صلاۃ التسبیح کے موضوع پر طفیل ہاشمی صاحب کا غیر علمی رویہ (پہلی پوسٹ کا علمی جائزہ)
صلاۃ التسبیح کی نماز اپنے ثبوت کے اعتبار سے ہمارے دین میں اُس طرح کی نماز نہیں ہے جس طرح مثال کے طور پرفرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے معروف سنن رواتب، قیام اللیل کی نماز اور اُس میں وتر کا معاملہ ہے۔ صلاۃ التسبیح کا ثبوت علما ومحدثین کے ہاں بہت مختلف فیہ رہا ہے۔
اِس نماز کے طریقے اور ثبوت کے بارے میں لوگ اکثر سوال بھی کرتے ہیں۔ بر صغیر پاک وہند میں اِس کا اہتمام کرنے والے بھی پائے جاتے ہیں۔ اِس نماز کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں اشکالات بھی ہیں جو عرب وعجم کے مسلمانوں میں زیر بحث ہیں۔ اِس کو پڑھنے والےعامۃ الناس بالعموم رمضان میں زیادہ اجر کی نیت سے اِس کا خاص اہتمام بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے رمضان میں یہ نماز ، نبی ﷺ سے اِس کا ثبوت اور دین میں اس کا استحباب اِس مہینے میں بکثرت موضوع بحث بنتا ہے۔اِس کے بارے میں یہ بحث ونزاع اب انٹرنیٹ، سوشل میڈیا ویب سائٹس اور مختلف آن لائن مذہبی مکالموں اور سوال وجواب کے پروگراموں میں بھی دیکھ لیا جاسکتا ہے۔
طفیل ہاشمی صاحب نے رمضان ہی کی مناسبت سے چند دن قبل لوگوں کو صلاۃ التسبیح کی ترغیب دینے کے لیے اِس موضوع پر اپنی پہلی پوسٹ ’صلاۃ تسبیح‘ کے عنوان سے لکھی جس کا آغاز انھوں نے اِس طرح کیا کہ: ’’آخری عشرے کی تمام راتوں میں، نہ معلوم کون سی طاق ہے اور کون سی جفت۔ اگر تھوڑی سی ہمت کر کے ہر رات صلاہ تسبیح پڑھ لی جائے تو اس کی بے پناہ افادیت سارا سال رہتی ہے‘‘۔
اِس پہلی پوسٹ میں ہاشمی صاحب سے کیا علمی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور اُن کے رویے میں کیا نقائص دیکھے گئے ہیں، ذیل ہم قارئین کی خدمت میں اِس کی وضاحت کریں گے:
طفیل ہاشمی صاحب کے بقول اُنھوں نے اپنے قارئین کو اِس نماز کا وہ طریقہ بتایا جو نبی ﷺ نے اپنے چچا سیدنا عباس کو سکھایا تھا۔
سب سے پہلی علمی غلطی ہاشمی صاحب سے یہ ہوئی کہ نبی ﷺ کی نسبت سے یہ پوری بات اور اِس نماز کے طریقہ کو بیان کرتے ہوئے اُنھوں نے روایت کا اصل متن قارئین کے سامنے رکھا، نہ کوئی حوالہ ہی نقل کیا۔
دوسری بڑی غلطی اُن سے یہ ہوئی ہے کہ اُنھوں نے ہر رکعت کے قیام میں ۲۵ مرتبہ تسبیح پڑھنا بتایا ہے اور وہ اِس طرح کہ قرأت فاتحہ سے پہلے ۱۰مرتبہ اور سورت پڑھ لینے کے بعد ۱۵ مرتبہ ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حدیث کے پورے ذخیرے میں ایسی کوئی ضعیف یا من گھڑت روایت بھی نہیں پائی جاتی جس میں یہ بیان ہوا ہو کہ نبی ﷺ نے اپنے چچا سیدنا عباس کو قیام میں اِس طرح ۲۵ مرتبہ تسبیح پڑھنے کی تلقین کی ہو۔ اِس باب کی تمام ضعیف اور ناقابل اعتبار روایتوں میں بھی قیام میں صرف ۱۵ مرتبہ تسبیح پڑھنے کا حکم بیان ہوا ہے اور وہ صرف تلاوتِ سورت کے بعد ہے ۔
لہذا اُنھوں نے اِس سوال کا لازماً جواب دینا ہوگا کہ اِس بات کا ماخذ کیا ہے؟ قیام میں تسبیحات کا یہ طریقہ اور عدد اُنھوں کہاں سے اخذ کر کے بیان ہے؟اُن کے نزدیک اگر ضعیف حدیث بھی قابل عمل ہے تو وہ قارئین کو یہ بتائیں کہ یہ بات اُنھوں نے نبی ﷺ سے مروی کون سی ضعیف حدیث کی بنیاد پر یہ بات بیان کی ہے؟ اگر آپ کے پاس مرفوع احادیث میں اِس کا کوئی ماخذ وحوالہ نہیں ہے تو ایک متعین نماز میں مروی روایتوں کے برخلاف یہ تبدیل اُنھیں نے آخر کس بنیاد پر کی ہے؟ کیا موجود حدیث کے برخلاف کسی عبادت میں ایسی تبدیلی کرنا بھی آپ کے نزدیک بدعت نہیں ہے؟
