غدیرِ خم کے مقام پر ایک مجلس کے واقعات کو ایک طبقہ اپنے مذھب کی بنیاد بناتا ھے،، باقاعدہ عیدِ غدیر کے نام پر جشن منایا جاتا ھے ! اس سیلاب میں عام مولوی حضرات بھی بہہ نکلے ،،اب جس طرف انجن جائے گا ،ڈبے بھی اسی طرف جائیں گے، 90٪ مساجد میں انجن غلط پٹڑی پر چڑھے اور کھڑے ھیں،، عوام کو دوش دینا بہت مشکل ھے کیونکہ وہ تو کالانعام ھیں !
غدیر خم میں حجۃ الوداع سے واپسی پر حضرت علیؓ کے خلاف ایک مقدمہ نبی کریمﷺ کی عدالت میں پیش کیا گیا،،یعنی غدیر خم میں خلافت نہیں بانٹی جا رھی تھی اور نہ فضائل کے تقابل کی کوئی مجلس تھی، بلکہ ایک مقدمے کی سماعت کی روداد ھے،جس میں الزام حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ھے ! واقعہ کچھ یوں ھے کہ حضرت علیؓ کو خمس لینے کو بھیجا گیا،خمس کی وصولی کے بعد حضرت علیؓ نے ایک لونڈی الگ کر لی اور اسے اپنا بنا لیا،،اس پر باقی ساتھیوں نے اعتراض کیا کہجب تک لونڈیوں کی تقسیم نبی کریمﷺ کی طرف سے نہ ھو جائے، اس لونڈی پر ھم سے ھر ایک برابر کا حق رکھتا ھے، اگر ھم میں سے ھر ایک اس کا دعویدار بن جائے تو آپس میں ھی قتال بھی ھو سکتا ھے ! خیر جب یہ لوگ حجتہ الوداع کے موقعے پر خمس جمع کرانے حضورﷺ کے سامنے حاضر ھوئے تو حضرت علیؓ والا واقعہ بیان کر کے شکایت کی کہ انہوں نے ناجائز تصرف کیا ھے ! حضرت بریدہ نے اقرار کیا کہ وہ اس حرکت کی وجہ سے علیؓ سے بغض رکھتے ھیں ! جس پر نبی کریمﷺ نے حضرت بریدہ سے فرمایا کہ تو اس سے بغض نہ رکھ کیونکہ خمس میں اس کا بھی حصہ تھا ! (بخاری) بس اتنا سارا واقعہ تھا جس میں حضرت علیؓ کی بشری کمزوری ثابت ھو رھی تھی، اور نبی کریمﷺ نے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش فرمائی !
اور صرف اتنا فرمایا کہ تم اس سے بغض مت رکھو کیونکہ مسلم سے بغض رکھنا جائز نہیں !
اس واقعے کے تین ماہ بعد جناب رسالت ماب ﷺ کا وصال ھوتا ھے اور مسلمان حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اتفاق رائے سے اپنا خلیفہ بنا لیتے ھیں !
اس واقعے نے ترمذی شریف مین کوئی اور ھی صورت اختیار کر لی !
پہلے تو کہا گیا کہ حضرت علیؓ کو ایک جنگی مشن پر بھیجا گیا جہاں سے مال غنیمت حاصل ھوا ! جو کہ غلط ھے، پھر کہا گیا کہ آپﷺ نے فرمایا علی مجھ سے ھے اور میں علی سے ھوں ،میرے بعد علی ھر مومن کا ولی ھے جس کا میں مولی ھوں اس کا علی مولی ھے،،، سے کہانی کی بنیاد اٹھا کر اسے خلافت کی تقسیم بنا دیا !
اور پھر یہ ڈھول سنیوں کے گلے مین ڈال دیا گیا،جسے ھم ھر جمعے میں منبر سے بجاتے اور عوام میں ایک جعلی دین پھیلاتے ھیں !
ترمذی یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھتے ھیں ” یہ حدیث غریب ھے ،،اسے جعفر کے سوا کوئی روایت نہیں کرتا ،، یہ جعفر بن سلیمان بنو حارث کا غلام تھا اور بنو ضبیعہ خاندان میں سکونت رکھتا تھا،، شیعہ ھونے کے باوجود اسے زاھد اور متقی سمجھا جاتا تھا ،بخاری کے علاوہ تمام محدثین نے اس سے روایتیں لی ھیں، امام احمد نے چونکہ شیعہ راویوں سے بہت سا مواد لیا ھے لہذا ان کے نزدیک شیعیت کو عیب نہیں تھا،وہ اسے ثقہ مانتے تھے،یحی ابن معین بھی ثقہ کہتے ھیں لیکن یحی بن القطان اسے ضعیف قرار دیتے ھیں،اور اس سے حدیث نہیں لیتے تھے، ابن سعید بھی ثقہ کے ساتھ ضعف کا حکم لگاتے ھیں اور کہتے ھیں شیعہ تھا،احمد بن المقدام کا بیان ھے کہ ھم یزید بن ذریع کی مجلس میں تھے انہوں نے فرمایا جو شخص جعفر بن سلیمان اور عبدالوارث سے حدیث لیتا ھے وہ میری مجلس میں نہ آیا کرے ،کیونکہ جعفر بن سلیمان رافضی ھے اور عبدالوارث معتزلی ھے،
سہل کہتے ھیں میں نے جعفر سے پوچھا تو ابوبکر و عمر کو گالیاں دیتا ھے؟ ،اس نے کہا گالیاں تو نہیں دیتا مگر بغض رکھتا ھوں ! ابن حبان نے کتاب الثقات مین یہ قول نقل کرنے کے بعد لکھا ھے یزید بن ھارون نے کہا کہ یہ جعفر گدھے کی طرح رافضی ھے !
امام یحی ابن معین کہتے ھیں میں نے عبدالرزاق ابن ھمان سے ایسی بات سنی جو اس کے رافضی ھونے کا ثبوت تھا ( یہ مصنف عبدالرزاق والے ھیں ) میں نے اس سے کہا کہ تیرے جتنے استاد تھے،معمر ،اوزاعی، سفیان ابن عیینہ سارے اھل سنت تھے،تیرے اندر راٖٖفضیت کہاں سے آ گئ؟ اس نے کہا ھمارے پاس جعفر بن سلیمان یمن آیا، میں نے اسے فاضل اور نیک پایا تو اس سے یہ مذھب پایا،،یعنی جعفر خود بھی رافضی تھا اور تقوے کا لباس اختیار کر کے دوسروں میں اسے پھیلا بھی رھا تھا،حتی کہ عبدالرزاق ابن ھمام جیسا محدث بھی اس سے محفوظ نہ رھا،،یہ تھا طریقہ واردات ان راویوں کا کہ یہ نوافل اور روزوں کا پھندہ ڈال کر اھل سنت محدثین کو شکار کیا کرتے تھے،، امام احمد کے نزدیک سلیمان شیعہ تھا اور حضرت علی کی شان میں حدیثیں بیان کیا کرتا تھا !