیان کرتی ہیں:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فصل بین الحلال والحرام الدف والصوت فی النکاح. (ابن ماجہ، رقم ۱۸۹۶)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(نکاح کے) حلال اور حرام میں فرق یہ ہے کہ دف بجایا جائے اور بلند آواز سے اعلان کیا جائے ۔ ‘‘ ۱۰؂
دف کے آلۂ موسیقی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ یہ ہاتھ سے بجانے والا ایک ساز ہے جو قدیم زمانے سے استعمال ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر جواد علی نے اس کے بارے میں لکھا ہے:
والدف من آلات الطرب القدیمۃ المشھورۃ و یستعمل للتعبیر عن العواطف فی الفرح والسرور… و تنقر بہ النساء ایضاً. وقد کان شائعاً عند العرب، ینقرون بہ فی افراحھم. ولما وصل الرسول الی یثرب، استقبل بفرح عظیم و بالغناء و بنقر الدفوف. واکثر ما استعملہ العرب فی المناسبات المفرحۃ، کالنکاح، ورافقوا الضرب بہ اصوات الغناء.(تاریخ العرب ۵؍ ۱۰۸)
’’دف موسیقی کے مشہور اور قدیم آلات میں سے ہے۔ یہ سروراور خوشی کے جذبات کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے … عورتیں بھی اسے بجاتی ہیں۔ عربوں کے ہاں یہ بالکل عام تھا۔ وہ اسے خوشی کے موقعوں پربجاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے تو آپ کانہایت خوشی کے ساتھ گیت گاکر اور دف بجا کر استقبال کیا گیا۔ اہل عرب بالعموم اس کا استعمال نکاح جیسے خوشی کے مواقع پر کرتے تھے اور اس کو بجا کر اس کے ساتھ گیت گاتے تھے۔‘‘
بائیبل میں بھی متعدد مقامات پر اس کا ذکر آلۂ موسیقی کے طور پر ہوا ہے۔ اردو زبان میں بائیبل کی قاموس میں’’ موسیقی کے ساز‘‘ کے زیر عنوان بیان ہوا ہے:
’’یہ (دف) غالباً خنجری قسم کا ساز تھا جو ہاتھ میں پکڑ کر بجایا جاتا تھا۔ یہ گانے اور ناچنے میں تال دینے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جشن کی محفلوں اور جلوسوں میں یہ رونق پیدا کرتا تھا۔‘‘(قاموس الکتاب، ۹۷۸)
فن موسیقی
عن السائب بن یزید ان امراۃ جاء ت الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا عائشۃ تعرفین ھذہ؟ قالت: لا یا نبی اللّٰہ. قال: ھذہ قینۃ بنی فلان تحبین ان تغنیک؟ فغنتھا. (سنن البیہقی الکبریٰ ، رقم ۸۹۶۰)
’’سائب بن یزیدبیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے(سیدہ عائشہ سے) فرمایا: عائشہ کیا تم اس عورت کوجانتی ہو؟ سیدہ نے کہا: جی نہیں، اے اللہ کے نبی۔آپ نے فرمایا: یہ فلاں قبیلے کی گانے والی ہے ۔ کیا تم اس کا گانا پسند کرو گی ؟ چنانچہ اس نے سیدہ کو گانا سنایا ۔‘‘ ۱۱؂
اس روایت کے بنیادی نکات یہ ہیں:
o فن موسیقی سے وابستہ ایک عورت ۱۲؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔
o اس نے آپ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ سیدہ عائشہ کو گانا سنانا چاہتی ہے۔
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نہ کراہت کا اظہار فرمایااور نہ اسے سرزنش فرمائی۔
o اس کے برعکس آپ نے سیدہ سے اسے متعارف کرایا۔
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے اس مغنیہ نے سیدہ کو گانا سنایا۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فن موسیقی کو اصلاً باطل نہیں سمجھتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ اس پیشہ ور مغنیہ کو ٹوک دیتے یا کم سے کم سیدہ کو اس کا گانا ہر گز نہ سننے دیتے۔ بعض دوسری روایتوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماہر فن مغنی اور مغنیات اور رقاص اور رقاصائیں عرب میں موجود تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے فن سے لطف اندوز ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے۔
ترمذی اور بیہقی کی حسب ذیل روایتوں سے یہی تاثر ملتاہے :
عن عائشۃ قالت : کان رسول اللّٰہ جالسا فسمعنا لغطا و صوت صبیان فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاذا حبشیۃ تزفن والصبیان حولھا فقال یا عائشۃ تعالي فانظری فجئت فوضعت لحیی علی منکب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجعلت انظر الیھا ما بین المنکب الی رأسہ فقال لي اما شبعت اما شبعت ؟ قالت فجعلت اقول لا لأنظر منزلتی عندہ اذ طلع عمر قال فارفض الناس عنھا قالت فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انی لأنظر الی شیاطین الانس والجن قد فروا من عمر. (ترمذی ، رقم ۳۶۹۱)
