جب بھی اللہ پاک کی رحمت کا ذکر کیا جاتا ھے تو جنہوں نے چار نمازیں پڑھ رکھی ھوتی ھیں ان کو افراتفری پڑ جاتی ھے کہ کہیں واقعی اللہ پاک سب کو معاف کرنا ھی شروع نہ کر دے ، سوال کرتے ھیں کہ اگر بےنمازیوں کو بھی بخش دے گا تو پھر ھماری نمازوں کا کیا فائدہ ؟ عرض کیا کہ آپ کی نمازوں کے بدلے آپ کو جنت مل جائے گی ، ضروری ھے کہ کسی کو کوئلہ کر کے ھی آپ کی نمازوں کا کلیجہ ٹھینڈا ھو گا – اس موضوع پر ایک پرانی پوسٹ یاد آ گئ ھے ،،
متشدد کی نفسیات ،
اللہ پاک نے خطہ عربستان کو انبیاء کی بعثت کے لئے چنا تو کسی خاص مقصد اور حکمت کے تحت چنا ، اللہ پاک فرماتا ھے کہ ھم نے بنی اسرائیل کو عالم کی امامت و سیادت کے لئے چنا تو اپنے علم کی بنیاد پر چنا ” ولقد اخترنٰھم علی علمٍ علی العالمین ( دخان )
عربوں میں بڑے بڑے نیک لوگ ھیں مگر پتہ بھی نہیں چلتا ، ڈھائی لاکھ درھم کی گاڑی سڑک کنارے لگا کر سر مٹی پہ رکھ دیتے ھیں ، دینے پہ آتے ھیں تو بیگ بھر کر گاڑی میں رکھ لیتے ھیں اور بغیر گنے دیتے ھیں مگر شکرئیے کا لفظ سننے کے مجاز نہیں ، ایک ھمارا خطہ ھے اور ھماری مٹی ھے ، جس میں کچھ بھی ہضم نہیں ھوتا ،، چار انگل داڑھی رکھ لی تو چار بندے فی سبیل اللہ مارے بغیر ھضم نہیں ھوتی ،، چار سال مدرسے میں لگا لئے تو جب تک چار سو بندے کے کفر کے فتوے نہ جڑ دے وہ ہضم نہیں ھوتے ، جیسے چار نوالے زیادہ کھا لئے تو صرف ڈکار مارنے کے لئے 400 کلوریز کی سیون اپ کی بوتل پینا لازم ھے ،، وزن کم کرنے کے لئے کارن فلیکس کھائیں گے مگر اس کو میٹھا کرنے کے لئے آدھ پاؤ چینی ڈال لیں گے ،، بس ھم کچھ ابنارمل سے رویوں کے حامل لوگ ھیں ، مگر اس سب کے پیچھے نفسیات کا ایک گورکھ دھندہ ھے ،،
متشدد نفسیات کا حامل آدمی نیک تو بن جاتا ھے ،، اگر ماحول ساتھ نہ دے تو اس کا حال اس بندے کا سا ھوتا ھے جو گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر لیٹا ھو ،، یہی کمبل دسمبر ،جنوری میں راحت کا سامان ھوتا ھے مگر جون جولائی میں وبالِ جاں ،،، اب جب وہ دوسرے کو واجبی ضروریاتِ دین کا اھتمام کر کے بھی مسلمان کہلاتے دیکھتا ھے تو اپنے اوپر لادھا ھوا ایکسٹرا تشدد اسے غصہ دلانا شروع کرتا ھے ،،
1- یہ کیا بات ھوئی کہ تم کب سے مذھب کے عذاب میں مبتلا ھو اور وہ موج کرتا رھا ھے ،،،،،،،،، اب گناہ میں بال سفید کر کے وہ توبہ کر کے سارے گناہ نیکیوں میں تبدیل کر کے تم سے بھی آگے نکل گیا ھے ؟؟
یار یہ اللہ بھی کچھ زیادہ ھی پیکیج نہیں دے دیتا گنہگاروں کو ؟
