بعض احساس بھی بڑے ٹھوس ھوتے ھیں بس سافٹ ویئر ھونے کے باجود ھارڈ وئیر کی طرح چبھتے ھیں ، ھمارے یہاں ازدواجی عمل بھی کچھ عجیب سے مجرمانہ احساسات رکھتا ھے، عرض کیا تھا کہ مرفوع القلم عمر میں یہ ( شیطانیاں ) کہلاتا تھا جو عموماً بچے کرتے ھوتے تھے ، یہ بڑے ھو کر جائز ھو کر بھی شیطانیاں ھی کا کانسیپٹ رکھتا ھے ، بعض دیہاتی اس قدر احساس گناہ کا شکار ھوتے ھیں خاص طور پر عورتیں کہ اپنے شوھر کو لعنت ملامت کرتی رھتی ھیں کہ لوگ آپ کو کتنا نیک سمجھتے ھیں اور آپ کو اور کچھ سوجھتا ھی نہیں ، بلکہ بعض تو روزمرہ غلطیوں پر اس غلطی کو طنز کے طور پر استعمال کرتی ھیں کہ ” مجھے تو ابھی تک یہ سمجھ نہیں لگی کہ تمہیں یہ کس نے سکھا دیا ھے ! ” ورنہ زندگی میں کوئی کام تجھ سے سیدھا نہیں ھوتا ،، اس کا جواب یہی بنتا ھے کہ یہ ناشکری کا وبال ھے ،اللہ کے حکم کے مطابق لئن شکرتم لازیدنکم ” اگر تم شکر کرو تو ھم یقیناً زیادہ دیں گے ،، کے مصداق اگر اس سیدھے پہ شکر کی روش اختیار کی جائے تو ازدواجی زندگی کا ھر پہلو سیدھا ھوتا چلا جائے گا ،،،
ھمارے یہاں ایک خاتون صبح صبح پانی بھر کر لا رھی تھیں کہ رستے میں اسے ایک بچی ملی جو چائے کے لئے دودھ لینے جا رھی تھی ،، اس نے جو صبح صبح خالہ کو پانی کا گھڑا اٹھائے دیکھا تو طنزیہ پوچھا ” ماسی خیر ھووی ؟ ” ماسی نہایت اعتماد سے بولی کہ بچہ خیر ھی خیر ھے ،الحمد للہ جس دن کے حج کر کے آئے ھیں آپس میں بہن بھائی ھیں ،
وہ حج پر سارے گناھوں کے ساتھ ساتھ اس کبیرے گناہ سے بھی تائب ھو کر آئے تھے ،،
یہی کچھ تصور جنابت اور غسل جنابت کے بارے میں بھی پایا جاتا ھے ، یہود تو اس حال میں کسی ایسی چیز کو استعمال کرنے کے روادار نہ تھے جس کو عورت حالتِ جنابت میں چھو لے ،، ایام خاص میں عورت نہ تو مرد کے بستر کو چھو سکتی تھی اور نہ کپڑوں کو ، وہ ھمیشہ نیچے بوریا بچھا کر سوتی تھی اور اچھوت بن جاتی تھی ، اللہ کے رسول ﷺ نے ان تمام تصورات کو روند کر رکھ دیا ، آپ نے خود حالت جنابت میں سحری فرمائی اور پھر اذان کے بعد غسل کر کے نماز پڑھ لی گویا روزہ حالت جنابت میں رکھا ،، حضرت ابوھریرہؓ ھمیشہ فتوی دیا کرتے تھے کہ حالت جنابت میں جس کی صبح ھو گئ وہ اب روزے کی نیت نہیں کر سکتا ،، مروان نے دو آدمیوں کو حضرت ابوھریرہؓ کے پاس بھیجا جنہوں نے یہی فتوی دیا ، اس نے انہی دو اصحاب کو ام سلمہؓ کے پاس بھیجا اور یہی مسئلہ ان سے پوچھا ، انہوں نے فرمایا کہ نبئ کریم ﷺ حالت جنابت میں ھوتے سحری کر لیتے اور بعد میں غسل فرما لیا کرتے ،، مروان نے ان دونوں کو حضرت ابوھریرہؓ کے پاس واپس بھیجا