یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ظلم وزیادتی پر آمادہ رہتا ہے اگر شوہر اچھا ہو گا کمپرومائز کرنے والا ہو گا۔سنی ان سنی کرنے والا ہو گا تو بیوی ظالم بن جائے گی اور اس سے اس کے ماں باپ کا خرچہ تک بند کروا دے گی، فون پر بات کرنا جرم بنا دے گی وہ بیچارہ گھر کا ماحول درست رکھنے کے لئے چھپ چھپ کر فون کرے گا اور فون چھپاتا پھرے گا جبکہ بیوی فون چیک کرنے پر اصرار کرے گی۔ اگر بیوی انسان کی بچی ہو گی سب کچھ برداشت کرنا شروع کر دے گی تو شوہر اس کو ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بات کرنے سے روک دے گا بلکہ طلاق ڈال دے گا کہ اگر والدین یا بھائیوں کو فون کیا تو طلاق۔ اگر والدین کے گھر گئ تو طلاق، اگر فلاں کا منہ دیکھا تو طلاق، یہی معاملہ ساس اور بہو کا ہے اگر ساس نے بہو پر کاٹھی نہ رکھی تو بہو یقیناً ساس پر کاٹھی رکھنے کی کوشش کرے گی۔ ہر گھر میں ایک ظالم اور مظلوم لازم ہے جس طرح ہر کہانی، ڈرامے اور فلم میں ھیرو اور ولن ہوتا ہے، کوئی بھی فلم ان دونوں کے بغیر نہ بنتی ہے نہ ہٹ ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والوں میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ہوتے ہیں۔ کسی بہو کے ساتھ کھڑی انسانی حقوق کی چیمپئین خاتون اپنی ساس کو گھر میں فزیکلی پیٹتی تھی۔