’’سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(ہمارے درمیان ) تشریف فرما تھے۔ یک بہ یک ہم نے بچوں کا شور سنا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے ۔پھر( ہم نے دیکھا کہ) ایک حبشی عورت ناچ رہی تھی ۔ بچے اس کے ارد گرد موجود تھے ۔آپ نے فرمایا : عائشہ ، آ کر دیکھو۔ (سیدہ کہتی ہیں کہ) میں آئی اور اپنی ٹھوڑی حضور کے شانے پر رکھ کرآپ کے کندھے اور سر کے مابین خلا میں سے اسے دیکھنے لگی۔ حضور نے کئی بار پوچھا : کیا ابھی جی نہیں بھرا ؟ میں یہ دیکھنے کے لیے کہ آپ کو میری خاطرکس قدر مقصود ہے، ہر بار کہتی رہی کہ ابھی نہیں۔ اسی اثنا میں عمررضی اللہ عنہ آ گئے۔ (انھیں دیکھتے ہی) لوگ منتشر ہو گئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ عمر کے آنے سے شیاطین جن و انس بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘ ۱۳؂
حدثنا عبداللّٰہ بن بریدۃ عن ابیہ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قدم من بعض مغازیہ فأتتہ جاریۃ سوداء فقالت یا رسول اللّٰہ انی کنت نذرت ان ردک اللّٰہ سالما ان اضرب بین یدیک بالدف فقال ان کنت نذرت فاضربی قال فجعلت تضرب فدخل ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ وھی تضرب ثم دخل عمر رضی اللّٰہ عنہ فالقت الدف تحتھا وقعدت علیہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:ان الشیطان یخاف منک یا عمر. (بیہقی سنن الکبریٰ، رقم ۱۹۸۸۸)
’’عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے سے لوٹے تو ایک سیاہ فام لونڈی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ ، میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ آپ کو سلامتی کے ساتھ واپس لایا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی۔ آپ نے فرمایا: اگر تم نے نذر مانی ہے تو بجا لو۔ اس نے دف بجانا شروع کیا ۔ (اسی دوران میں)ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور وہ دف بجاتی رہی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے۔ (انھیں دیکھ کر ) اس نے دف کو اپنے نیچے چھپا لیا۔ (یہ دیکھ کر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: عمر تم سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے۔‘‘
ترمذی اور بیہقی کی ان روایتوں میں نوعیت واقعہ سے واضح ہے کہ ’حبشیہ‘ (حبشی عورت) اور ’جاریۃ سوداء‘ (سیاہ فام لونڈی) سے مراد ’قینۃ‘ (مغنیہ لونڈی )ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ گھریلو عورت کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتاکہ اس طریقے سے لوگوں کے سامنے فن کا مظاہرہ کرے۔
درج بالا معجم الکبیر کی روایت میں ’قینۃ‘سے مراد ماہر فن مغنیہ ہے۔یہ لفظ عربی زبان میں مغنیہ ہی کے لیے خاص ہے۔ لسان ا لعرب میں ہے:’والقینۃ: الامۃ المغنیۃ‘، ’’قینہ یعنی مغنیہ لونڈی‘‘۔ ۱۴؂
حبشہ کے غلام اور لونڈیاں رقص و موسیقی کے فنون میں مہارت رکھتے تھے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حبشی مردوں اور عورتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔
رقص
عن انس قال کانت الحبشۃ یزفنون بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویرقصون و یقولون: ’’محمد عبد صالح‘‘ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مایقولون؟ قالوا یقولون: ’’محمد عبد صالح‘‘.( احمد بن حنبل ، رقم ۱۲۵۶۲)
’’انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حبشہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ناچ رہے تھے اور یہ گا رہے تھے : محمدصالح انسان ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ کہہ رہے ہیں: محمدصالح انسان ہیں۔‘‘
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
o حبشہ کے رقاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ناچ رہے تھے۔
o ناچنے کے ساتھ وہ آپ کی مدح سرائی بھی کر رہے تھے۔
o آپ نے انھیں ناچنے اور گانے سے منع نہیں فرمایا۔
o اس بات سے آپ کی دل چسپی کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ نے گانے کے الفاظ کے بارے میں دریافت کیا ۔
