بندر دیکھنے میں جتنا پھرتیلا اور ھوشیار نظر آتا ھے پکڑے جانے میں مرغی سے بھی زیادہ آسان شکار ھے ،، یہ اپنی فطرت سے مار کھا جاتا ھے ،،شکاری ایک تنگ منہ کے گھڑے میں اخروٹ ڈال کر خود چھپ جاتے ھیں ،، بندر اتر کر اس گھڑے میں ھاتھ ڈالتے ھیں اور جتنے اخروٹ مٹھی میں آئیں ،مٹھی بھر لیتے ھیں ،، اس کے بعد شکاری سامنے آ جاتے ھیں بندر اگر چاہیں تو جھٹ اخروٹ چھوڑ کر اپنا ھاتھ نکالیں اور بھاگ لیں ،مگر یہیں وہ اپنی فطرت یا جبلت یا بیوقوفی کا شکار بنتے ھیں کہ شور تو بہت کرتے ھیں اور اچھل کود بھی کرتے ھیں مگر کم بخت اخروٹ چھوڑ کر ھاتھ باھر نہیں نکالتے ، اخروٹ سمیت ھاتھ نکالنے کی کوشش کرتے ھیں ،، یوں اخروٹ سمیت پکڑے جاتے ھیں ،،،،
بالکل یہی طریقہ واردات ملحدین بھی اختیار کرتے ھیں ،، وہ چند ایک احادیث کسی پوسٹ میں لگا دیتے ھیں ،جن کو انسانی فطرت قبول نہیں کرتی ،اللہ نے ھر انسان کو ایک فطرت عطا فرمائی ھے جو حشر میں اس کے خلاف بطور حجت پیش کی جائے گی( فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا ،لا تبدیل لخلق اللہ ) اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ھے اور یہ کبھی تبدیل نہیں کی جا سکتی ،،، ھر انسان معروف و منکر سے آگاہ ھے ، جب انسان کی فطرت اس خبر کو مکروہ اور منکر جانتی ھے تو پھر وہ کسی جبر وخوف سے خاموش تو ھو جاتا ھے مگر وہ اس کو کبھی بھی قبول نہیں کرتا ، اس کا سسٹم ھی اس کو Recognize نہیں کرتا ،،، اب وہ دوڑتا ھے علماء کی طرف اور دعا کرتا جاتا ھے کہ یا اللہ کوئی تو عالم یہ کہہ دے کہ یہ حدیث ٹھیک نہیں ، تا کہ نبی ﷺ کے بارے میں جو کراھت میرے دل میں پیدا ھوئی ھے ،اس سے جان چھوٹ جائے ،، اور جب وھاں عالم بھی کہہ دے کہ حدیث تو واقعی صحیح ھے اور رسولﷺ نے واقعی یہ کیا ھے ،، تو ظاھر ھے اس کی کیا کیفیت ھو گی ،، علماء کا کام ان خبروں کی حفاظت کرنا ھے لوگوں کے ایمان کی حفاظت کرنا نہیں ،لوگ اپنے ایمان کے خود ذمہ دار ھیں ،، علماء اس فارمولے پہ رضامند ھیں کہ رسول اور حدیث دونوں کو بے شک چھوڑ دو ،، یعنی حدیث کو ھاتھ سے مت چھوڑو بیشک الحاد کے ھاتھوں پکڑے جاؤ ،، اگر لا تبدیل لخلق اللہ ھے اور کوئی انسان اپنی فطرت کو نہیں چھوڑ سکتا نہ اس کو Uninstall کر سکتا ھے تو پھر وہ اپنی فطرت اور اس حدیث کو ایک دل میں کیسے جمع کر سکتا ھے ،، ؟؟ وہ رسول کو چھوڑۓ یا رسول سے منسوب اس فعل کا انکار کر دے جو اس کا ضمیر نہیں مانتا کہ ایک شریف آدمی کا فعل ھو سکتا ھے ؟ ھمارے نزدیک ایسے کسی فعل کو قبول کرنے والے اللہ کے یہاں خود جوابدھی کریں گے جو نبئ کریم ﷺ یا کسی بھی رسول کے شایانِ شان نہیں ھے ، سوال ھو گا ترے ساتھ ضمیر نہیں تھا ؟ یہی وہ بات ھے جسے اللہ کے رسولﷺ نے کئ صحابہؓ سے بڑی تاکید سے کہا ،ان کے سینے میں اپنی انگلیاں کھبو کر فرمایا کہ جس پہ تیرا دل اور نفس مطمئن ھے وھی نیکی ھے ،جس سے تیرا نفس اور دل کراھت کرے وہ شر ھے ،چاھے فتوی دینے والے اس کے جائز ھونے کا فتوی دیں ،چاھے لوگ تجھے فتوی دیں ( مگر تو اللہ کے یہاں اپنے ضمیر اور دل کی سمجھ پر جوابدہ ھو گا ،لوگوں کے فتوے پہ نہیں ،،