اور کہا کہ ابوھریرہؓ کو ام المومنینؓ کا یہ فتوی سنا دو تا کہ وہ اپنے فتوے سے باز آ جائیں ،، وہ دونوں حضرت ابوھریرہؓ کے پاس گئے اور کہا کہ ام المومنینؓ کا فتوی آپ کے فتوے کے خلاف ھے اور وہ جنابت کے معاملے میں آپ سے زیادہ درک رکھتی ھیں ،، اس پر حضرت ابوھریرہؓ بس اتنا کہہ کر خاموش ھو گئے کہ مجھے بتانے والے نے تو ایسے ھی بتایا تھا ،مگر انہوں نے خبر دینے والے کا نام نہیں بتایا ، یہی فتوی دیگر امھات المومنین کا بھی تھا ،،
ھمارے یہاں تو یہ جنابت اتنی بدنام ھے کہ کہا جاتا ھے کہ چارپائی کی پائنتی کی ” داون” ایجاد ھی اسی لئے کی گئ ھے کہ عورت زمین پر پاؤں رکھنے سے پہلے اس پر بیٹھ کر نہا لے تب زمین پر پاؤں رکھے ، مگر بہرحال یہ اتنی بری نہیں ھے اور نہ ھی زمین جنبی کے بوجھ سے فریاد کرتی ھے ،،
وضو کا پانی پاک ھوتا ھے مگر پاک کرتا نہیں ھے ،، یعنی طاھر ھوتا ھے مطھر نہیں ھوتا ، وضو میں ایک دفعہ استعمال شدہ پانی اگر کپڑوں کو لگ جائے یا کسی کپڑے یا بستر پر گر جائے تو وہ ناپاک نہیں ھوتا ، بس وضو کے استعمال شدہ پانی سے کوئی دوبارہ وضو کرے تو وہ وضو نہیں ھوتا ،،
مگر لوگ غسل کے پانی کو نجس سمجھتے تھے جبکہ غسل کا پانی بھی اگر کپڑوں پر گر جائے یا نہانے والے پانی میں اس کا کچھ حصہ گرتا جائے تو وہ پانی نجس نہیں ھو جاتا ، امہات المومنین کے مطابق نبئ کریم ﷺ جس وقت غسل کرتے تو بعض دفعہ ام المومنینؓ بھی ساتھ ھی غسل کرتیں ، نہ صرف ٹب ایک ھوتا بلکہ مگ نما وہ برتن جس سے پانی لے کر اوپر ڈالا جاتا ھے وہ بھی ایک ھی ھوتا ،ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ اس سے پانی اوپر ڈالتے تو دوسری دفعہ ام المومنینؓ اور اس دوران ان کے ھاتھ بھی آپس میں چھوتے رھتے( آپس میں ھاتھوں کے ٹکرانے کی صراحت سے واضح ھوتا ھے کہ عورت کو چھو جانے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے فتوے کی کوئی اصل نہیں ) اورنہانے کے دوران پانی کے قطرے بھی دوبارہ اس کھلے برتن میں گرتے رھتے جو ان کے درمیان پڑا ھوتا ،، ایک برتن جس میں تین صاع یعنی 6 لیٹر پانی ھوتا ، اس سے دونوں غسل فرما لیتے ،حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ رسول اللہ ﷺ جلدی جلدی پانی لیتے جس پر میں کہتی کہ میرے لئے بھی کچھ چھوڑ دیں ،،