اِس نماز کا طریقہ قارئین کو بتانے میں تیسری غلطی طفیل ہاشمی صاحب نے یہ کی ہے کہ اِس باب کی تمام روایتوں میں ہر رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد ایک جلسے کا حکم ہے، یعنی دوسرے سجدے کے بعد براہ راست قیام کے لیے نہیں اُٹھنا ہے، بلکہ پہلے بیٹھ کر وہیں ۱۰ مرتبہ تسبیح کو دہرانا ہے۔ روایت کے ہر طریق میں بصراحت بیان ہونے والا یہ جلسہ اور اِس کی ۱۰ تسبیحات ہاشمی صاحب نے اپنی طرف سے حذف کردی ہیں۔یعنی ہر رکعت میں ۷۵ تسبیحات کی مجموعی تعداد تو اُنھوں نے حدیث باب کے مطابق بتائی ہے، لیکن ہر رکعت کے آخر سے یہ جلسہ اور اِس کی تسبیحات کو حذف کر کے قیام میں قرأت سے قبل کی ۱۰ تسبیحات کا اضافہ کردیا ہے۔
ہاشمی صاحب، ذرا بتائیے کہ تمام روایاتِ باب کے برخلاف یہ ترمیم وتبدیلی آپ نےکس دلیل کی بنیاد پر کی ہے؟ کیا اِن روایتوں میں بیان ہونے والی نماز کے طریقے میں آپ کا اِس طرح اپنی صواب دید سے تبدیلیاں کرلینا بھی بدعت نہیں کہلائے گا؟
علاوہ ازیں ہاشمی صاحب کی یہ بات کہ: ’’رمضان میں اگر تھوڑی سی ہمت کر کے ہر رات صلاۃ تسبیح پڑھ لی جائے تو اس کی بے پناہ افادیت سارا سال رہتی ہے‘‘، یہ ایک غیبی بات ہے کہ پورے سال اِس کی افادیت رہتی ہے۔ ایک تو اِس بات کا مطلب ومفہوم اُن کے نزدیک کیا ہے؟ دوسرے اِس دعوے کا ماخذ کیا ہے؟ یہ بات نبی ﷺ نے اپنے چچا کو کون سی روایت میں فرمائی ہے کہ رمضان کی ہر رات میں ہمت کر کے یہ نماز پڑھ لی جائے تو اس کی بے پناہ افادیت سارا سال رہتی ہے۔ ذرا اپنے قارئین پر اِس بات کا مفہوم وماخذ بھی واضح کریں گے؟
ہاشمی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اگر کسی موقع پر تسبیح پڑھنا بھول جائیں تو اگلے رکن میں تعداد پوری کر لیں‘‘، یہ بات کا بھی اُنھوں نے بغیر کسی دلیل کے لکھی ہے؟ چنانچہ اُن سے سوال ہے کہ اِس بات کے لیے بھی پہلے اپنا استدلال واضح کریں کہ ایک رکن میں تسبیح بھول جانے کے بعد وہی عدد اگلے رکن میں جاکر دہرانا ہوگا؟ یہ کس حدیث میں بیان ہوا ہے؟
اُن کے علمی رویے میں نقص یہ سامنے آیا ہے کہ اِس پوسٹ کے اُن کی وال پر شائع ہونے کے بعد راقم الحرام سمیت اُن کے متعددقارئین نے اُنھیں خالص طالب علمانہ انداز میں کمنٹس کے ذریعےسے توجہ دلائی کہ علماے محققین کے نزدیک صلاۃ التسبیح سے متعلق تمام روایات ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں۔ بعض ائمہ نے اِس کو موضوع تک قرار دیا ہے۔اِن کمنٹس کو پڑھنے کے بعد اُن کا غیر علمی علمی رویہ یہ سامنے آیا کہ نہ انھوں نے کسی کے کمنٹس کا کوئی جواب دیا، نہ حدیث کے صحیح ہونے کا دعوی کیا، نہ اپنی بات کی وضاحت اور نہ کمنٹس میں شیئر کیے جانے والے اہل علم کے فتاوی ومقالات پر کوئی کلام کیا، نہ اُن کی تائید اور نہ اپنی بات سے رجوع کیا۔ بلکہ وہ خاموش رہے اور پھر ایک تدبیر اُن کو یہ سوجھی کہ ایک نئی پوسٹ لکھ کر تاویل کا کوئی راستہ اختیار یا جائے۔ چنانچہ پھر انھون نے ایسا ہی کیا۔(اُس دوسری پوسٹ کا علمی محاکمہ، ان شاء اللہ، میں اپنی اگلی پوسٹ میں کروں گا)