2- تم نے مذھب کی 100 چیزیں لاد رکھی ھیں اور وہ دس لاد کر بھی تمہارے جیسا مسلمان کہلاتا ھے ؟ 100 والا اور 10 والا برابر کیسے ھو سکتے ھیں ؟ تمہاری مسلمانی کو تو بزنس کلاس یا گولڈن کلاس ملنی چاھئے جبکہ تم کو عام مسلمان کی طرح اکونومی کلاس میں سیٹ دی گئ ھے ،،،،،،،
3- جس بچے کو ماں اس کی ناپسندیدہ چیز کھلائے اور وہ طبیعت پر جبر کر کے اطاعت کے جذبے کے تحت چپ کر کے اس کو کھا لے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، پھر وہ ماں کو شکوہ کرے کہ چھوٹا بھائی نہیں کھا رھا ،،،،،،،،،،،اور ماں اس کو کہے کہ اچھا وہ نہیں کھاتا تو نہ کھائے تُو اس کو چھوڑ ،، میرا اچھا بیٹا تم نے تو کھا لیا ھے ناں ،،،،،،،،،
وہ بچہ دل میں کہتا ھے ماں تُو صبر کر ،، اس کا تو باپ بھی کھائے گا ،، وہ بھائی کو جھولے جھلانے کے بہانے ساتھ والوں کی حویلی میں لے جاتا ھے اور پھر مار مار کر نیلا پیلا کر کے کھلاتا ھے اور ساتھ کہتا بھی جاتا ھے کہ ” میں نے نئیں کھایا تُو وڈا نواب ھے ؟،،،
شیطان نہ صرف اس کو غصہ چڑھاتا رھتا ھے بلکہ ” مزید نیک ” ھونے میں اس کی مدد بھی کرتا ھے تا کہ کم نیک مسلمانوں کو مارنے تک تیار ھو جائے ،، اس مسلمان کی نیکی اصل میں شیطانی استدراج ھوتا ھے جسے گنہگار واجب القتل اور اللہ بے انصاف نظر آنا شروع ھو جائے ،،، والدین کی خدمت کا مطلب یہ نہیں ھونا چاھئے کہ ان کو خدمت نہ کرنے والی اولاد کا دشمن بننے پر مجبور کیا جائے کہ یا تو ان سے سلام دعا چھوڑو،، ورنہ خرچہ پانی بند ،،
ایسی داڑھی جو داڑھی نہ رکھنے والوں کو مسلمانی سے خارج قرار دے ،، یا ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکے ،، ھم میں یہ خناس بھر دے کہ وہ داڑھی نہ رکھ کر تحت الثری میں کھڑا ھے اور میں صرف داڑھی رکھنے کی وجہ سے ماؤنٹ ایورسٹ پہ کھڑا ھوں ،، حالانکہ ھو سکتا ھے کہ اس کمی کے باوجود اس میں کوئی ایسی عظیم خصلت پائی جاتی ھو جو رب کے یہاں اسے مجھ سے زیادہ قریب کرتی ھو ،،،،،،،،،،،
متشدد آخر اس مقام پہ پہنچ جاتا ھے جہاں وہ رب کی عدالت زمین پر لگاتا ھے ،خود ھی اس کا جج بنتا ھے اور لوگوں کی جنت ،جھنم اور زندگی ،موت کے فیصلے حشر سے پہلے اسی زندگی میں کرنا شروع کرتا ھے ،، یہ وہ مقام ھوتا ھے جب وہ خدا کی زبان بولتا ھے اور مسلمانوں کے قتلِ عام کے فیصلے کرتا ھے ،، ان کی مساجد اور مدارس کو اڑانا خدائی مشن بیان کرتا ھے ،، ننگے چہرے والی خواتین کے چہروں پہ تیزاب پھینکنا اس کو عین جہاد نظر آتا ھے ،،،
ایسے شخص کو نیکی ہضم کرنے کے لئے تھوڑا سا گناہ بھی کر لینا چاھئے ،، چار بندے مارنے کی بجائے غلام علی کی چار غزلیں سن لینی چاھئیں ، قوالی ایک بھی چل جائے گی اور ابرار الحق کا ایک آدھ گانا بھی سلیم صاحب تجویز کیا کرتے تھے ،