غسلِ جنابت سے متعلق دیہات کے بدو بھی ھماری دیہاتی لوگوں کا سا تصور رکھتے تھے جو ان کو یہود سے ورثے میں ملا تھا ،کیونکہ مذھب اور شرعی و فقہی احکام میں اھل مدینہ یہود کے پیرو کار تھے اور یہودی فقہ ھی ان کی روزہ مرہ زندگی کا ریفرینس تھی ، ان تصورات کو ڈیلیٹ کرنے کے لئے نبئ کریم ﷺ کی عائلی زندگی کو کھول کھول کر بیان کرنا ضروری تھا تا کہ لوگوں کی زندگیوں میں سے یہودیت کو کھرچ کر اسلامی شریعت و فقہ کو آویزاں کیا جائے ، ھماری آدھی زندگی میں ھندو رسوم رائج ھیں جن میں عدت کی کیفیت بھی شامل ھے کہ عورت کو بالکل مار کر رکھ دیا جاتا ھے ، اسی طرح نفاس کا معاملہ بھی ھے
سوال یہ تھا کہ غسل جنابت کتنے پانی سے ھو سکتا ھے ، کیونکہ جنابت جیسی منحوس حالت کو دور کرنے کے لئے تو خوب مل مل کر اور ناف اور بغلیں مانج مانج کر دھونا پڑے گا ،وغیرہ وغیرہ ،، اصحابِ رسول ﷺ مسئلہ بیان کر دیتے کہ رسول اللہ ﷺ ایک صاع سے غسل کر لیتے تھے مگر سائل مطمئن نہیں ھوتے تھے وہ باقاعدہ اعتراض کر دیتے ، ایک صاحب کہتے ھیں کہ مجھے تو ایک صاع کافی نہیں ،، حضرت جابر بن عبداللہؓ نے فرمایا کہ ان کو کافی ھو جاتا تھا جو تجھ سے افضل تھے ( رسول اللہﷺ ) تو تم کو کیوں کافی نہیں ھے ؟ میرے بال گھنے ھیں ،، رسول اللہ ﷺ کے بال تجھ سے گھنے بھی تھے اور گھنگھریالے بھی تھے پھر بھی ان کو صاع کافی تھا ،، صاع دو لیٹر پانی کا ھوتا تھا ، یعنی ایک منرل واٹر کی بوتل میں ڈیڑھ لیٹر پانی ھوتا ھے ، اس میں مزید آدھ لیٹر پانی ملا لیجئے ،،
یقین کریں ھمارے سلفی بھائیوں کی داڑھی اس سے نہیں دھلتی ، غسل کیا ھو گا ،، ٹونٹی کے نیچے رکھ کر تو داڑھی دھوتے ھیں ،، مگر نبئ کریم ﷺ دولیٹر پانی سے غسلِ جنابت کر لیا کرتے تھے ،، اگر فقہاء کی شرطوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ غسل ممکن ھی نہیں ، اس لئے کہ فقہاء نے دجلہ و فرات سامنے رکھ کر غسل کی شرائط طے کی ھیں ،، جبکہ لوگ مدینے میں پینے کا پانی بھی خرید کر پیتے تھے ، یہ تو بھلا ھو حضرت عثمان غنیؓ کا جنہوں نے وہ کنواں ھی یہودی سے خرید کر وقف کر دیا ،، اور پھر اسی کنوئیں کا پانی آپؓ پر بند کر دیا گیا اور آپ افطاری سے عین پہلے پیاسے شھید کر دیئے گئے ،،
جب اصحابِ رسولﷺ کے فتوؤں پر اعتراض اٹھنا شروع ھوئے کہ ایک صاع میں بھلا غسل کیسے ھو سکتا ھے اور پھر غسل بھی جنابت کا ،، فیصلہ یہ ھوا کہ اس معاملے میں ازواج النبیﷺ سے حتمی بات کی جائے کیونکہ لوگ اپنی نمازوں کے بارے میں ھی مشکوک ھونے لگے تھے ،جب غسل پر ھی شک ھو تو ظاھر پھر ھر چیز مشکوک ھوتی چلی جاتی ھے ، اس کے لئے دو بچے چنے گئے ایک دس سال کا جبکہ دوسرا 12 سال کا دونوں حضرت عائشہؓ کے محرم تھے ، ایک بھائی رضاعی بھائی اور دوسرا بھانجا ،، انہوں نے یہی سوال پوچھا کہ لوگ پوچھ رھے ھیں کہ غسل جنابت کتنے پانی اور کتنی دیر میں ھو جاتا ھے ،، حالانکہ ان دونوں کو نہ جنابت کا پتہ تھا نہ غسل جنابت کا ، لہذا ان کو عملی طور پر بتانا تھا کہ غسل جنابت کا عملی طریقہ کیا ھے تا کہ ان کو یاد رھے اور وہ جا کر بالغوں کو سمجھا سکیں ،، ھر استاد کا سکھانے کا اپنا طریقہ ھوتا ھے ،،
