فتنہ مہدیت،گزشتہ سے پیوستہ


امام مہدی دو ھیں،، ایک اھل سنت کا جو ابھی پیدا ھی نہیں ھوا ،، جبکہ دوسرا شیعہ حضرات کا جو تقریباً ساڑھے بارہ سو سال پہلے پیدا ھو کر 6 سال کی عمر میں بغیر پاجامے کے صرف ایک کرتے میں وہ قرآن ساتھ لے کر جو حضرت علیؓ پر نازل ھوا تھا اور ان کے نزدیک اصلی تے وڈا قرآن وھی ھے،، ایک غار میں تشریف لے گئے تھے ،، اب عیسی علیہ السلام سے پہلے انہیں نکل کر بالغ ھونا پڑے گا کیونکہ عیسی علیہ السلام نے اس کے پیچھے نماز پڑھ کر اس کو نبیوں سے بلند رتبہ دینا ھے ! امام مہدی کے خروج کے بعد اس کی ملکیت پر جو گھمسان کی جنگ شیعہ اور سنی فوجوں کے درمیان ھو گی اس کے بارے میں سوچ کر ھی کپکپی طاری ھو جاتی ھے،، اس کا ایک ادنا سا نقشہ میں اپنے اگلے مضمون ” امام مہدی اور میری دادی ” میں سمجھانے کی کوشش کروں گا،، کیونکہ یہ جنگ ھمارے گھر میں ھو چکی ھے،، خیر سنیوں نے جو دوسروں کا بچہ پال کر اپنا نام لگا رکھا ھے، اس دن انہیں پتہ چلے گا کہ جعل سازی کا عملی نتیجہ کتنا تباہ کن ھو گا،، سنی اور شیعہ فوجوں کی آپس کی گھمسان کی جنگ جو ایٹمی جنگ کا روپ بھی دھار سکتی ھے،کیونکہ شیعہ اور سنی دو ممالک ایٹمی ھتھیار بنا چکے ھیں،، شیعہ ملک تو بے سوچے سمجھے ایٹم بم استعمال کر لے گا،مگر جوابی حملے کے لئے سنی ملک کی فوج میں موجود شیعہ عنصر عین وقت پر اعلی کمان کا حکم ماننے سے انکار کر دے گا، اسی امکان کو مدِ نظر رکھتے ھوئے،ایک انتہائ اھم اور مقدس ملک اس کوشش میں ھے کہ احتیاطاً کوئی دو چار گولے ان کے پاس محفوظ کر دیئے جائیں کیونکہ وھاں شیعہ کنٹرول نہیں ھے،، امام مہدی کی ملکیت پر دونوں فرقوں کی جنگ اس قدر تباہ کن ھو گی کہ حضرت دجال کو بھی گدھے کے سوا اور کوئی ذریعہ نقل و حرکت دستیاب نہیں ھو گا – اور وہ ان دونوں کی آپس کی خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ھوئے مکہ تک جا پہنچے گا،، اللہ پاک کو مداخلت کر کے اسے روکنا پڑےگا،، دجال کو مکے اور مدینے کے درمیان چھوڑتے ھوئے ھم پہلے امام مہدی پر بات کر لیتے ھیں کیونکہ اس وقت وھی برننگ ایشیو ھے !

شیعوں کا امام مہدی ھم زیرِ بحث نہیں لاتے،، ھم اس امام مہدی کا جائزہ لیں گے جو ھمارے گھر میں پایا جاتا ھے !

