شرعی اصول ھے کہ ” لا عقوبۃ اِلۜا بالتجریم ،ولا تجریم اِلۜا بالنص ” کوئی سزا نہیں دی جا سکتی جب تک کسی کو مجرم ثابت نہ کر دیا جائے،اور کوئ مجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی ایسا قانون نہ بنا دیا جائے جس کے کسی ارٹیکل یا سیکشن کی خلاف ورزی کو جرم کہا جا سکے ھر فرض ،واجب اور مستحب بصیغہ امر ھی دیا جاتا ھے کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو، جس حکم کی خلاف ورزی پر کسی سزا کا تعین نہ کیا جائے وہ حکم کی بجائے نصیحت کہلانے کی زیادہ حقدار ھوتی ھے،،مثلاً یہ سہولت بھی آپ کوبصیغہ حکم ھی دی گئی ھے کہ جمعے کی نماز کے بعد زمین میں بکھر جاؤ اور جا کر اللہ کا فضل ڈھونڈو ،، اب یہ بکھرنا اور روزی تلاش کرنا فرض بھی قرار دیا جا سکتا تھا،، مگر یہ صرف سہولت قرار پایا اور آپ کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ،حکم شرعی الفاظ کو نہیں کہا جاتا بلکہ حکم شرعی ان الفاظ سے مترتب اور متشرح نتیجے کو کہا جاتا ھے،،علماء میں اختلاف الفاظ پر نہین بلکہ حکم کی قسم پر رھا ھے کہ یہ حکم فرض ھے یا واجب یا مستحب ؟ پھر اس کو سمجھنے کے لئے اصول بنائے گئے کہ جس حکم کی خلاف ورزی پر دنیاوی سزا رکھی گئی ھے، وہ فرض ھے اور اس کی خلاف ورزی حرام ھے، وغیرہ وغیرہ ،، قرآنی احکامات بھی اسی اصول کی بنیاد پر تقسیم کیئے جاتے ھیں،،ایک وہ احکامتِ ربانی جن کی خلاف ورزی پر کوئی نہ کوئی دنیاوی سزا متعین کر دی گئی ھے،، اور جب آپ ایک دفعہ قانون کے تحت جرائم اور سزا کی کوڈیفیکیشن کر دیتے ھیں تو اب آپ اپنی مرضی سے اسے نہیں چھیڑ سکتے کہ جب چاھا جو چاھا سزا دے دی ،،بلکہ سزا بدلنے کے لئے جرم کی دفعہ بدلنی پڑے گی ! شراب نوشی کی دفعہ کے تحت زیادہ سے زیادہ 40 کوڑے مارے جا سکتے ھیں ،، مگر اھلِ عراق اس بلا کے شراب نوش تھے کہ یہ سزا ان کے لئے کوئی اھمیت نہیں رکھتی تھی ، شراب نوشی کے واقعات کی کثرت پر گورنر نے کیس دارالخلافۃ ،یعنی مدینے بھیج دیا،، عمر فاروقؓ نے شوری بلائی اور پوچھا کہ کیا شراب نوشی پر سزا کو بڑھایا جا سکتا ھے،، جواب ملا کہ یہ نص ھے اس میں تبدیلی ممكن نهين ، البتہ حضرت علی ؓ نے تجویز پیش کی کہ شرابی جب شراب بیتا ھے تو جھوٹ بھی بولتا ھے تو کیوں نہ اس پر جھوٹ کی دفعہ لگائی جائے اور قذف کی سزا کا اطلاق کیا جائے،،سب کا اس پر اتفاق ھو گیا،یوں شراب نوشی پر قذف کی دفعہ لگا کر سزا کو 80 کوڑے کر دیا گیا،، آج کل شراب نوشی پہ 80 کوڑوں کی سزا شراب نوشی کی دفعہ نہیں بلکہ قذف کی دفعہ کے تحت دی جارھی ھے، اسی طرح قرآن میں زانی کی سزا 100 کوڑے ھی ھے اور دفعہ تبدیل کئے بغیر اس سزا کو نہیں چھیڑا جا سکتا مگر نبی کریمﷺ نے اپنے اختیار کو استعمال فرماتے ھوئے فساد فی الارض کیدفعہ کے تحت رجم فرمایا ھے اور پھر اس مین شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کی تحقیق اسی وجہ سے نہیں کی کیونکہ دفعہ تبدیل ھونے کے بعد اس کی ساری شرائط تبدیل ھو گئی تھیں !جب کہ احکامات کی ایک قسم وہ ھے جن کی خلاف ورزی ایک غیر اخلاقی حرکت تو ھے مگر ان کی کوئی دنیاوی سزا مقرر نہیں ھے،، مثلاً سورہ الحجرات کے اخلاقی احکامات،مرد مردوں کا اور عورتیں عورتوں کا تمسخر نہ اڑائیں،، ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کریں،،برے لقب نہ رکھیں،، ایک دوسرے کے اعمال و افعال کی جاسوسی نہ کریں، سوء ظن سے کام نہ لیں اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کریں،، ان میں سے انسان اگر کسی کا ارتکاب کر لے،جو کہ ھم بدقسمتی سے روزانہ کی بنیاد پر کرتے ھیں،،تو اس ارتکاب کی سزا کوئی نہیں رکھی گئی، آپ کسی کی کھوج کرید کریں،، کسی کو گنجا کہیں،یا غیبت کریں تو ان افعال کو اخلاقی کمزوری تو کہا جائے گا ،مگر جرم نہیں کہلائے گا،کیونکہ جرم عقوبت کو سزاوار ھے،، اور ان کی عقوبت کوئی نہیں،، تکبر بری چیز ھے مگر اس کی سزا کوئی نہیں کہ پولیس آ کر اپ کا دروازہ کھٹکھٹائے کہ باھر نکلو تمہارے بارے