نازیہ مصطفے
تولی خان کا یہ بیٹا نہایت اکھڑ، جوشیلا، لڑاکا، بدتمیز اور کسی کی ایک نہ سننے والا تھا، لیکن تولی خان کا بہت لاڈلا تھا، جو کھیلن کو چاند مانگتا تو تولی اپنے لاڈلے کو چاند دلوانے کیلئے ہزاروں لاشیں بچھا سکتا تھا اور یہ لاڈلا بھی اپنے باپ کی محبت میں لاکھوں لاشوں کے مینار کھڑے کر سکتا تھا۔
تولی خان کی موت کے بعد اپنے حصے کے مفتوحہ علاقے پر اب اِس لاڈلے کا نو دُموں والا پرچم لہرانے لگا تھا، اس کے باوجود اسلامی دنیا کا مرکز ابھی اُس کی دسترس میں نہیں آیا تھا۔ آٹھ سو سال پہلے جنم لینے والے اِس لاڈلے نے اسلامی دنیا کے قلب کو فتح کرنے کے لیے 1257ءمیں اسلامی دارالخلافہ کا محاصرہ کرلیا۔ حالانکہ دارلخلافہ اُس وقت شیعہ سنی فساد کا گڑھ بنا ہوا تھا ، لیکن اس کے باوجود لاڈلے کا یہ محاصرہ طول پکڑ گیا، سنیوں کو خلیفہ جب کہ شیعوں کو وزیراعظم ابن علقمی کی حمایت حاصل تھی۔ سنی اور شیعہ اس لڑائی میں اتنے اندھے ہوچکے تھے کہ ابن علقمی نے ”لاڈلے“ کو دارالخلافہ پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کرلیا۔ اگلے برس 1258ءمیں لاڈلے کی فوج دارالخلافہ میں گھس گئی۔ ”دی نیو یارکرز“ کے ایان فریزر کا کہنا ہے کہ لاڈلے کی فوج دارلخلافہ میں گھسی تو فوجیوں نے وحشت اور بربریت کی نئی داستان رقم کی، جو چیز ان کے سامنے آئی، اسے جلا کر تباہ کر دیا گیا۔ فوج نے غریب امیر، مرد عورت، بچے بوڑھے اور بیمار تندرست کا خیال رکھے بغیر جو سامنے آیا اسے قتل کر دیا۔
فریزر کے مطابق لاڈلے کی اس فوج کے ہاتھوں صرف دارالخلافہ میں موت کے گھاٹ اترنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے دس لاکھ کے درمیان تھی۔ اتنے زیادہ انسانوں کو قتل کیا گیا کہ نہروں، کنووں اور دریاو¿ں کے پانی کا رنگ سرخ پڑ گیا۔فوج نے جگہ جگہ لوٹ مارکی، مساجد، محلات، لائبریریوں اور اسپتالوں کو تباہ کر ڈالا۔ شاہی عمارات کو جلا دیا گیا اور خلیفہ کو گرفتار کر کے اسے اپنے شہریوں کا قتل عام اور اپنے خزانے کی لوٹ مار دیکھنے پر مجبور کردیاگیا، جس کے بعد خلیفہ کو ایک قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں کے نیچے کچل دیا گیا۔یہ خلیفہ کوئی اور نہیں بلکہ بغداد میں عباسیوں کا آخری خلیفہ معتصم باللہ تھا اور اس کے شہر بغداد کو تاراج کرنے والا یہ لاڈلا کوئی اور نہیں بلکہ اسلامی دنیا پر قہر بن کر ٹوٹنے والے چنگیز خان کا پوتا ہلاکو خان تھا ۔بغداد کا رخ کرنے سے قبل ہلاکو خان نے اسماعیلیوں کے مرکز قلعہ الموت پر قبضہ کرکے اسماعیلی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ اور ان کے آخری بادشاہ خور شاہ کو قتل کردیا۔بغداد تباہ کرنے کے بعد ہلاکو خان نے پورے عراق پر قبضہ کرلیا اور بصرہ اور کوفہ کے عظیم شہر تباہ و برباد کردیئے۔ جس کے بعد منگول فوجوں نے جزیرہ کے راستے شام پر حملہ کیا۔
منگول فوجیں نصیبین، رہا اور حران کے شہروں کو تباہ کرتے ہوئی حلب پہنچ گئیں جہاں 50 ہزار مرد قتل عام میں مارے گئے اور ہزاروں عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا۔ منگول فوجیں اسی طرح قتل و غارت کرتی اور بربادی پھیلاتی ہوئی فلسطین پہنچ گئیں لیکن یہاں ناصرہ کے جنوب میں عین جالوت کے مقام پر 1260ءکو ایک خونریز جنگ میں مصر کے مملوکوں نے ان کو شکست دے کر پورے شام سے نکال دیا اور اس طرح مصر منگولوں کے ہاتھوں تباہی سے بچ گیا۔ اُدھر منگو خان کے بعد قراقرم کی حکومت کا اقتدار کمزور پڑا تو ہلاکو خان نے ایران میں بھی اپنی مستقل حکومت قائم کرلی جو ایل خانی حکومت کہلاتی تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان اسلامی دنیا پر قہر بن کر ٹوٹے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے خوشحال اسلامی دنیا کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ تہذیب و تمدن کے شہر بے مثال اجاڑ دیے گئے،سائنس و علوم کی درس گاہوں کو مٹا کر رکھ دیا گیا اور انسانی ترقی کو ایک بار پھر تنزلی کے راستے پر ڈال دیا۔
