سیانے کہتے ھیں کہ بیوہ تو بیوگی کا بوجھ اٹھا لے مگر چھڑے پیچھا نہیں چھوڑتے ،،
ھمارے فرانس کے ایک پرویزی دوست ھمیں کچھ عرصے سے چھیڑ رھے ھیں اور ھم ان کو طرح دیتے چلے آ رھے ھیں ،، بعض احادیث پر ھمارے اعتراضات اور ان کی کمزوری کے اعتراف نیز اس پر فریق مخالف کے فتؤوں نے ان کو یہ امید دلا دی ھوئی ھے کہ شاید کہ ھم منکرِ حدیث ھیں ،، لہذا وہ لومڑی کی طرح اونٹ کے پیچھے چل پڑے ھیں کہ اونٹ کا نچلا لٹکتا ھوا ھونٹ بس اب گرا کہ تب گرا اور وہ اس کا لنچ کریں گے ،،
علامہ پرویز صاحب کا موقف سب کو معلوم ھے کہ وہ اللہ اور رسول ﷺ سے مراد حکومت یا نظام ربوبیت لیتے ھیں جس کی وضاحت ھمارے دوست کے موقف سے ھو جائے گی ، شکیل بھائی وٹس ایپ پر لکھتے ھیں ،،
قرآن میں جہاں جہاں ”اللہ اور رسول” کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، اس پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ اصطلاح، حکومت کے انتظامی ڈھانچہ اور اس کے سربراہ کے لئے آئی ہے۔ بہت سے مقامات میں سے چند آیات نیچے دی جا رہی ہیں، جن سے معلوم ہو جائے گا کہ اللہ اور رسول سے مراد نظام خداوندی ہی ہے:
(١) جنگ احد میں تنہا رہ جانے کے بعد، محمد ۖ نے اپنی ذاتی حیثیت میں نہیں، بلکہ بحیثیّت سربراہِ مملکت کے لوگوں کو پکارا تھا، تو قرآن نے کہا
الذین استجابوا للہ والرسول من بعد مآ اصابھم القرح 3/172 ‘
‘جن اہل ایمان نے چوٹ کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا”۔
یہاں خدا نے سربراہِ مملکت کی آوازکو، ”اللہ اور رسول” کی آواز قرار دیا، یعنی قوانین الٰہی کے انتظامی ڈھانچے کے سربراہ کی آواز ”اللہ اور رسول” کی آواز تھی۔
(٢) مدینہ کے یہود نے محمد ۖ سے کئے گئے عہد کو توڑا، تو بظاہر تو یہ عہد شکنی محمد ۖ سے بحیثیت نظام کے سربراہ کے کی گئی، مگر اس مخالفت کو ”خدا اور رسول” سے مخالفت کہہ کر یوں کہا گیا کہ
ذٰلک بانھم شآقوا اللہ و رسولہ 59/4
”یہ دنیا و آخرت کا عذاب ان کے لیے، اس لئے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی”۔
یہ مخالفت براہ راست خدا کی یعنی نظام خداوندی کی مخالفت تھی، اس لئے قرآن نے اسے ”خدا اور رسول” کی مخالفت قرار دیا۔ نظام خداوندی انسانی دنیا میں خدا کے فرائض سر انجام دینے کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے، اس لئے انتظامی ڈھانچے کی مخالفت کو اللہ کی مخالفت سمجھا گیا، کیونکہ براہ راست تو خدا کی مخالفت کوئی نہیں کرسکتا ۔
(٣) جو لوگ اسلامی نظام کے خلاف بغاوت یا اس کے خلاف فتنہ و فساد برپا کرتے ہیں، ان کی اس حرکت کو قرآنی اصطلاح کے مطابق ”اللہ اور رسول” کے خلاف جنگ کہا گیا ہے۔ کہا
انما جزٰؤا الذین یحاربون اللہ و رسولہ و یسعون فی الارض فسادا 5/33
”ان لوگوں کی سزا، جو ”اللہ اور اس کے رسول” یعنی نظام خداوندی سے بغاوت کرتے اور ملک میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں”۔
اس آیت میں بھی اللہ اور رسول کے الفاظ نظام خداوندی اور اس کے سربراہ کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔
(٤) کہا: ان الذین یؤذون اللہ و رسولہ 33/57
”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں”۔
خدا کو اذیّت کون پہنچا سکتا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ ”اللہ اور رسول” ایک اصطلاح ہے، جس کے معنی نظام خداوندی بشمول اس کا سربراہ ہے۔
(٥)کہا : برآء ة من اللہ و رسولہ الی الذین عٰھدتم من المشرکین 9/1
”جن مشرکوں کے ساتھ تم نے صلح و امن کا معاہدہ کیا تھا ،اب ان کے لئے ”اللہ اور رسول” یعنی نظام خداوندی کی طرف سے اعلانِ برآت ہے”۔
اس آیت میں بھی ”اللہ اور رسول” ایک اصطلاح کے طور پر نظام خداوندی اور اس کے سربراہ کے لئے استعمال ہوئی ہے۔
(٦) کہا: و اذان من اللہ و رسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بریء من المشرکین و رسولہ 9/3 ”اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج کے دن عام منادی کی جاتی ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی”۔
اس آیت میں بھی ”اللہ اور رسول” ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہوئی ہے، جس میں اللہ سے مراد نظامِ خداوندی ہے اور رسول سے مراد نظامِ خداوندی کا سربراہ ہے۔
(٧)کہا: کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ و عند رسولہ 9/7
”یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مشرکوں کا عہد، اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک عہد ہو” ؟
یہاں بھی بطور اصطلاح یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی نظام خداوندی کے ساتھ مکہ کے مشرکوں کا عہد نہیں ہو سکتا۔
(٨) کہا: کتب اللہ لا غلبن انا و رسلی9/21
”اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرا رسول ہی غالب رہیںگے” ۔
ظاہر ہے کہ اس آیت میں غلبہ و تسلّط نظام خداوندی ہی کا مراد ہے ورنہ اللہ تو ہر جگہ غالب ہے، لہٰذا ”اللہ اور رسول” کے غلبہ سے مراد ہے نظامِ خداوندی کا غلبہ۔
(٩)کہا: قل الانفال للہ والرسول 8/1
”کہہ دو:اسلامی نظام کی آمدنی (الانفال)خدا اور رسول کے لئے ہے۔ یہاں بھی ”اللہ اور رسول” سے مراد نظام خداوندی ہے۔
(١٠)کہا: واعلموا انما غنمتم من شیئٍ فان للہ خمسہ و للرسول 8/41
”اور یاد رکھو! مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ اللہ اور رسول کے لئے الگ کرلو”۔
یہاں بھی پانچواں حصّہ نظام خداوندی کے اخراجات پورا کرنے کے لئے الگ کرنے کو کہا گیاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں جہاں قرآن کریم میں اللہ اور رسول کے الفاظ اسلامی نظام اور اس کے سربراہ کے لئے استعمال ہوئے ہیں، ان تمام جگہوں پرصیغہ تثنیہ کی بجاے صیغہ واحد استعمال کیا گیا ہے۔ حالانکہ عربی زبان میں دو کے لیے صیغہ الگ ہوتا ہے اور جمع کے لیے الگ ہوتا ہے، لیکن قرآن نے اللہ اور رسول کو ایک چیز کہا ہے، اس لئے اس کے لئے صیغہ واحد استعمال کیا ہے۔ جسے ہم نظام کہتے ہیں، حکومت کہتے ہیں اس میں تو سینکروں ہزاروں افراد اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن نظام کا ہمیشہ یونٹ ایک ہی ہوتاہے۔ قرآن کریم نے بھی اللہ اور رسول کے الفاظ استعمال کر کے جہاں جہاں ضمیر، اور فعل لانے کی ضرورت پڑی ہے، لائی ہے۔ تو عربی زبان میں جو فعل ہوتا ہے ، فاعل کے ماتحت، اس کے اوپر بھی اثر پڑتا ہے۔ ایک کے لئے اور انداز ہوتا ہے، دو کے لیے الگ انداز ہوتا ہے اور جمع کے لئے اور انداز ہوتا ہے۔ قرآن نے اللہ اور رسول کو ہمیشہ واحد کے صیغے میں بیان کیا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول کی دو الگ الگ اطاعتیں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک ہی اطاعت ہے۔ غلطی سے یا چالاکی سے لوگوں نے سمجھ یہ لیا کہ یہ دو الگ الگ اطاعتیں ہیں اور پھر کہہ دیا گیا کہ اللہ کی اطاعت بذریعہ قرآن، اور رسول کی اطاعت بذریعہ احادیث ہوگی۔ اسلام میں دو اطاعتیں ہوجانے کے بعد، توحید کہاں رہی؟
الجواب ،،،،
شکیل بھائی کے آخری سوال کا جواب سب سے پہلے دے لوں کیونکہ میرے نزدیک توحید سب سے اھم ایشیو ھے ،،
توحید کا مطلب اللہ کو بطور الہ ایک جاننا ھے ، رسول ﷺ کو بطورِ رسول ماننے سے توحید کو کوئی خلل واقع نہیں ھوتا ، توحید میں خلل تب واقع ھو گا جب ھم دنوں کو ملا کر ایک کر لیں گے جیسا کہ شکیل صاحب اور ان کے علامہ صاحب دونوں کو ایک قرار دے رھے ھیں اپنے تہیں وہ توحید بیان فرما رھے ھیں جبکہ اصلاً وہ شرک کر رھے ھیں اور ایک نظام کے تمام کل پرزوں کو جو کہ نظام چلانے کے لئے ضروری ھوتے ھیں تحصیلدار سے لے کر وزیرِ اعظم اور صدر تک سب کو ایک ھی اللہ اور رسول قرار دے کر وہ خود سب کو برابر اور شریک ٹھہرا رھے ھیں ، جبکہ اللہ بطور الہ اور محمد ﷺ بطور رسول ﷺ اپنی الگ الگ حیثیتوں میں موجود ھیں جس سے توحید کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ، کلمے میں بھی شہادتین کا مجموعہ ھے اللہ بطور الہ اور محمد ﷺ بطور رسول ﷺ گواھی دیئے جاتے ھیں ، اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسولﷺ ھیں ( الہ نہیں )
اب اگلا سوال یہ ھے کہ جن نبیوں اور رسولوں کے دور میں نظام تھا ھی نہیں ، ان کا اللہ اور رسول کون تھا ؟ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام نے کونسا نظام ربوبیت دیا تھا اور اس نظام کی عدم موجودگی میں وہ کونسا اللہ اور رسول تھا جس کی طرف وہ دعوت دے رھے تھے اگر اللہ اور رسول کی اصطلاح سے نظام ھی مقصود و مطلوب تھا ؟
نظام چاھے کتنا بھی ٹھیک ھو لوگ اس کے ساتھ تقدس کا رشتہ نہیں رکھتے ،، نبی کا کام داعی کا ھوتا ھے اور وہ لوگوں کی اللہ کی طرف بلاتا ھے ، وہ خدا نہیں ھوتا بلکہ خدا کا بھیجا ھوا ھوتا ھے پھر اس کی بات ماننا شرک کیسے ھو گیا ؟ بنی اسرائیل میں نبی یا رسول ھمیشہ ایک مقدس رتبے کے حامل ھوتے تھے ، نبی کسی کو وقتی طور پر بادشاہ بنا دیں تب بھی خود بادشاھی سے الگ ھی رھتے تھے حکومتی عہدہ نہیں لیتے تھے بلکہ راہبر کا مقام اختیار کرتے تھے جن سے بادشاہ بھی برکت اور اشیرواد لیا کرتے تھے ، حکومت اور حاکم کے ساتھ تقدس کا نہیں بلکہ اعتراض و تنقید کا رشتہ ھوتا ھے ،، جب بنی اسرائیل نے اپنے ایک نبیﷺ سے کہا کہ وہ ان کے لئے کسی کو بادشاہ مقرر کر دیں تا کہ وہ اس کے