ابوظہبی سے وطن پہنچے تو ایئرپورٹ پہ ٹیکسی کی تلاش ھوئی ، یہ 1980 کی بات ھے جب آتش ابھی ٹین ایجر تھا اور نہایت بھولا بھالا تھا جو کہ اب بھی ھے ،،، خیر ایک ٹیکسی کے پیچھے ” ائیرکنڈیشن ” لکھا دیکھ کر اس سے بات چیت شروع کی ،، چچا جان کا خیال تھا کہ یہ زیادہ پیسے مانگ رھا ھے مگر ھم نے نہایت تجوید کے ساتھ ان کو سمجھایا کہ جب ائیرکنڈیشن ھے تو مہنگی تو ھوگی ، ایک تو آپ پینڈو لوگوں کو پتہ بھی نہیں کہ ائیرکنڈیشن میں انجن ڈبل کام کرتا ھے ، ٹیکسی والا کمال بے نیازی سے ھمارے آپس کے مشورے سن رھا تھا ،، آخر بات طے ھو گئ اور ھم ٹیکسی میں سوار ھو کر عازم دیہہ آھدی ھوئے ، ٹیکسی جب سواں پل کراس کر گئ تو ھم نے کہا کہ بھائی اے سی چلا دو ،، اے سی کا تو پاکستان میں لوگوں نے ابھی نام سنا ھے یہاں گاڑیوں میں اے سی نہیں ھوتا ، ٹیکسی والے نے انکشاف کیا ،، ھم نے نصرت فتح علی کی طرح قسطوں میں ایک لمبی سی ھیں "ھیننننننننن” قیمہ کر کے نکالی ،، مگر ٹیکسی پر تو آپ نے ائیرکنڈیشن لکھا ھوا تھا ،، بادشاھو آگے چل کر دودھ پتی بھی پیئیں گے اور آپ تسلی سے پڑھ بھی لینا کہ کیا لکھا ھوا ھے ،،، مندرہ جا کر قمر ھوٹل پہ ٹیکسی روکی اور ھم پہلے پچھلی اسکرین کی طرف ھی لپکے تا کہ دیکھیں کیا لکھا ھوا ھے ،وھاں جو غور سے دیکھا تو چھوٹا سا قدرتی بھی ائیرکنڈیشن کی بائیں پسلی کے ساتھ لکھا ھوا تھا یعنی ” قدرتی ائیرکنڈیشن ” ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کسی بھی سوزوکی اسٹینڈ پہ چلے جائیں سواریوں سے بھری ھوئی ایک سوزوکی ضرور تیار ھو گی جس میں صرف ایک سواری کی گنجائش ھو گی ( باقی سارے سوزوکیوں کے ڈرائیور اور کلینر بیٹھے ھوتے ھیں ) اور ھاکر آواز لگا رھا ھو گا ،ھِک سواری ، ھِک سواری ،، جونہی ایک سواری دوڑ کر سوار ھوتی ھے ( کیونکہ ڈرائیور گاڑی کو یوں ریس دے رھا ھوتا ھے اور آگے پیچھے کر رھا ھوتا ھے گویا بس ھمارا پسینہ دیکھ کر اسے ترس آ گیا ھے ورنہ سوزوکی تو جانے ھی والی تھی ) جونہی سواری بیٹھتی ھے ایک ڈرائیور سلپ کر جاتا ھے ،اور ھاکر پھر شروع ھو جاتا ھے ،ھِک سواری ھِک سواری ،،،
بیگم سینک میں تین چار پلیٹیں رکھ کر کہیں گی ،، ذرا دو ھاتھ مار دینا ،،،،،، اور بندہ کہتا ھے گل ای کوئی نئیں ، جونہی وہ دو ھاتھ مارنا شروع کرتا ھے ، بیگم تلاش گمشدہ میں نکل پڑتی ھیں اور برتن ساون کے مینڈکوں کی طرح ادھر اُدھر سے نکلنا شروع ھو جاتے ھیں بلکہ جو برتن آپ نے پورے سال نہ دیکھا ھو وہ بھی آپ کے سامنے پڑا منہ چڑھا رھا ھوتا ھے ،، بعض دفعہ تو شک گزرتا ھے کہ پڑوسیوں کے بھی مانگ لائی ھیں ،، یہ تو ھماری دیسی خواتین کا کمال ھے ، ولایتی خواتین تو اس سے بھی بڑا کمال کرتی ھیں وہ کتے کی رسی پکڑا کر کہتی ھے اس کو ذرا گھما کر لے آؤ ،مگر پھر بات اس کو نہلانے اور برش کرنے تک چلی جاتی ھے ، اور ساتھ شرط یہ بھی ھوتی ھے کہ تم نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا نام بھی پکارنا ھے تا کہ نہانے والا بور نہ ھو جائے ،، اس بارے میں ھمارے دوست Inam Rana بہتر بتا سکیں گے کیونکہ انہوں نے تو غصے میں آ کر کتے کو اڈاپٹ ھی کر لیا ھے کہ کم از کم ثواب تو ھو کسی کو پالنے کا ،،،،،،،،