ایک طرف آپ ایک عالم اور پروفیسر کی شناخت رکھتے ہیں۔ شب وروز مذہب وسیاست پر اپنے تجزیات وتبصروں سے اپنے انھی قارئین کو نوازتے رہتے ہیں۔ نام لے کر بھی اہل علم پر نقد کرتے رہتے ہیں۔ استاذ غامدی صاحب جیسے جلیل القدر عالم کی علمی آرا کو بھی پوری طرح سنے اور صحیح طور پر سمجھے بغیر نہایت پست درجے کے تبصرے کرتے ہیں۔ اِس سب کے باوجود ہم جیسے طالب علم آپ کی عمر اور بزرگی کی رعایت کرتے ہوئے آپ سے نرمی برتتے اور تسامح کا رویہ اختیار کرتے ہوئے آپ کو اپنے ہی قارئین کے سامنے شرمندہ کرنے سے مسلسل بچاتے رہے ہیں۔ اِس رویے کو حیا، بڑوں کا احترام اور اخلاق کا پاس رکھنا کہا جاتا ہے۔
لیکن جو شخص ہر ایک پر کھلا نقد کرنے کو روا رکھتا ہے اُس کو خود بھی اپنی باتوں اور مذہبی آرا پر تنقید کا دروازہ ہر وقت کھول کر رکھنا چاہیے۔ ایک پروفیسر شخص کے ہاں علمی نقد کو سننے کا حوصلہ اِس عمر میں پہنچنے کے بعد بھی اگر پیدا نہ ہوسکا تو یہ اُس شخصیت پر پیدا ہونے والا ایک بڑا سوال ہے۔ اِس طرح تو ایک عام روایتی مسلکی متعصب مولوی میں اور آپ میں فرق کیا رہا؟
اپنی پوسٹوں پر کیے جانے والے سوالات واشکالات پر فرار اور کچھ کچھ دیر بعد ایک نئی پوسٹ لکھنے کی تدبیر سوچنے کے بجاے خالص علمی رویہ یہ ہے کہ اٹھائے جانے والے سوالات پر بغیر تعصب کے غور وتدبر کیجیے، کوئی جواب یا تاویل سوجھتی ہے تو اُسی پوسٹ پر جواب دے کر سائل کو بتائے تا کہ مکالمہ آگے بڑھے۔
اپنی غلط بات پر بات متعصب ہونے اوراُس کو پیش دینے بعد اُس کے حق میں دلائل تلاش کرنے کے بجاے، اُس پر نظر ثانی کیجیے۔
اپنی ہی وال پر اور اپنی لھی گئی بات پر علمی مکالمہ اور دلائل کے تبادلے کا حواصلہ اگر نہیں پاتے تو فرار کے لیے بلاوجہ لوگوں کے سامنے لفظ ’مناظرہ‘ اور اُس سے اجتباب کے الفاظ استعمال کر کے گمراہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟
اور یہ تو علم کے لحاظ سے ایک نہایت کمزور آدمی کا طریقہ ہے کہ کسی شخص کے سوالوں کا کوئی جواب آدمی کے پاس نہیں ہے تو اپنی قارئین میں شرمندگی سے بچنے کے لیے اُس کے کمنٹس کو ڈلیٹ کر کے اُس کو بلاک کردیا جائے اور اُس کی غیر موجودگی میں اپنے نہایت کمزور موقف کے بیان کو اپنے مریدین اور آنکھیں بند کر کے داد دینے والوں کے سامنے جاری رکھا جائے ۔
ہاشمی صاحب، آپ کا تعارف ایک صاحب علم کا ہے، لہذا علمی مکالمے کی طرف آئیے۔ اپنی بات پر نقد کا سامنے کیجیے۔ لوگوں کو اپنے مریدین کے سامنے سوال کرنے کا حق دیجیے۔ مکالمے سے فرار کا راستہ اختیار کر کے آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم آپ کی شخصیت کے بارے میں جو تعارف اور گمان رکھتے تھے، پہلا ہی معاملہ پیش آنے پر پتا چلا کہ آپ بھی درحقیقت ویسے نہیں تھے۔ (جاری)
نوٹ: قارئین سے درخواست ہے کہ اِس پوسٹ کو اور اِسی سلسلے کی اگلی تحریروں کو جناب طفیل ہاشمی صاحب تک پہنچا دیں تا کہ میرا یہ نقد اُن کو کو بر وقت موصول ہوتا رہے۔ ابھی تو یہ سلسلہ شروع ہوا۔
صلاۃ تسبیح پر طفیل ہاشمی صاحب کی ایک پوسٹ
صلاۃ تسبیح ___روایات کے آئینے میں
امام محمد بن ابی الفتح البعلی الحنبلی(٦٤٥___٧٠٩) نے
الجزء النجیح فی الکلام علی صلاۃ التسبیح
کے نام سے ایک مختصر رسالہ لکھا
جسے نظام بن محمد صالح یعقوبی نے ایڈٹ کر کے دار البشائر الاسلامیہ بیروت سے ٢٠١٢ میں شائع کیا ہے.