روایات میں مذکور ہے کہ حبشہ کے ماہر فن رقاص اہل عرب کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ عرب کے شرفا کے نزدیک ان کے رقص سے محظوظ ہونا معیوب بات نہیں تھی۔ چنانچہ وہ انھیں اپنی مختلف تقریبات میں مدعو کرتے تھے۔ ’’المفصل فی تاریخ العرب‘‘ میں ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہیں:
وقد عرف الحبش بحبھم للرقص . وکان اھل مکۃ و غیرھم من اھل الحجاز اذا ارادوا الاحتفال بعرس اوختان او ایۃ مناسبۃ مفرحۃ اخری احضروا الحبش للرقص والغناء علی طریقتھم الخاصۃ. (۵/ ۱۲۲)
’’حبشہ کے لوگوں کی رقص سے محبت مشہور تھی۔ اہل مکہ اور ان کے علاوہ اہل حجاز جب شادی، ختنہ یا کوئی اور خوشی کی محفل منعقد کرتے تو حبشہ کے لوگوں کو ان کے مخصوص ناچ گانے کے لیے بلاتے تھے۔‘‘
روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حبشہ کے ان فن کاروں کا رقص دیکھا:
عن عائشۃ قالت جاء حبش یزفنون فی یوم عید فی المسجد فدعانی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فوضعت راسی علی منکبہ فجعلت انظر الی لعبھم حتی کنت انا التی انصرف عن النظر الیھم. (مسلم ، رقم۸۹۲ )
’’ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں: ایک مرتبہ عید کے روزحبشی مسجد میں رقص کا مظاہرہ کرنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ میں نے آپ کے شانے پر سر رکھا او ر ان کا کرتب دیکھنے لگی۔ (کافی وقت گزرنے کے باوجودنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع نہیں فرمایا)یہاں تک کہ میں خود ہی انھیں (مسلسل) دیکھ کر تھک گئی ۔‘‘
خوش الحانی کی تحسین
عن ابی موسیٰ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ یا ابا موسیٰ لقد اوتیت مزمارا من مزامیر آل داؤد. (بخاری، رقم۴۷۶۱)
’’ابو موسیٰ اشعری سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (میری تلاوت سن کر)فرمایا: اے ابو موسیٰ، تجھے توقوم داؤد کے سازوں میں سے ایک ساز دیا گیا ہے۔‘‘ ۱۵؂
اس روایت سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
o نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت میں غنا کو پسند فرمایا۔
o آپ نے خوش الحانی سے تلاوت قرآن کو ساز سے تعبیر کیا۔
o آپ نے مثبت انداز سے قوم داؤد کے سازوں کا ذکر فرمایا۔
اس روایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش الحانی کو پسند فرماتے تھے۔ روایت کے الفاظ سے واضح ہے کہ آپ کے تحسین فرمانے کا سبب خوش الحانی ہے۔یہ چیز ظاہر ہے کہ تلاوت کے علاوہ بھی کہیں موجود ہو گی تو لائق تحسین ٹھہرے گی۔یعنی اللہ کی حمد و ثنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت یا دیگر اچھے مضامین کے اشعار کو اگر خوش الحانی سے پڑھا جائے تو ان سے محظوظ ہونا پسندیدہ ہی قرار پائے گا۔غنا اور موسیقی کا فن اسی خوش الحانی پر مبنی ہے۔تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ تلاوت قرآن کے لیے لحن کے جو قواعد مرتب کیے گئے ہیں، وہ فن موسیقی کے قواعد سے مختلف ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ آواز کا زیر و بم اور لہجے کی شیرینی و لطافت جیسے غنا کے بنیادی لوازم دونوں فنون میں یکساں طور پر مطلوب ہیں ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ دونوں فنون ایک نوعیت کا اشتراک بہرحال رکھتے ہیں۔
مزید براں اس روایت میں ’مزامیر آل داؤد‘ کے الفاظ مثبت انداز سے آئے ہیں ۔ ان کے استعمال سے آپ نے گویا سیدنا داؤد علیہ السلام اور ان کی قوم کے بارے میں بائیبل کی ان روایات کی تصدیق فرما دی ہے جن کے مطابق وہ اللہ کی حمد وثنا کے لیے آلات موسیقی استعمال کیا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ بعض جلیل القدر مفسرین نے قرآن کے ان مقامات کی تفسیر میں جہاں سیدنا داؤد علیہ السلام کی حمد و ثنا کا ذکر ہوا ہے، اسی روایت کو نقل کیا ہے۔ابن کثیر سورۂ انبیا کی آیت ۷۹ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وذلک لطیب صوتہ بتلاوۃ کتابہ الزبور وکان إذا ترنم بہ تقف الطیر فی الہواء فتجاوبہ وترد علیہ الجبال تأویبا ولھذا لما مر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أبي موسی الأشعری وہو یتلو القرآن من اللیل وکان لہ صوت طیب جدا فوقف واستمع لقراء تہ وقال: لقد أوتی ہذا مزمارا من مزامیر آل داود قال یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو علمت أنک تسمع لحبرتک تحبیرا، وقال أبو عثمان النہدی ما سمعت صوت صنج ولا بربط ولا مزمار مثل صوت أبی موسیٰ رضی اللّٰہ عنہ. (۳/ ۱۸۷)