حضرت عائشہؓ نے پہلے تو ان میں سے ھی ایک کو صاع میں پانی لانے کے لئے کہا ،صاع ھمارے یہاں پھوٹوار میں ” چَوَاہ ” کہلاتا ھے جو گندم ماپنے کے کام آنے والا لوھے کی پتری سے تیار کردہ بڑا برتن ھوتا ھے ، پانی منگوانے کے بعد آپ نے ایک چارپائی کھڑی کر لی اور اس پہ کپڑا ڈالا ، اس کے بعد ان بچوں سے ھی ایک ایک مرحلے کا سوال کرتی گئیں تا کہ پتہ چلے کہ بھلا ان کو وضو کا طریقہ آتا ھے ،، حضرت عائشہؓ کی عمر اس وقت 55 سال تھی ، ان سے سامنے ان کے محرم مگر دس اور بارہ سال کے بچے تھے ،جن کو غسل کی تفصیل حفظ کرا کر بھیجنی تھی تا کہ یہ بحث ختم ھو ، اگر الفاظ سے یہ بحث ختم ھو سکتی تو جید صحابہؓ کے فتوؤں سے ھی ختم ھو جاتی جن میں جابر بن عبداللہؓ ،عبداللہ بن عمرؓ اور عبداللہ ابن عباسؓ جیسے فقہاء صحابہ بھی فتوے دے چکے تھے کہ ایک صاع غسل کے لئے کافی ھے ،، اب الفاظ نہیں پریکٹیکل سے ھی سمجھایا جا سکتا تھا کہ غسلِ جنابت کیا چیز ھے ،،( جنابت میں ناپاکی کا حکم لگایا گیا ھے یعنی یہ حکمی نجس ھوتا ھے نا کہ حقیقی نجس جیسے پیشاب وغیرہ ، حالت جنابت میں مرد و زن کا تھوک پاک ھوتا ھے برتن کو لگ جائے یا پانی پینے سے پانی میں شامل ھو جائے تو پانی ناپاک نہیں ھوتا اور نہ برتن ناپاک ھوتا ھے ، اس حکم کو عقل پر مسلط کیا گیا ھے ،کہ عقل کو شریعت کے تابع کیا جائے، عقل اس نجاست کو لیبارٹری میں ثابت نہیں کر سکتی اللہ کا حکم ھی اس کو نجس ثابت کرتا ھے ، اسی لئے حالت جنابت کو ” سر پلید ھونا ” کہتے ھیں ،یعنی ایک عورت دوسری عورت کو کہتی ھے کہ میرا سر پلیت ھے ،، سر کو اچھی طرح دھو کر بدن پر سے غسل کی نیت سے پانی بہا دیا جائے تو پورا بدن پاک ھو جاتا ھے ، اس کو حکم ھی پاک کرتا ھے اور حکم ھی ناپاک کرتا ھے )
اس کی مزید وضاحت مسلم شریف کی ان روایتوں میں بھی ھوتی ھے ،، جبریر ابن مطعمؓ کہتے ھیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس غسل کے بارے میں جھگڑا ھوا بعض لوگوں نے کہا کہ ھم تو سر کو یوں اور یوں دھوتے ھیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تو سر پر بس تین چلو ڈالتا ھوں ،،( مسلم )
جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ھیں کہ بنو ثقیف کا وفد آیا جن کے علاقے میں خوب سردی پڑتی تھی انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ھمارے علاقے میں بہت سردی پڑتی ھے ھم غسل کس طریقے سے کریں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تو اپنے سر پر تین بار پانی بہا دیتا ھوں ( مسلم )