جب حضور ﷺ خود بیان فرما گئے ھیں کہ بہترین دور میرا دور ھے ،پھر اس کے بعد والا پھر اس کے بعد والا ،گویا حضور ﷺ کے بعد ایک فطری زوال کا سامنا ھے انسانیت کو ،حضور ﷺ کا زمانہ وہ زمانہ تھا وہ موسم تھا جب نیکی خود ھونے کو بےقرار ھوتی تھی ،، جب موسم آتا ھے تو لہسن اور پیاز ٹوکریوں میں پڑا پڑا اگنا شروع ھو جاتا ھے اور جب موسم نہ ھو تو زمین میں دبا بھی دو تو مر جاتا ھے ،، انسان کے اندر کی صلاحیت اور باھر کے موسم کا کمبینیشن بہت ضروری ھے ،، حضرت انس بن مالکؓ کے بقول ھم نے نبئ کریم ﷺ کو دفن کیا اور ابھی مٹی بھرے ھاتھ سے جھاڑے بھی نہیں تھے کہ ھم نے اپنے دل میں تغیر پایا ،، وھی تغیر اب چودہ صدیوں میں نیاگرا فال بن گیا ھے ،کسی بھی دین میں آئیڈیل لوگ 2 فیصد ھی ھوتے ھیں باقی کم و بیش ھی ھوتے ھیں ،،صحابہؓ میں سارے ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ نہیں تھے حالانکہ مدینہ بھی وھی تھا ،رسول اللہ ﷺ بھی وھیں تھے اور موسم بھی وھی تھا ،، پھر آج سارے مسلمان ایک جیسے کس طرح ھو سکتے ھیں اور ھم بندوق کے زور پہ ان کو ایک جیسا کیسے بنا سکتے ھیں؟ ؟ متشددین کی یہ جنگ عام مسلمان سے نہیں بلکہ دین کی فطرت اور خدا کے ساتھ جنگ ھے ،جس میں ان کی جیت ممکن ھی نہیں یہ لوگ ھاری ھوئی جنگ لڑ رھے ھیں،،
ایک معتدل موقف کے لئے یہ بہت ضروری ھے کہ انسان کو یہ معلوم ھو کہ دین کی وہ کونسی باتیں ھین جن میں کوتاھی کے باوجود بھی انسان مسلمان رھتا ھے ،، یہ وھی جگہ ھے جہاں سے کسی شخص کا اسلام شروع ھوتا ھے ،، وہ اسی دروازے سے اسلام میں سے نکلے گا جس دروازے سے داخل ھوا تھا ،، ایک شخص اگر قاتل ،اسمگلر ، اغوا برائے تاوان ، اور ھیروئین فروش ھو کر بھی پاکستانی رہ سکتا ھے اگرچہ اسے عمر قید یا سزائے موت ھو ،، تو گنہگار ھونے کے باوجود بھی ایک شخص مسلمان ھو سکتا ھے اور اس کو جان و مال کی عصمت حاصل ھے ،ایک ڈاکٹر کو معلوم ھوتا ھے کہ کوئی انسان کس وقت تک زندہ کہلاتا ھے اور کس وقت مردہ قرار دیا جاتا ھے ،مجرد اس کے گردے فیل ھو جانے یا کانا ھو جانے یا پھلپہری نکل آنے یا خسرہ ھو جانے یا چیچک نکل آنے سے انسان چاھے کتنا بھی بدصورت و بیمار ھو جائے مردہ اور قابلِ تدفین قرار نہیں دیا جاتا بالکل اسی طرح کسی کو کافر قرار دینا اس کی روحانی موت کا اعلان کرنا ھوتا ھے ،جو ھم روز کسی نہ کسی مسجد کے مینار سے سنتے یا اشتہار میں پڑھتے رھتے ھیں ،، اپنی چار نمازیں پڑھ لینے اور چار انگل بال بڑھا لینے سے کسی کو کسی کے کفر اور قتل کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا ،،