اپنے ملحدین پہ کوئی روئے یا ھنسے ،،،، ھمارے گاؤں میں ایک صاحب ھوتے تھے ان کا دماغ گھوم گیا تھا زیادہ چرس پی پی کر ،، وہ کپڑے اتار کر کسی دیوار پہ رکھ دیتے اور ننگ مننگے لیفٹ رائٹ کرتے گاؤں کی گلیوں مین گھومنا شروع کر دیتے ،، بکری کی سوکھی مینگنیاں ایک جگہ جمع کرتے اور مٹھیاں بھر کر کھاتے جاتے اور کہتے جاتے ، واہ واہ کیا حلوہ ھے ،،،،،،،،، اسی قسم کے حلوے ان ملحدین کے خیالات میں بھی رھتے ھیں جن کو یہ عقلمندی اور پتہ نہیں کیا کیا نام دیتے ھیں ،،، قرآن حکیم کے بارے میں ان کا کوئی بھی اعتراض ان شاء اللہ کامیاب نہیں ھو گا ،ھم اس کا منہ توڑ جواب دیں گے ،،
ایک صاحب نے مجھے ان باکس یہ اعتراض بھیجا ھے ذرا پڑھیئے اور پھر جواب بھی دیکھئے !
یاد کرو جب فرشتوں نے مریم سے کہا اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام مسیح عیسی ابن مریم ھو گا
میں نے سنا تھا کہ جبرائیل وحی لے کر آتا تھا لیکن یہاں پر معاملہ الٹ نظر آ رھا ہے
جب فرشتوں نے مریم سے کہا….,
اللہ تعالی کو مریم اتنی پسند تھیں کہ انکی طرف فرشتہ نہیں بلکہ فرشتے بھیج دیئے ..
کہدو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے
(سجدہ)
جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ھمارے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ھیں
(عمران)
اب بھی کچھ شک رہ گیا ہے کہ قرآن کے انسانی ھونے پر
اور تضادات سے بھرا ھونے پر
سورت سجدہ میں اللہ فرما رھا ہے کہ موت کا فرشتہ روحیں قبض کر تا ہے
جبکہ سورت عمران میں میں فرمارھا ہے کہ فرشتے روح قبض کر لیتے ھیں
پس تم عقل والوں کے سامنے کیسے انسانی کتاب کو آسمانی کہلواؤ گے
الجواب !
الحمد للہ وحدہ – والصلوۃُ والسلام علی من لا نبیَ بعدہ ﷺ ،،
اللہ پاک نے موت اور وفات کے بارے میں قرآن حکیم میں مختلف سوالوں کے جواب دیئے ھیں ،،
ایک جگہ ارشاد فرمایا ھے !
1- ( الله يتوفى الأنفس حين موتها والتي لم تمت في منامها فيمسك التي قضى عليها الموت ويرسل الأخرى إلى أجل مسمى إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون (الزمر- 42 ) )
اللہ وفات دیتا ھے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جو نہیں مرتیں ان کو نیند کے وقت ،پھر نیند میں جن کا وقت پورا ھو جاتا ھے ان کو روک لیتا ھے اور بقیہ کو واپس بھیج دیتا ھے ان کے مقرر کردہ وقت تک ،، اس میں تفکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ھیں
2- قل يتوفاكم ملك الموت الذي وكل بكم ثم إلى ربكم ترجعون ( السجدہ-11)
کہہ دیجئے تم پر وفات نافذ کرتا ھے موت کا فرشتہ جو تم پر ذمہ دار بنایا گیا ھے ، پھر تم اپنے رب کی طرف لائے جاتے ھو ،، یعنی لوٹائے جاتے ھو ،،