هذا الحديث رواه الإمام أحمد (17545) عن وابصة بن معبد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له : (جِئْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ نَعَمْ فَجَمَعَ أَنَامِلَهُ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِنَّ فِي صَدْرِي وَيَقُولُ يَا وَابِصَةُ اسْتَفْتِ قَلْبَكَ وَاسْتَفْتِ نَفْسَكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ الْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ) .
وهو من أحاديث الأربعين النووية ، وقد حسنه النووي والمنذري والشوكاني ، وحسنه الألباني لغيره في "صحيح الترغيب” (1734) .
وقد جاءت أحاديث أخرى تدل على ما دل عليه حديث وابصة ، فعن النواس بن سمعان رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ) رواه مسلم (2553) .
وعن أبي ثعلبة الخشني رضي الله عنه قال : قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (الْبِرُّ مَا سَكَنَتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَاطْمَأَنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ ، وَالْإِثْمُ مَا لَمْ تَسْكُنْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَلَمْ يَطْمَئِنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ ، وَإِنْ أَفْتَاكَ الْمُفْتُونَ) رواه أحمد (29/278-279) طبعة مؤسسة الرسالة ، وصححه المحققون بإشراف الشيخ شعيب الأرنؤوط . وقال المنذري : "إسناده جيد” انتهى . "الترغيب والترهيب” (3/23) ، وكذلك قال الحافظ ابن رجب في "جامع العلوم والحكم” (1/251) ، والشيخ الألباني في "صحيح الترغيب” (2/151) .
تعجب کی بات یہ ھے کہ ایسی ایسی خسیس باتیں نبئ کریم ﷺ کی طرف پہلے روایات میں منسوب کر دی گئیں ،پھر وہ تفاسیر میں درج کی گئ یوں قرآن کو بھی Polluted کر دیا گیا اور لوگ کہتے پھرتے ھیں کہ ھم نے یہ قرآن میں پڑھا ھے ،یہ قرآن میں لکھا ھے ،،،
بڑی مشہور تفسیر میں ایک واقعہ لکھتے ھیں کہ ،،عربوں میں بیویوں کا تبادلہ کرنے کا بھی رواج تھا کہ ایک دوسرے سے کچھ عرصے کے لئے بیویوں کا تبادلہ کر لیا کرتے تھے ،، ایک دفعہ فلاں قبیلے کا ایک سردار آیا اور سیدھا حضورﷺ کے حجرے مین گھس آیا ،حضرت عائشہ بیٹھی ھوئی تھیں ،، اس نے ان کو دیکھا ،، حضور ﷺ نے اس سے کہا کہ تو نے اندر آنے کی اجازت کیوں نہیں لی ؟ اس نے کہا کہ واہ واہ ،، میں نے آج تک تو بنی مضر کے کسی شخص سے اس کے گھرمیں جانے وقت اجازت نہیں لی ،، اس پہ اس نے کہا کہ یہ عورت کون ھے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ میری بیوی ھے ،، اس نے کہا کہ آپ اس کا تبادلہ کر لیجئے میرے ساتھ ،میری اس سے زیادہ خوبصورت ھے ،، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اسلام میں حرام ھے ،،،،،،،،، یہ حدیث لکھنے کے بعد صاحب فرماتے ھیں کہ اس میں فلاں راوی بالکل ناقابلِ اعتبار ھے ،، ،،،،،،،،،،
خدا کے بندے اس گند کو قرآن میں لکھنے کے بعد لکھتے ھو کہ فلاں راوی ناقابلِ اعتبار ھے ،تو آپ نے اس روایت کو قرآن میں درج کر کے اسے اعزاز کیوں بخشا ؟ اس سانپ کو اپنی تفسیر میں ڈالا ھی کیوں ؟ خود اعتبار کر کے اسے قرآن کے حاشیئے پہ لکھ دیا اور دوسروں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ،، یہی مفسر لکھتے ھیں کہ ام سلیم خولہ بنت حکیم نے حضور کو اپنا آپ سونپا ھوا تھا ،، یعنی ھبہ کیا ھوا تھا ،، یہ ام سلیم انس بن مالکؓ خادمِ رسول کی ماں تھیں یعنی دونوں ماں بیٹا حضورﷺ کی خدمت کر رھے تھے ، انہی امِ سلیم کے بارے میں آپ کو روایتیں ملیں گی کہ حضورﷺ گرمیوں کے دنوں میں ان کے گھر آرام فرمایا کرتے تھے ،وہ حضورؓ کی جائیں نکالا کرتی تھیں یہانتک کہ حضورﷺ ان کے بستر پہ سو جایا کرتے تھے ، وہ حضورﷺ کا پسینہ جمع کیا کرتی تھیں ،، حضورﷺ کا پیسنہ 9 بیویوں میں سے کسی نے بھی جمع نہیں کیا ،،حضور ﷺ کی جوئیں 9 بیویوں میں سے کسی نے نہیں نکالیں ،،،،، جب کہ حقیقت یہ ھے کہ حضورﷺ نے کسی عورت کا ھبہ قبول نہیں فرمایا ،،
ھر شخص اپنے اندر سے بخوبی واقف ھے ، جب وہ محسوس کرے کہ کوئی حدیث اس کا ایمان بالرسالت کھا رھی ھے ، اور وہ اس حدیث سمیت محمد بن عبداللہ کو محمد رسولﷺ نہیں مان سکتا ،، تو وہ پہلی فرصت میں اس حدیث کو چھوڑ دے ،، اور اپنے ضمیر کی گواھی اور شہادت پہ صاد کرے ، اسے تسلیم کرے کہ میرے رسول ﷺ ایسے نہیں ھو سکتے ،، اور الحاد کے ٹریپ سے نکل آئے ،، لوگوں کے فتوؤں کی بالکل پرواہ نہ کریں ،
سورہ احزاب کے شروع مین لکھتے ھیں کہ فلاں صحابیؓ نے لوگوں سے کہا کہ سورہ احزاب کسی زمانے میں سورہ البقرہ کے برابر تھی ،، اور اب بس اتنی ھے جتنی تم پڑھتے ھو یعنی 73 آیتیں ،، 286 میں سے 73 آیتیں نکال دیجئے باقی 213 آیتیں کون کھا گیا ؟ بات کرو تو فوراً کمنٹ آئے گا کہ جناب انہوں نے ساتھ لکھا ھے کہ یہ حدیث ضعیف ھے ،، یارو اگر ضعیف تھی تو اسے قران میں درج کر کے قوت کی ڈرپ لگائی ھی کیوں گئ ؟ اس عالم کو لازماً اپنی تفسیر کو موٹا کرنا تھا ؟ اگر یہ حدیث قوی بھی ھوتی تب بھی قرآن اس کو رد کرتا ھے ،، انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ،، اور لا یأتیہ الباطل من بینِ یدیہ ولا من خلفہ ،،،