تابع جنگ کریں کیوں کہ داعی کا کام جنگ کرنا نہیں ھوتا جب تک کہ اللہ کسی قوم کو اس نبی کے ھاتھوں سزا دینے کا فیصلہ نہ کر لے ،، اس نبی نے ان کو خبردارکیا کہ دیکھو ابھی تو دعوت کا سلسلہ چل رھا ھے اور تم اللہ اللہ کر رھے ھو اور اللہ بھی خوش ھے تم بھی سکھی ھو ،، اگر بادشاہ مقرر ھو گیا تو قتال فرض ھو جائے گا اورتم لوگ پیٹھ پھیر جاؤ گے ،، انہوں نے کہا کہ ھم بالکل جنگ کریں گے کیونکہ ھمیں ھمارے وطن اور گھر بار سے نکال دیا گیا ھے ،، نبی نے اللہ پاک سے مناجات کی اور قوم کو بتایا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ھے لہذا اب تم اس کی معیت میں جنگ کرو ،، قوم نے بادشاہ بنتے ھی اس پر اعتراض ٹھونک دیا ،جبکہ نبی پر ان کو کوئی اعتراض نہیں تھا وھاں سراپا تقدس ھی تقدس اور اطاعت ھی اطاعت تھی ، جبکہ حکومت بنتے ھی بسم اللہ اعتراض سے شروع ھوئی ھے
انہوں نے کہا کہ یہ ھمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ھے جبکہ ھم بادشاہ بننے کے اس کی نسبت زیادہ حقدار ھیں اور پھر اس کے پاس تو پیسہ ٹکا بھی نہیں ،، چنانچہ اس بادشاہ کی صداقت کے لئے ایک صندوق کو بطور دلیل پیش کیا گیا کہ جس میں موسی اور ھارون علیہما السلام کے تبرکات تھے ،، گویا عوام کا سر تبرکات کے سامنے جھکایا گیا وہ بادشاہ پر متفق نہیں تھے ،،
أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (246) وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (247) وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ( البقرہ- 248)
بنی اسرائیل میں نبی کے بادشاہ یا حاکم بننے کو کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا اور ان کا تصور یہ ھے کہ نبی حاکم بن کر اپنے مقام سے نیچے آ جاتا ھے ،گر جاتا ھے ، نبوت اعلی ترین مقام ھے ،لہذا نہوں نے حضرت داؤد اور سلیمان کو نبیوں میں سے خارج کر کے ” Kings” میں شامل کر دیا اور ان پر اسی طرح اعتراضات کیئے اور سخت محاکمہ کیا جس طرح ھم نواز شریف اور رضا گیلانی پر کرتے ھیں ، قرآن نے آ کر بادشاہ نبیوں پر سے داغ دھو کر ان کو رسولوں میں شامل کیا ،،،
مدینہ عملی طور پر یہودی تھا اور مدینے والے بھی یہودی تھے جبکہ یہودی قبائیل صدیوں کے تعامل کی وجہ سے عرب مستعربہ بن چکے تھے ، جس طرح لوھے کو مقناطیس پر رگڑا جائے تو وہ بھی عارضی طور پر مقناطیس کی صفات پا لیتا ھے ،، چنانچہ نبئ کریم ﷺ کے مدینہ وارد ھونے کو مسلمان مدنیوں نے تو رسول کی آمد سمجھا جبکہ عبداللہ ابن ابئ اینڈ کمپنی نے آپ کو ایک حاکم کا درجہ دیا اور بس گوارا ھی کیا جس طرح ھم سیاسی حکومتوں کو گوارا کرتے ھیں مگر ساتھ ساتھ روز اعتراضات بھی کرتے ھیں ، عبداللہ ابن ابئ اور اس کے تین سو جنگجو ساتھی اور کئ دیگر خواتین و حضرات ھمیشہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی کرتے رھے ،زکوۃ بھی دیتے رھے مگر اسی طرح جس طرح ھم حکومت کو گالیاں بھی دیتے ھیں اور ٹیکس بھی کٹاتے رھتے ھیں ،، لا یاتوں الصلاۃ الا کسالی ولا ینفقون الا و ھم کارھون ،، یہ نہیں آتے نماز میں مگر سستی کے ساتھ مارے باندھے اور نہیں خرچ کرتے مگر کراھت کے ساتھ ، مجبور ھو کر ،،