3- وهو القاهر فوق عباده ویرسل علیكم خفظة حتى إذا جاء أحدكم الموت توفته رسلنا وهم لا یفرطون (61 -الاعراف )
اور وہ اپنے بندوں کو قابو کیئے ھوئے ھے اور بھیجتا ھے تمہاری حفاظت کرنے والے محافظ( فرشتے ) یہانتک کہ جب تم اپنا وقت پورا کر لیتے ھو اور تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ھے ( تو محافظ فرشتے ھٹا لئے جاتے ھیں ) اور ھمارے بھیجے ھوئے فرشتے تمہیں وصول کر لیتے ھیں یعنی وفات دے دیتے ھیں ،، اور وہ ( وقت میں )کوئی کمی بیشی نہیں کرتے ( الاعراف- 61)
اب اس میں ترتیب یہ ھے کہ زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ پاک کرتا ھے ، جب تک زندہ رکھنا ھوتا ھے حفاظت کے انتظامات کرتا ھے اور وہ بھی محافظ فرشتوں کے ذریعے ، جب موت کا فیصلہ کرتا ھے تو اس کے نفاذ کے لئے موت کے انچارج فرشتے کو ڈیٹا فلیش کر دیا جاتا ھے جو بندے کی فائل دیکھ کر اس کے شایانِ شان فرشتوں کی ریکوری ٹیم مقرر کرتا ھے ، یوں اللہ کا فیصلہ ناٖفذ ھو جاتا ھے اور وہ فرشتے اسے لے کر رب کے حضور رجسٹرڈ کرواتے ھیں یا علیین میں یا سجین میں ،، اس میں کوئی تضاد نہیں ھے بلکہ اجمال کی تفصیل ھے ،پراسیس کو بریک ڈاؤن کر کے سمجھایا گیا ھے ،، اللہ وفات کا فیصلہ کرتا ھے ،متوفی کا نام پتہ اور جگہ موت کے ذمہ دار کو بھیجی جاتی ھے جو آگے اپنے بہت سارے اھکاروں سے کام لیتا ھے مثال سے سمجھ لیجئے !
1- ٹیکس حکومت لیتی ھے !
2- ٹیکس وزارتِ خزانہ وصول کرتی ھے !
3 – ٹیکس، سی بی آر وصول کرتا ھے !
4 ٹیکس ،، ٹیکس کولیکٹرز ٹیکس وصول کرتے ھیں !
اس میں کونسا تضاد ھے اور کونسا جھوٹ ھے ،، ؟؟
جب آپ غصے سے کہتے ھیں کہ ھم حکومت کو ٹیکس دیتے ھیں تب بھی آپ سچ بولتے ھیں ،، جب آپ کہتے ھیں وزارتِ خزانہ ھم پر ٹیکس تھوپ دیتی ھے ، تب بھی آپ سچ کہتے ھیں ، جب آپ کہتے ھیں کہ سی بی آر ھم سے ٹیکس لیتا ھے تب بھی آپ سچے ھوتے ھیں ،،،،،،
اب آیئے فرشتہ اور فرشتے کی بحث کی طرف ، مریم علیہ السلام کی طرف پیغام لے کر جبرائیل ھی تشریف لائے تھے ،، قال انما انا رسول ربکِ لاھب لک غلماً زکیاً ( مریم ) بشارت دینے والے فرشتے وحی لانے والے نہیں ھوتے وہ تو چند آیات پہلے حضرت زکریا پر بھی ٹوٹے پڑ رھے تھے ،، فنادتہ الملائکۃ و ھو یصلی فی المحراب ( آل عمران ) چند آیات بعد وہ حضرت مریم کو بشارت دینے ٹوٹ پڑے ھیں ،، اس میں تعجب والی کیا بات ھے وہ تو ھر مومن پر وقتِ وفات بشارت دینے کے لئے ٹوٹ پڑتے ھیں ،،
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (31) نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (32)( حم السجدہ ) اس سورت کا نام عرب پرنٹنگ والے قرآن میں ” فصلت ” ھے ،، دونوں نام توقیفی ھیں