ام سلمہؓ روایت کرتی ھیں کہ میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں سر پہ چوٹی باندھتی ھوں ، غسل میں اس کو کھولا کروں یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مت کھولو ، بس تین چلو پانی سر پر بہا دیا کرو یہ کافی ھے پھر بدن پر پانی بہا دیا کرو ( مسلم )
آپ نے کپڑوں سمیت وضو شروع کیا اور بچوں سے پوچھا کہ وضو میں سب سے پہلے کیا کرتے ھیں ؟ ایک نے جواب دیا کہ استنجا ،، آپ ؓ نے فرمایا نہیں استنجا نہیں بلکہ پہلے ایک دایاں ھاتھ دھوتے ھیں پھر اس ھاتھ سے پانی ڈالتے ھیں اور بائیں ھاتھ سے مل کر گند وغیرہ دھو دیتے ھیں ، پھر وضو کرتے ھیں جیسا کہ نماز کا وضو کرتے ھیں ،،حضرت عائشہ ساتھ ساتھ رننگ کمنٹری کرتی جا رھی ھیں تا کہ بچوں کو پتہ چلے کہ وضو کن مراحل سے گزر رھا ھے ، کلی کا ذکر کیا ، ناک میں پانی لینے کا ذکر کیا ، منہ اور ھاتھ کہنیوں تک دھونے کا ذکر کیا اور سر کا مسح اور پاؤں چھوڑ دیئے ،، اس سے آگے غسل کے مراحل ھیں
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اپنی انگلیاں پانی میں ڈبوتے پھر ان سے اپنے بالوں کی جڑوں میں مالش کرتے تا کہ سارے سر کی جلد گیلی ھو جائے ، آپ تین مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد تین چلو بھر کر سر پر ڈالتے تا کہ وہ سر پر سے بہہ جائیں اور سر دھونے کی مد میں داخل ھو جائے ، اس کے بعد باقی پانی بدن کی جلد پر گرا دیتے اور پاؤں ٹیڑھے کر کے ان پر بھی پانی ڈال دیتے ،،، حضرت عائشہؓ نے تین چلو پانی سر پر ڈالا اور باقی پانی دائیں اور بائیں کندھے پر سے بدن پر گرا دیا ،،
یہ پانی کہاں کہاں سے گزرا اور کون کون سی جگہ خالی چھوڑ گیا اس سے ھمارا کوئی سروکار نہیں ، اب ذرا اپنے فقہاء کی شرائط کو دیکھئے ، بغلیں بھی برتن کی طرح مانجئے ، اورفوارے سے دھنی شریف میں بھی اسپرے کیجئے ایک بال برابر جگہ بھی ایسی نہ بچے جہاں سے پانی نہ گزرے ،، اور پھر ایک صاع سے غسل کر کے دکھائیے ،، یہی مغالطہ اس وقت بھی لوگوں کو تھا کہ یہ سارے کام ایک صاع میں کیسے ھو سکتے ھیں اور یہ مغالطہ آج بھی پیدا ھو سکتا ھے اگر فقہاء کی شروط کے ساتھ نہایا جائے تو پھر پوری بالٹی یعنی کم از کم دس لیٹر پانی چاھئے ،،