ساری بحث کا مقصد یہ ھے کہ جس نے نبوت کو حکومت جانا اس نے اس سے کراھت کی اور اعتراضات بھی کیئے ،، پھر حاکم اللہ اور رسول کیسے بن سکتا ھے وہ تو خود تابع ھے اللہ اور رسولﷺ کے ،،
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا(59) ﴾
( سورة النساء )
اے ایمان والوں اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول ﷺ کی اور اپنے میں سے صاحب امر یعنی حاکم کی ،، پھر اگر تم میں اور حاکم میں تنازع پیدا ھو جائے تو اس تنازعے کو پیش کرو اور رسول ﷺ کے سامنے ” اور ان کے حکم کے مطابق تنازعے کا فیصلہ کو لو” اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ھو ،،
اس آیت میں ھر مسئلہ طے کر دیا گیا ھے کہ اللہ اور رسول الگ مقام رکھتے ھیں جبکہ نظم اور ںطام اور حاکم و حکومت ایک الگ Entity ھیں جن پر اعتراض بھی ھوسکتا ھے اور جن سے تنازع بھی ھو سکتا ھے ،جبکہ رسول ﷺ پر نہ اعتراض ھو سکتا ھے نہ ھی ان سے کوئی منازع ممکن ھے وھاں تو سلموا تسلیماً ھے کہ اس طرح سرنڈر کرو کہ سر تسلیم خم کرنے کا حق ادا ھو جائے ،،
اب اگر پرویز صاحب حاکم کو اللہ اور رسول قرار دیتے ھیں اور قرآن میں اللہ اور رسول کی اطاعت کو حکومت کا مرادف قرار دے کر اس کی اطاعت کا حکم انہیں خدائی اختیارات کے ستھ لگاتے ھیں تو پھر ” اقمیوا الصلاہ و آتوالزکوۃ و اطیعوا الرسول لعلکم ترحمون ( النور-56)
کا مطلب یہی نکلتا ھے جو پرویز صاحب نے نکالا کہ نماز اور زکوۃ تو حاکم کی صوابدید پر ھے جو جب چاھے کم و بیش کر لے ،، جب اللہ اور رسول سے مراد حاکم اور حکومت ھے اور نماز و زکوۃ میں اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ھے تو پھر میاں صاحب یا پرویز اشرف جب چاھئیں زکوۃ کا نصاب کم و بیش کر دیں نماز کے اوقات مین ڈیوٹی کے اوقات کے مطابق رد و بدل کر دیں اور اگر کسی نماز کا وقت حکومت کو اپنی کسی مصلحت کے خلاف نظر آ رھا ھے کہ ظھر کے وقت عین بزنس ٹائم ھوتا ھے تو حکومت اس نماز کو اللہ اور رسول کے اختیارات استعمال کرتے ھوئے معاف بھی کر سکتی ھے اور نمازوں کی تعداد چار یا دو بھی کر سکتی ھے ،جیسا کہ خود پرویزیوں میں نماز کے اوقات پر اختلاف ھے ، نیز ھر چند سال بعد اللہ اور رسول بدلتے رھیں اور ایک اللہ رسول کے قوانین اگلے پانچ سال بعد آنے والا اللہ رسول تبدیل کر دے جس طرح سردیوں اور گرمیوں میں گھڑیاں آگے پیچھے کرنے کا رواج نکلا تھا. ایوب خان کہ جس کو اللہ رسول سمجھ کر پرویز صاحب نے عائلی قوانین تبدیل کرائے تھے اور طلاق کو یونین کونسل کی رضامندی سے مشروط کیا تھا. لوگوں نے کتا کر کے فارغ کر دیا. بعد والے یحیٰ خان کو قید کر دیا اور اس کے بعد والے اللہ رسول کو پھانسی چڑھا دیا …
جو احباب علامہ پرویز صاحب کی فکر کو تفصیل سے پڑھنا چاھتے ھیں وہ پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد دین قاسمی صاحب کے پی ایچ ڈی مقالے کو پڑھیں جو دو جلدوں میں ” تفسیر مطالب الفرقان کا علمی وتحقیقی جائزہ” کے نام سے دستیاب ھے