اسی لیے ہلاکو خان کو اسلامی دنیا کیلئے تباہی کی علامت اور بربادی کے استعارے کے طور پر لیا جاتا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر مورخیں نے ہلاکو خان کی اسلام دشمنی کی اصل وجوہات تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی؟ کیا وجہ ہے کہ عیسائی دنیا چنگیز خان اور اس کے پوتے ہلاکو خان کی وحشت اور بربریت سے بچی رہی اور صرف مسلم دنیا ہی ان کے عتاب کا نشانہ بنی؟ تاریخ کے اوراق اس راز سے یوں پردہ اٹھاتے ہیں کہ پڑھنے والا حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ دراصل اس کی وجہ صلیبی جنگوں میں یورپی انتہاپسند مسیحیوں کی ناکامی بنی۔ صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد یورپ کے انتہاپسند مسیحی آرام سے نہیں بیٹھے تھے بلکہ انہوں نے مسلم دنیا کو تباہ کرنے کیلئے نئے ذرائع اور امکانات تلاش کیے، انہیں امکانات میں سے ایک چنگیز خان تھا۔ چنگیز خان اور اس کی اولاد جدھر جدھر سے گزری تو اس کے راستے میں آنے والی مسیحی دنیا نے مزاحمت کرنے کی بجائے اس کا ساتھ دیا اور اس کی سیاسی اور عسکری حمایت کی۔ یہ سیاسی اور عسکری حمایت بعد میں رشتے داری میں بھی بدل گئی۔
چنگیز خان کے بیٹے تولی خان کی شادی ایسی ہی ایک مسیحی شہزادی سے ہوئی تھی، جس کے بطن سے ہلاکو خان پیدا ہوا۔ ہلاکو خان کی ماں شہزادی ”سرخاغطانی بیگم“ نسطوری عقیدے کی پیروکار ایک مسیحی خاتون تھی۔سرخاغطانی بیگم کے چاروں بیٹوں نے جہاں جہاں حکومتیں قائم کیں، انہوں نے اسلامی دنیا کی تباہی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہلاکو خان کی اپنی بیوی دکوز خاتون بھی عیسائی تھی۔یہی وجہ ہے کہ جب ہلاکو خان نے بغداد کی طرف کوچ کیا تو مختلف عیسائی ممالک کے ہزاروں فوجی بھی اس کے ہمراہ تھے۔ ایک بڑا حصہ جورجین تھا، جو اپنے دارالحکومت تفلیس کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بے چین تھے جو جلال الدین خوارزم شاہ نے دہائیوں پہلے فتح کیا گیا تھا۔ دوسرے حصہ لینے والی عیسائی افواج میں آرمینیہ کی فوج اپنے بادشاہ کی قیادت میں شامل تھی۔ سلطنت انطاکیہ سے ہزاروں فرانسیسی فوجی بھی ہلاکو خان کی فوج کے ہمراہ تھے اور بغداد میں ظلم و بربریت کی اصل داستانیں اِنہی غیر منگول فوجیوں نے رقم کی تھیں۔ ہلاکو کے بعد اس کا بیٹا اباقہ خان تخت نشین ہواتو اس نے بھی اپنے باپ کی اسلام دشمن حکمت عملی جاری رکھی۔
اباقہ نے اپنی نسطوری ماں دکوذ خاتون کے کہنے پر پوپ اور یورپ کے مسیحی حکمرانوں سے قریبی تعلقات قائم کئے اور عیسائیوں کو بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ قارئین کرام!!سقوط بغداد صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد یورپی انتہاپسندوں کی ہی سازش تھا اور افسوس کہ کسی مورخ نے یہ سوال نہیں کیا کہ نوے فیصد اسلامی دنیا اور تین حصے ساری دنیا کو تاراج کرنے والے منگولوں نے یورپ کا رخ کیوں نہ کیا؟پاکستان میں آج اسلام کے نام پر گلے کاٹنے ، عوامی مقامات پر خودکش حملے کرنے، اسکولوں میں گھس کر بچوں اور اساتذہ کو قتل کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں ، یہ بھی دراصل سقوط بغداد کی سازش کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے، بادشاہت کے لالچ میںابن وزیر اعظم علقمی ہلاکو خان سے ملنے پہنچا ، لیکن ہلاکو خان نے اسے ملنے کی بجائے یہ کہہ کر قتل کرادیا کہ “جس نے اپنوں سے وفا نہیں کی، وہ میرا وفادار بھلا کیسے ہوگا؟“۔ اسلام کی نشاہ ثانیہ کی تلاش میں دردر بھٹکنے والوں کو تولی خان کے لاڈلے کا یہ جملہ یاد رکھنا چاہیے۔