’’اور یہ ان کی اچھی آواز کے ساتھ زبور کی تلاوت کرنے کی وجہ سے تھا۔ جب وہ اسے ترنم سے پڑھتے تو پرندے ہوا میں رک جاتے اور اس کا جواب دیتے اور پہاڑ اس تسبیح کا جواب دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوموسیٰ اشعری کے پاس سے گزرے ، جبکہ وہ تہجد کے وقت قرآن کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ رک گئے اور ان کی قرأت سنی ، کیونکہ ان کی آواز بے حد خوب صورت تھی۔ آپ نے فرمایا: بے شک، اسے آل داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار عطا کیا گیا ہے ۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) کہا : اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں آپ کو اور خوش کرتا۔ ابو عثمان نہدی نے بیان کیا ہے : میں نے کسی ڈھول ، بانسری اور بربط کی ایسی آواز نہیں سنی جیسی حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی ہے۔‘‘
اس روایت کی بنا پر یہ بات بھی بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سیدنا داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی مسلم تھی۔
____________
۲؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے ۔
۳؎ روایت میں ’ جاریتان‘ (دو لونڈیاں)کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے ’’بچیاں‘‘ مراد لیاہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ’ جاریۃ‘ کا لفظ ’’بچی ‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے، مگر یہاں لازم ہے کہ اس سے ’’لونڈیاں‘‘ ہی مراد لیا جائے اور لونڈیاں بھی وہ جو ماہر فن مغنیات کی حیثیت سے معروف تھیں۔ روایت کے اسلوب بیان کے علاوہ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ دوسرے طریق میں ’جاریتان‘ کے بجائے ’ قینتان ‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں ۔ ’قینۃ ‘کامعلوم و معروف معنی ’’ پیشہ ور مغنیہ‘‘ ہے ۔ روایت یہ ہے:
عن عائشۃ ان ابا بکر دخل علیھاوالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عندھا یوم فطر او اضحی وعندھا قینتان تغنیان بما تقاذفت الانصار یوم بعاث فقال ابوبکر مزمار الشیطان مرتین فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم دعھما یا ابابکر ان لکل قوم عیدا وان عیدنا ھذا الیوم. (بخاری، رقم۳۷۱۶)
’’سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ عید الفطر یا عید الاضحی کے روز ان کے پاس آئے نبی صلی اللہ وسلم بھی وہاں موجود تھے۔ اس وقت دو مغنیہ لونڈیاں وہ گیت گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث میں پڑھے تھے۔ سیدنا ابوبکر نے دو مرتبہ کہا : یہ شیطانی ساز (کیوں)؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر ابوبکر سے فرمایا : انھیں گانے دو۔ ہر قوم کا ایک عید کا دن ہوتا ہے ۔ اور آج ہماری عید کا دن ہے۔‘‘
۴؎ بخاری میں یہی روایت ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے:
عن عائشۃ انھا زفت امراۃ الی رجل من الانصار، فقال نبی اللّٰہ : یا عائشۃ ما کان معکم لھو، فان الانصار یعجبھم اللھو. ( رقم ۴۸۶۷ )
’’عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک خاتون کو ایک انصاری شخص سے بیاہ کر رخصت کر دیا۔(اس موقع پر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ، (کیا وجہ ہے کہ )تم لوگوں کے ساتھ کچھ گانا بجانانہیں تھا، (حالانکہ )انصار توگانے بجانے سے خوش ہوتے ہیں ۔‘‘
۵؎ محدثین نے اس روایت کو ’حسن‘قرار دیا ہے ۔
۶؎ یہاں ’جوار ‘ کا ترجمہ ’’بچیاں‘‘ کرنا درست نہیں ہے ، کیونکہ دوسرے طریق میں اس کے بجائے ’قینات‘ (مغنیات) آیا ہے:
عن انس بن مالک قال النبی علی حي من بنی النجار فاذا جواری یضربن بالدف ویقلن نحن قینات من بنی النجار فحبذا محمد من جار فقال النبی اللّٰہ یعلم ان قلبی یحبکم. (المعجم الصغیر، رقم۷۸)