ظہورِ مہدی سے متعلق روایات مختلف اقسام پر مبنی ھیں !
1- بعض میں قربِ قیامت کی نشانیاں بیان کی گئی ھیں مگر ان روایات میں مہدی کا کوئی تذکرہ نہیں،مثلاً یہودیوں اور رومیوں کے درمیان جنگ ظہورِ دجال اور نزول عیسی علیہ السلام،، ان میں سے بہت سارے واقعات بخاری و مسلم میں پائے جاتے ھیں مگر ان میں امام مہدی کا کوئی ذکر نہیں ،،اسی طرح ایک عادل خلیفہ کا ذکر موجود ھے،مگر اس کا نام محمد ھو گا اور وہ ھی مہدی ھو گا ،،اس کا کوئی تذکرہ نہیں،،یہ روایات مسلم میں پائی جاتی ھیں،، مگر جب ان واقعات کے درمیان موجود خلا کو نچلے درجے کی کتابوں سے ” فِل اِن دا بلیکنس ” کے لئے استعمال کیا جاتا ھے تو شیعہ تصورِ مہدی کو اھلِ سنت کا مہدی بنا کر پوز کیا جاتا ھے،، یہ ھے اصل مکاری یا بھولپن ! اگر تو بخاری و مسلم تک رھا جائے تو جو بھی اس وقت مسلم فوج کی قیادت کر رھا ھو گا چاھے اس کا نام اور قوم قبیلہ کچھ بھی ھو،،وہ ھدایت یافتہ شخص ھو گا،، اس امت کے پہلے مہدی ابوبکر صدیقؓ تھے،،دوسرے مہدی عمر الفاروقؓ تھے،تیسرے عثمان غنیؓ شہید مظلوم تھے، چوتھے علی المرتضیؓ تھے،، جنہوں نے لسانِ نبوت سے مہدی کا لقب پایا ” علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین المہدیین من بعدی، عضوا علیہا بالنواجذ،،
ھم اس مہدی کے بارے میں نچلے درجے کی کتابوں میں مذکور احادیث کا محاکمہ کریں گے جنہیں بخاری اور مسلم کی روایات کو زھریلا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ھے جو کسی مہدی کے ذکر سے پاک ھیں !
2- وہ روایات جن میں امام مہدی کا بھی ذکر ھے اور یہ بھی کہ وہ اھل بیت میں سے ھونگے،،ھمارا موضوعِ گفتگو وھی روایات ھیں !
اگر امام مہدی ھمارے عقیدے کا جزو ھیں تو یہ اصولی بات مد نظر رھے کہ عقیدے کی بنیاد کوئی ضعیف حدیث تو ھر گز نہیں ھو سکتی،جب کہ صحیح حدیث بھی جب تک درجہ تواتر کو نہ پہنچے کسی عقیدے کی بنیاد نہیں بنائی جا سکتی،، کیونکہ حدیث ظنی چیز ھے،،راوی کی ثقاھت اور عدم ثقاھت بھی ھر شخص کے اپنے گمان اور تجربے کی چیز ھے،، آج کی سیاسی اور مذھبی قیادت کو سامنے رکھ کر سمجھ لیں کہ اگر کوئی محدث جمعیت اسلام کے رکن سے مولانا فضل الرحمٰن کی ثقاھت کے بارے میں پوچھے تو وہ کیا جواب دے گا،،اور اگر تحریک انصاف کے کسی بندے سے پوچھے تو کیا جواب ھو گا؟؟ یہی واردات ھمارے محدثین کے ساتھ اس سے زیادہ پولرائزیشن کے ادوار میں ھوئی ھے،،ایک کے نزدیک وہ راوی ثقہ ھے تو دوسرا کہتا ھے کہ میں طواف کے دوران اس کے پاس سے گزرا تو اس طرح گزر گیا جیسے کتے کے پاس سے گزرتے ھیں،، ایک کہتا ھے کہ اس سے حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں ھے تو دوسرا کہتا ھے کہ میں اس سے حدیث روایت کرنے کی بنسبت زنا کرنا آسان گناہ سمجھتا ھوں ! عقیدے کی بنیاد اللہ کی کتاب ھی ھو سکتی ھے جس نے خود نبی کریمﷺ کا عقیدہ بھی بنایا،، فرمایا ” ما کنتَ تدری ما الکتاب ولا الایمانُ ولکن جعلناہ نوراً نھدی بہ من نشاءُ من عبادنا،، آپ نہیں جانتے ھوتے تھے کہ کتاب کیا ھے اور ایمان کیا ھے،لیکن ھم نے اسے( وحی کو ) وہ نور بنایا جس کے ذریعے ھم اپنے بندوں مین سے جسے چاھتے ھیں ھدایت دیتے ھیں،،و انک لتہدی الی صراطٍ مستقیم،، اور ( اسی کی بدولت ) آپ سیدھی راہ دکھاتے ھیں( سورہ شوری 52 )