اس حدیث کا آخری حصہ قابلِ اعتراض ھے کہ نبئ کریم ﷺ کی ازواج بال کترا کر کانوں تک رکھتی تھیں ، بقول قاضی عیاض یہ تو کسی نے بھی نہیں سنا نہ دیکھا ، رسول اللہ ﷺ کے زمانے تک تو ازواج کے بال پورے تھے ،، بیان کرنے والے دو بچے ھیں ،، راویوں کی لڑی میں کسی راوی سے بات کو سمجھنے میں غلطی ھوئی ھے یا بعد میں کتابت کی غلطی ھے ،، یاخذن کی جگہ یحملن ھے کہ ازواج النبی ﷺ اپنے بال اٹھا لیا کرتی تھیں جوڑا بنا لیا کرتی تھیں اور سر کی جلد کو انگلیوں سے گیلا کر کے پانی سر پر ڈال دیتی تھیں یوں بال سوکھے رھتے تھے اور عورت کو اذیت نہیں دیتے تھے ،،
غسل جنابت میں عورت کو اجازت دی گئ ھے کہ وہ بالوں کا جُوڑا بنا کر انہیں گیلا ھونے سے بچا لے ، کیونکہ بال گیلے ھونے کے بعد سردیوں میں اس کے کمر کے پٹھوں کے لئے مرض کا باعث بن جاتے ھیں اور گرمیوں میں گیلے بال سونے میں حارج ھوتے ھیں بدن کے نیچے آ جائیں تو بھی کپڑے گیلے ھو جاتے ھیں جو مرض کا باعث بنتے ھیں ،پھر گیلے بال ساتھ لگنے سے نیند بھی اچٹ جاتی ھے ،، البتہ غسل حیض میں بال کھول کر نہانے کا حکم ھے ، حضرت عائشہؓ کو جب پتہ چلا کہ ابن عمرؓ عورتوں کو بال کھول کر نہانے کا کہتے ھیں تو انہوں نے فرمایا کہ ابن عمرؓ عورتوں کو ٹنڈ کرا لینے کا حکم کیوں نہیں کرتے ، الغرض حدیث میں ذکر بالوں کو اٹھا کر جُوڑا بنا لینے کا ذکر ھے جس سے بال کاندھے تک اور کانوں کے بار آ جاتے ھیں ،، اور ازواج النبی ﷺ ایسا ھی کرتی تھیں کیونکہ صراحت کے ساتھ مروی ھے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں جُوڑا بنانے کا حکم دیا تھا ،، البتہ ازواج مطھراتؓ سے بال کٹا کر کانوں تک کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ،، نہ ھی کسی خاتون صحابیہ نے اس کا ذکر کیا ،،اور نہ ھی اس کو رواج یا سنت بنایا گیا ،،
ھمیں اپنے زمانے کا اچھی طرح پتہ ھے جب دیہات میں غسل خانے نہیں ھوتے تھے تو دادی اماں چارپائیاں کھڑی کر کے ان پر چادر ڈال کر عارضی حمام بنا لیتی تھیں ،بعض دفعہ ھمیں آواز دے کر صابن بھی مانگ لیا کرتی تھیں ،، اور بعض دفعہ جو طرف خالی ھوتی اس طرف ھم ایک چادر لے کر کھڑے ھو جاتے جبکہ ھماری پشت دادی جان کی طرف ھوتی ،، فتح مکہ کی روایت میں لکھا ھے کہ حضرت نبئ کریم ﷺ غسل فرما رھے تھے اور حضرت فاطمہ آپ ﷺ کی طرف پشت کیئے ھوئے ایک چادر سے آپ کو پردہ کرا رھی تھیں کہ اس حال میں ام ھانی اپنے بیٹے کے لئے پناہ مانگنے داخل ھوئیں ، آپ نے اسی حال میں فرمایا کہ ام ھانی جس کو تم نے پناہ دی اس کو ھم نے بھی پناہ دی ،،
(( الحديث المشهور من دخول أم هانئ بنت أبي طالب –رضي الله عنها- على النبي –صلى الله عليه وسلم- وهو يغتسل وفاطمة بنته –رضي الله عنها- تستره بثوب صحيح البخاري (280)، صحيح مسلم (336). ))
کسی محرم کی موجودگی میں پردے کے پیچھے غسل میں کوئی حرج نہیں