’’انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے ایک قبیلے کے پاس سے گزرے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لونڈیاں دف بجا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہم بنی نجار کی گانے والیاں ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج محمد ہمارے ہمسائے بنے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: اللہ جانتا ہے کہ میرے دل میں تمھارے لیے محبت ہے ۔ ‘‘
۷؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے ۔
۸؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح ‘قرار دیا ہے۔
۹ ؎ محدثین نے اس روایت کو ’ صحیح‘ قرار دیا ہے ۔
۱۰؎ شریعت کی رو سے خفیہ نکاح باطل قرار پاتا ہے۔چنانچہ نکاح کا اعلان شرائط نکاح میں شامل ہے۔اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میںنکاح کے موقع پر دف بجانے کو ضروری قرار دیا۔ بیہقی سنن الکبریٰ کی ایک روایت میں یہی بات تفصیل سے بیان ہوئی ہے:
عن علی ابن ابی طالب أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر ہو وأصحابہ ببني زریق فسمعوا غناء ولعبا فقال ما ہذا قالوا نکاح فلان یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال کمل دینہ ہذا النکاح لا السفاح ولا النکاح السر حتی یسمع دف أو یری دخان قال حسین وحدثنی عمرو بن یحی المازني أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یکرہ نکاح السر حتی یضرب بالدف. (بیہقی سنن الکبری،رقم۱۴۴۷۷)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ہمراہ بنی زریق کے پاس سے گزرے ۔ اس موقع پر آپ نے ان کے گانے بجانے کی آواز سنی ۔ آپ نے پوچھا :یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا :یا رسول اللہ ، فلاں شخص کا نکاح ہو رہا ہے ۔ آپ نے فرمایا : اس کا دین مکمل ہو گیا۔ نکاح کا صحیح طریقہ یہی ہے ۔ نہ بدکاری جائز ہے اور نہ پوشیدہ نکاح ۔ یہاں تک کہ دف کی آواز سنائی دے یا دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دے۔ حسین نے کہا ہے اور مجھ سے عمرو بن یحییٰ المازنی نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ نکاح کو ناپسند کرتے تھے یہاں تک کہ اس میں دف بجایا جائے ـ۔ ‘‘
نکاح کے موقع پر موسیقی کے استعمال کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے اور تمدن کے لحاظ سے ضروری قرار دیا۔ موجودہ زمانے میں عرف اور حالات کے مطابق کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
۱۱؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے ۔
۱۲؎ یہاں ’ قینۃ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کے معنی ماہر فن اور پیشہ ور مغنیہ کے ہیں ۔
۱۳؎ بعض لوگ اس روایت کو غنا کی شناعت میں استدلال کے لیے پیش کرتے ہیں۔اس ضمن میں ان کی بناے استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ ہے :’’عمر کے آنے سے شیاطین جن و انس بھاگ کھڑے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ اس جملے کی بنا پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیقی کو شیطان سے منسوب کر کے اس کی شناعت کا اظہار فرمایا ہے ۔ ہمارے نزدیک سیاق کلام سے واضح ہے کہ یہ محض تفنن طبع کا جملہ ہے جو آپ نے سیدنا عمر کی طبیعت کی سختی کو بیان کرنے کے لیے ارشاد فرمایا ہوگا۔ اگر اس کے لفظی معنوں ہی کو حقیقی سمجھا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ سیدہ عائشہ ، سیدنا ابوبکر اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گانا سننے کے عمل کو کیا معنی پہنائے جائیں گے ؟
۱۴؎ اس لفظ کا یہ مصداق اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد ہر لحاظ سے سے معلوم و معروف رہاہے۔ امرؤ القیس کے اشعارہیں:
فان امس مکروب فیا رب قینۃ
منعمۃ اعملتھا بکران
لھا مزھر یعلوا الخمیس بصوتہ
جش اذا ما حرکتہ الیدان
’’اگرچہ کل غمگین تھی تو کیا ہوا کتنی ہی نرم و نازک گانے والی لونڈیاں ہیں جن کو میں نے گانا گانے پر مامور کیا۔ ان کے پاس ایسا ساز ہے جس کی آواز پورے لشکر پر چھا جاتی ہے اور جب ہاتھ اس کو حرکت دیتے ہیں تو اس سے ایک بھاری اور بھدی آواز نکلتی ہے ۔‘‘
۱۵؎ محدثین نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے ۔