میں رپورٹ ملی ھے کہ آج تم اکڑ کر چلے ھو اور تمہارا تہہ بند بھی ٹخنوں سے نیچے تھا،، اسی مہمان نوازی اور مہمان سے مسکرا کر ملنے کا بڑا درجہ ھے مگر اس کی خلاف ورزی پر آپ کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی جا سکتی کہ فلاں شخص کے گھر گیا تو وہ منہ منگلوار کی طرح نکال کر ملا ھے مسکرا کر نہیں ملا بلکہ اس کا منہ منگویا یہ ایک اخلاقی کمزوری ھے،، پولیس کے دائرہ اختیار میں آنے والے امور میں سے نہیں،، جن جرائم پر سزا ھے وہ قانون کے تحت آتے ھیں اور جن پر سزا نہیں ھے اور پولیس اس پر ایکشن نہیں لے سکتی ان احکامات کو آداب میں شمار کیا جاتاھے ! جن اخلاقی کمزوریوں پر دنیاوی سزا کا اطلاق نہیں کیا گیا، ان کی آخرت کی عقوبت بہت سخت رکھی گئی ھے،،اور یہ معاملے کو بیلنس کر دیتی ھے ،،لوگ خوفِ آخرت سے ان کو ترک کردیں،اسی حکمت کے مدِنظر بعض معمولی سمجھے جانے والی اخلاقی کمزوریوں پر حیران کن حد تک سخت سزا رکھی گئی ھے،، مثلاً ایک غیبت 36 زنا سے بھی زیادہ بدتر اور مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ھے،، سود کا ایک درھم، ماں سے بدکاری کے برابر ،، چغل خور جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا،، متکبرین کو چیونٹیوں کی شکل مین پیدا کیا جائے گا اور وہ لوگوں کے پاؤں کے نیچے کچلے جائیں گے،، وغیرہ وغیرہ،، اگر پردے کے احکامات اخلاقی ھدایات نہیں ھیں تو ان کی خلاف ورزی پر کیا سزا رکھی گئی ھے ؟ اگر ایک عورت ان احکامات پر عمل نہیں کرتی تو اس کو دورِ نبویﷺ یا خلفاء راشدین کے زمانے میں کیا سزا دی گئی ،جبکہ خواتین کا بے پردہ نبیﷺ کے سامنے آنا ثابت ھے؟؟الٹا لونڈی پر یہ سختی کی گئی کہ وہ نماز میں بھی سر نہیں ڈھانپے گی،اور نہ بازار میں پردہ کر کے یا چادر لے کے چلے گی،،تا کہ آزاد عورت اور لونڈی ک
ا فرق واضح رھے،، حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک عورت کو پردہ کر کے جاتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون ھے؟ جواب دیا گیا کہ یہ ام سلمیؓ ام المؤمنین کی لونڈی ھے،تو آپؓ نے اس کو ڈانٹ کر سرِ بازار اس کا پردہ اتروایا اور کہا کہ اگر ام المومنیؓن کا احترام ملحوظِ خاطر نہ ھوتا تو میں تمہیں سزا دیتا، اور پھر آپؓ نے ام المومنین کو پیغام بھیج کر استدعا کی کہ اپنی لونڈیوں کو پردے سے روکیں ورنہ وہ ان کے لئے سزا مقرر کر دیں گے،، گویا کسی زمانے میں آزاد عورت اور لونڈی میں فرق کا پیمانہ جسے کوئی بازار میں بھی چیک کر سکتا تھا صرف پردہ ھی تھا،، آج کل تھیوری کے لحاظ سے ماشاء اللہ ساری آزاد ھیں،لونڈی کا وجود ختم ھو چکا ھے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ان احکامات کی اھمیت کوئی نہیں، بلکہ ان کی خلاف ورزی پر اخرت کی سزا مستلزم ھے،، جس کا ڈراوہ باقاعدہ قرآن میں دیا گیا ھے ،،مگر چونکہ اس میں خطاب نبیﷺ کی بیویوں کو کیا گیا ھے لہٰذا اب دوسرا مغالطہ شروع ھوا کہ یہ احکامات صرف نبیﷺ کی بیویوں کو جاری ھوئے تھے ! اس مغالطے کی وجہ ایک دوسرا مغالطہ ھے،،اور وہ اللہ پاک کا طرزِ کلام نہ سمجھنا ھے !(جبکہ سورہ نور کے احکامات تو مومنات کا ذکر کر کے دیئے گئے ھیں) اللہ پاک جب کسی کو اسوہ قرار دیتا ھے تو پھربعض دفعہ اسی کو احکامات کا مخاطب بناتا ھے، جب سورہ بنی اسرائیل میں اللہ پاک نے اپنے احکامات کا رخ نبیﷺ کی طرف کیا تھا تو وہ اسی اصول کی بنیاد پر تھا، مثلاً سنگل صیغہ استعمال کرتے ھوئے اللہ پاک نے نبی کریمﷺ کو فرمایا کہ تیرا رب فیصلہ کر چکا ھے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو،، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو تم ان کو نہ تو اف کہو اور نہ ان کو جھڑکو،اور ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرو،، اب اس میں براہ راست نبیﷺ کو یوں مخاطب بنایا ھوا ھے،جیسے نبی کریمﷺ کے والدین ان کے پاس گھر میں بیٹھے ھوئے ھیں حالانکہ سب کو پتہ ھے کہ نبیﷺ کے والدین تو فوت ھو چکے تھے،،