فقہ میں جب ایک مسلمان کی سماجی زندگی کو الگ الگ کر کے تقسیم کیا گیا تو عبادات کے نام پر نماز روزہ اور حج کو الگ کر دیا گیا ،، اب یہی تین کام کر کے لوگ سمجھتے ھیں کہ انہوں نے اللہ کی عبادت کر دی ،، مصطلحات( Terminology) دو دھاری تلوار ھوتی ھیں ،،، جو سبزی بھی کاٹتی ھیں تو بندہ بھی مار سکتی ھیں ,, جب آپ ایک پیکج کو کوئی نام دے دیتے ھیں تو پھر وہ نام مارتے ھی بس وھی چند چیزیں ڈسپلے ھوتی ھیں چاھے وہ موبائیل میں ھوں یا انسانی دماغ میں ،، آپ نے کہا دو رکعت نماز نفل ،،،، نفل بندگی اللہ تعالی کی ،،،،،،،، بس جناب آپ بطور بندہ رجسٹر ھو گئے ، چاھے باھر نکل کر دوسرا بندہ مار دیں آپ کی بندگی کو کوئی خطرہ نہیں ،، شریعت کو مختلف ناموں کے ساتھ بریک ڈاؤن کرنے کا نقصان یہ ھوا کہ ھر مفھوم نہ صرف محدود ھو کر رہ گیا بلکہ مسخ ھو کر رہ گیا ،، عبد کا ھر کام عبادت ھے جو وہ اپنے آقا کے حکم پر کرتا ھے ،یہانتک کہ اس کا سونا بھی عبد کا سونا ھے ،، ایک غلام کا سونا ھے کیونکہ وہ اپنی مرضی کا نہیں سوتا بلکہ آقا کی رضا تک سوتا ھے ،جس وقت اس کا آقا چاھے اسے جگا دے وہ جاگنے سے انکار نہیں کر سکتا ،، ان معنوں میں ایک مومن کی دکان ،کھیت کھلیان، عدالت و دفتر سب جگہ اس کا رویہ عبد کا ھونا چاھئے ،،کیوں کہ عبدیت نوکری نہیں ھوتی کہ آٹھ گھنٹے آپ نے ڈیوٹی دے لی تو اب آپ کی پرائیویٹ زندگی شروع ھو گئ ،، اب آپ یونیفارم اتار کر دھوتی بنیان بھی پہن سکتے ھیں ،، کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا ،، البتہ جب آپ ڈیوٹی پہ جائیں تو آفس کی آفیشیل وردی پہن کر جائیں ،، عبد ھر وقت عبد ھوتا ھے ،، اور رب کی رضا اس کا مشن ھوتی ھے اور معاملات و معاشرت کے بارے میں اس کے آقا کے ارشادات ماننا بھی اسی طرح بندگی ھے جس طرح نماز روزے اور وضو اور غسل کے بارے میں آقا کے احکامات کی پابندی لازمی ھے ،،
ھیئت !
قیام ، رکوع ،سجود ، قعدہ ،، یہ سب نماز کی ھیئتیں ھیں ،، ھیئت جگہ کی پابند ھوتی ھے ،، اور وقت کی پابند ھوتی ھے ،، جبکہ کیفیت نہ جگہ کی پابند ھوتی ھے اور نہ وقت کی پابند ھوتی ھے ،، کیفیت ھر جگہ مطلوب ھے ،، اور ھر وقت مطلوب ھے ،، عبادت سے جو کیفیت Save کی جاتی ھے وھی کیفیت جھوٹ بولنے اور کم تولنے سے روکتی ھے ، اسی کیفیت کو نمازوں کو محفوظ کرنے کا نام دیا گیا ،یعنی عبادت کی چارجنگ محفوظ رکھتے ھیں ،، والذین ھم علی صلواتھم یحافظون ،، اسی ھیئت اور کیفیت کے اس کیفیت کو Save کرنے کا نام نماز قائم کرنا ھے ،، جب تک آپ کی ایمرجینسی لائٹ چارجنگ پورٹ میں لگی ھوئی ھے ، وہ قائم ھے ، جونہی آپ نے اس کو ضرورت کے وقت آن کیا ، وہ جل کر بجھ گئ ،،پتہ چلا بیٹری چارج تو ھوتی ھے مگر چارجنگ محفوظ نہیں رکھتی ،یعنی اس کیفیت کو قائم نہیں رکھتی ،، عبادت کی کیفیت ھی عبادت کا نور ھے اور یہی وہ نور ھے جو پلصراط جیسے باریک اور تلوار جیسے کاٹدار فیصلوں میں انسان کو حق پہ قائم رکھتا ھے اور اسے سیدھی راہ سنجھاتا ھے ، یہی وہ نور ھے جو کسی کا مدینے سے صنعاء تک اس طرح قائم رھتا ھے کہ وہ مدینے سے صنعاء تک کا سفر بھی کرے تو نہ رب کی نافرمانی ھو اور نہ رب کی یاد سے غافل ھو ، اور یہ وہ نور ھے جو بس کسی کے دائیں ھاتھ کے انگوٹھے کے ناخن میں ٹمٹا کر بجھ جاتا ھے ، اور وہ مسجد کی سیڑھیوں تک بھی محفوظ نہیں رھتا ،،حالانکہ سارے ایک صف میں ایک امام کے پیچھے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ھوتے ھیں ،، مگر کچھ نمازیوں کا حال وھی ھوتا ھے کہ موبائیل میں چارجنگ پِن گھسا کہ سمجھا کہ چارجنگ ھو رھی ھے ، یہ نہ دیکھا کہ پیچھے سے سوئچ تو آن کیا ھی نہیں تھا ،، رب سے تعلق اور اس کے حضور میں حاضری کا تصور وہ سوئچ ھے جو کیفیات کی ڈاؤن لؤڈنگ کرتا ھے اور ایمان وہ سافٹ ویئر ھے جو ان کیفیات کو انسٹال کرتا ھے ،، اور معاشرے کے ساتھ تعلقات وہ اپلیکیشنز ھیں جہاں ان کیفیات کا ٹیسٹ ھوتا ھے ،، اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں،، وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھا لے اور اس کا پڑوسی بھوکا سو جائے ،، جس نے ملاوٹ کی وہ ھم میں سے نہیں ھے ،، تیرا پڑوسی کہے کہ تو نیک ھے تب تُو سچا نیک ھے اور اگر وہ کہہ دے کہ تو برا ھے تو یقیناً تو برا ھے ، اس لئے کہ گرمی ھو یا ٹھنڈک ،، سب سے پہلے قریب والا محسوس کرتا ھے ،،
جاری ھے ،،،،