مدون کے مطابق صلاۃ تسبیح پر امام دار قطنی، خطیب بغدادی، حافظ ابو موسی المدنی، حافظ ابن ناصر الدین الدمشقی اور امام جلال الدین سیوطی سمیت بیس سے زائد محدثین کی تالیفات ہیں جنہوں نے بالعموم صلاۃ تسبیح کی روایات کو صحیح قرار دیا ہے. ستر سے زائد محدثین نے صلاۃ تسبیح کی احادیث کو صحیح یا حسن یا حسن لغیرہ قرار دیا ہے.
اس مسئلہ پر منفی رائے کا آغاز اس سے ہوا کہ ابن جوزی نے جو قبول حدیث میں شدت پسند ہیں اور بکثرت صحیح احادیث کو موضوع قرار دے دیتے ہیں اس حدیث کو بھی موضوعات میں ذکر کیا. بعد میں امام ابن تیمیہ امام جوزی سے متاثر ہوئے اور دور جدید کے سلفی اور وہابی علماء ابن تیمیہ کے مقلدین ہونے کے باعث اسے بدعت قرار دینے لگے.
صلاۃ تسبیح کی حدیث خطیب بغدادی نے اپنے رسالہ صلاۃ التسبیح (٢٦)پر روایت کی ہے لیکن اس میں ایک راوی ضعیف ہے. اس کی صحیح تر روایات ابو داؤد (١٢٩٧)ابن ماجہ (١٣٨٧)اور ابن خزیمہ (١٢٢٦)میں مذکور ہیں. زیر بحث رسالہ کے مولف کہتے ہیں کہ یہ روایت مجھ سے لے کر رسول اللہ تک ثقہ رواۃ پر مشتمل ہے اور سند میں کوئی علت و شذوذ نہیں ہے. اس روایت کو صحیح یا حسن ہونا چاہیے. مزید دیکھئے، النقد الصحیح للعلائی (٣٠_٣١)الترجیح لحدیث صلاہ التسبیح لابن ناصر الدین الدمشقی (٣٩_٤٠)
مشہور محدث اور امام ابوحنیفہ کے اصحاب میں سے عبداللہ بن مبارک نے صلاۃ تسبیح پڑھنے کا طریقہ بتایا (دیکھیے، نووی، الاذکار، ٤٨٣)،ابن قدامہ، المغنی، (٢:١٣٣)
شیخ عبدالقادر جیلانی (غنیۃ الطالبین، ٢:١٤٤)میں بتاتے ہیں کہ وہ صلاۃ تسبیح کی چار رکعات میں بالترتيب سورہ سبح، زلزال، کافرون اور قل ھو اللہ پڑھتے ہیں.
امام شافعی کے اصحاب میں سے امام بغوی، اور الرویانی نے حنابلہ میں سے ابوالوفاء بن عقیل، المقدسی، ابو القاسم السامری اور شیخ عبدالقادر جیلانی نے صلاۃ تسبیح پڑھنے کی ترغیب دی
جہاں تک ان کلمات کا تعلق ہے جو اس میں پڑھے جاتے ہیں تو متعدد روایات میں ان کے پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے.
روایات کے مطابق اس نماز کے پڑھنے سے پہلے، پچھلے، پرانے، نئے، دانستہ نا دانستہ صغیرہ، کبیرہ، مخفی اعلانیہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں
اور استغفار کی افادیت جاننے کے لیے قرآن کا سورہ ہود اور سورہ نوح کا مطالعہ کر لیا جائے.
یاد رہے کہ کسی روایت کے کسی راوی کو ضعیف قرار دینا کسی بھی مولف کی اپنی اجتہادی رائے ہوتی ہے اور اس میں مولفین میں اس قدر اختلافات ہوتے ہیں کہ رہے نام رب کا.ہر کوئی اپنی مرضی کے مآخذ سے ضعیف راوی تلاش کر لیتا ہے. صحابہ کرام کے بعد ایسے رواۃ کی تعداد زیادہ نہیں جن کے ثقہ ہونے پر اجماع ہو حتی کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام بخاری تک کو ضعیف شمار کیا گیا ہے، اسی لئے میں روایت کا مدار درایت کو قرار دیتا ہوں.