بدنامِ زمانہ لفظ "حلالہ” قرآن کریم کی سورت البقرہ کی آیت 230 کے لفظ ” تحل لہ ” سے ماخوذ ھے ،،
(( فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ ” تَحِلُّ لَهُ ” مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنکِحَ زَوْجًا غَیْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْکَ حُدُودُ اللّهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (230)
پھر اگر وہ شوھر عورت سے فدیہ لے کر اس کے مطالبے پر طلاق دے دیتا ھے ( جو کہ خلع کہلائے گا ) تو اب وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ھو سکتی جب تک کہ اس کے سوا کسی اور مرد سے دوسری شادی نہ کر لے ،،
اس میں خلع کا قانون بیان کیا گیا ھے نہ کہ طلاق کا ،طلاق کا حکم پچھلی آیت نمبر 229 پہ ھی ختم ھو چکا ھے ،،
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (229)
طلاق دینا دو دفعہ ھے اس ( دوسری طلاق) کے بعد عدت کے اندر یا تو اچھے طریقے سے اس کو تھام لے یا بہترین طریقے سے فارغ کر دے – اور تم مردوں کے لئے حلال نہیں کہ تم ان کو جو دے چکے ھو وہ واپس لو – سوائے اس کے کہ دونوں یہ سمجھیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اس صورت میں خلع لینے کے لئے عورتیں جو بھی فدیہ دیں دونوں کے لین دین میں کوئی گناہ نہیں ، یہ اللہ کی حدیں ھیں پس ان پر چڑھائی مت کرو ، جو بھی اللہ کی حدوں پہ چڑھ دوڑتے ھیں یہی وہ ظالم( بے انصاف ) لوگ ھیں ،، اب عورت کے مطالبے پر فدیہ لے کر دی گئ طلاق یعنی خلع کے بعد وہ عورت اس مرد کے لئے حلال نہیں ھو سکتی جب تک کہ کسی دوسرے مرد سے گھر بسانے کی نیت سے شادی نہ کر لے ،، چونکہ خلع عورت کی غلطی تھی ، لہذا اب اسے اگلے چوک سے ھی یو ٹرن کرنا ھے ، دوسرے مرد کو چکھ کر واپس آ سکتی ھے تا کہ اسے پچھلے شوھر کی قدر آئے اور پھر دوبارہ پرانا کھیل نہ کھیلا جا سکے ،،
آزاد عورت کی طلاقیں دو اور عدت 3 ماہ ھے ، جبکہ لونڈی کی طلاقیں تین اور عدت ایک ماہ ھے بعض فقہاء کے نزدیک ڈیڑھ ماہ ھے ،، جس دلہن کی رخصتی نہ ھوئی ھو اس کی طلاق ایک اور عدت کوئی نہیں ھے ،،
لہذا حلالے کا حکم فدیئے والی طلاق کے ساتھ ھے نہ کہ مرد کی طلاق کے ساتھ ، حلالے کا فطری طریقہ کہ عورت دوسرے مرد سے شادی کر کے گھر بسائے ،پھر اگر وہ شوھر فوت ھو جائے یا اس عورت کو کسی وجہ سے طلاق دے دے تو اب وہ سابقہ شوھر سے شادی کر سکتی ھے – اب گاڑی لگ جانے اور گاڑی مار دینے میں زمین آسمان کا فرق ھے ،، گاڑی لگ جانا ایک غلطی یا Offence ھے جبکہ جان بوجھ کر کسی کی گاڑی کو آگے پیچھے یا سائڈ سے گاڑی مارنا Crime ھے ،، بالکل یہی معاملہ مصنوعی حلالے اور شریعت کے بیان کردہ حلت کے طریقے کا ھے ،،
جس واقعے میں نبئ کریم ﷺ نے عورت کو دوسرے مرد سے شادی کا عسل چکھنے کا حکم دیا ھے اس میں عورت نے ھی خلع لی تھی –