محبت اور بغاوت

 
محبت میں اللہ پاک سے خطاب کرتے وقت انسان سے غلطی بھی ھو جاتی ھے مگر چونکہ اس کے پیچھے بد نیتی نہیں بلکہ نافہمی ھوتی ھے لہذا غصے کی جگہ پیار آتا ھے – بعض بچے جن کی شادی جلدی ھو جاتی ھے تو ان کے بچے اور ان کے بھائی ھم عمر ھوتے ھیں ، ابھی ساس کا چھلہ پورا نہیں ھوتا کہ بہو کو بھی ھو جاتا ھے ، پانچ سات پوپائے کی طرح کے چھوٹے چھوٹے بھائی جب بندے کو بھائی جان ، بھائی جان کہہ رھے ھوتے ھیں تو اس کا بیٹا بھی اس کو بھائی جان ھی کہنا شروع ھو جاتا ھے ، اور اس پر نہ باپ کو غصہ آتا ھے اور نہ شریعت حرکت میں آتی ھے ،، بلکہ جب بیٹا بھائی جان کہتا ھے تو باپ آگے سے جی او میری جان کہتا ھے –
جب وھی چھوٹے چھوٹے اس بچے کی ماں کو بھابھی بھابھی کہتے ھیں تو اپنا بچہ بھی اس کو بھابھی بلانا شروع کر دیتا ھے ، جس پر ماں مسکرا دیتی ھے ، بچے نہ ھوں اور گھر والے ماں کا نام پکاریں تو بچہ بھی ماں کو نام سے پکارنا شروع ھو جاتا ھے – الغرض اس کو نادانی کہتے ھیں ،
مولانا روم نے اپنی حکایات میں ایک گدڑیئے کی حکایت بیان کی ھے کہ ایک گدڑیا اکیلا بیٹھا اللہ پاک سے مکالمہ کر رھا تھا کہ ” اے اللہ سنا ھے تو اکیلا ھے ، تیری بیوی بھی نہیں ھے ، تیری اولاد بھی نہیں ھے تو تیرے کام بھلا کون کرتا ھو گا ، ظاھر ھے خود ھی کرتا ھو گا، اے اللہ میرا جی چاھتا ھے کہ میں تیرے پاس ھوتا یا تو میرے پاس ھوتا تو میں تیرے کپڑے دھوتا ، تیرے بال اپنی بھیڑ کے دودھ سے دھوتا ، تیری جوئیں نکالتا ، تیرے بالوں میں کنگھی کرتا – موسی علیہ السلام طور جانے کے لئے وہیں پاس سے گزر رھے تھے کہ گدڑیئے کی باتیں کان میں پڑ گئیں ،، بہت غصہ آیا ، اس گدڑیئے کو ڈانٹ دیا کہ کیا کفر بک رھا ھے؟ اللہ سے ایسی باتیں کرتے ھیں وہ نہ کھاتا ھے نہ پیتا ھے اور نہ تھکتا ھے ،،
مسکین گدڑیئے کی تو جان نکل گئ ، میں تو اللہ کو راضی کر رھا تھا یہاں تو ایمان کے ھی لالے پڑ گئے اس نے ایک چیخ ماری اور جنگل کی طرف بھاگ گیا – اسی حال میں اللہ نے موسی علیہ السلام سے خطاب کیا ،،
اے موسی تو نے میرے بندے کو مجھ سے جدا کر دیا ،
اے موسی میں نے تجھے جوڑنے کے لئے بھیجا ھے ،
توڑنے کے لئے نہیں بھیجا –
جانے والوں کے لئے الگ ضابطے ھیں اور نہ جاننے والوں کے لئے الگ ھیں –
جو تسبیح تم بیان کرتے ھو میں تو اس سے بھی پاک و بے نیاز ھوں ،
جوھری کو گوھر سے تعلق ھوتا ھے ، مجھے جس سوز کی چاہ تھی وہ اسی گدڑیئے کے پاس تھا ،
تمہارے لئے اس کی تسبیح زھر مگر میرے لئے شھد تھا ، جو تیرے نزدیک گستاخی تھی وہ میرے نزدیک عین محبت تھی ،
کعبے کے اندر سمت کی کوئی پابندی نہیں ، دل سوختہ عاشق پر الفاظ کی کوئی پابندی نہیں-
میں جو بھی حکم دیتا ھوں اپنے نفعے کو نہیں دیتا – میں تو بندوں کے نفعے میں اضافے کے لئے احکامات دیتا ھوں ، جس طرح کوئی رحم دل سڑی سبزی والے پہ ترس کھا کر اس کی گلی سڑی سبزی خرید لے اور اس کی نظروں سے اوجھل ھو کر اس کو پھینک دے ،مگر وہ سبزی والا یہ سمجھے کہ اس نے بندے پر اس نے بڑا احسان کر دیا ھے کہ اس کو سبزی سستی بیچ دی ھے ، اسی طرح بندوں کے اعمال خود ان ھی کے نفعے کے لئے زیادہ سے زیادہ قیمت پر خرید لئے جاتے ھیں اگرچہ االلہ کے نزدیک ان کی حیثیت سڑی ھوئی سبزی سے بھی کم ھوتی ھے ، اور نیک سمجھتے ھیں کہ اللہ ان کے زیر بار ھے اور اس کو چاہئے کہ وہ ان کی ایک آواز پر دوڑ پڑے ،،جبکہ گنہگار کے پاس فریب کھانے کو کچھ نہیں ھوتا وہ تو دل جلا کر آنسو بناتا ھے اور ان کو رب کے دربار میں پیش کرتے بھی ڈرتا ھے کہ گنہگار کے آنسو بھی جس مواد سے بنے ھیں وہ گندہ ھی ھو گا پتہ نہیں اللہ پاک ناراض ھی نہ ھو جائے کہ یہ کیا گند اٹھا لائے ھو –
اس کا حوالہ دیا گیا ھے کہ جوھری کو گوھر یعنی موتی سے غرض ھوتی ھے اس کو اس مٹی اور گند سے کوئی لینا دینا نہیں ھوتا کہ جس میں سے اس موتی کو نکال کر لایا گیا ھے –
ایک تو یہ انداز ھے ، جس کی غلطی بھی تسبیح ھے ،،
مگر دوسری جانب ملحدین کا انداز تخاطب ھے –
ایک صاحب فرما رھے تھے کہ پہلے تو خدا ھے ھی نہیں ،لیکن اگر ھوا بھی تو میں حشر میں اس کے خوب کپڑے اتاروں گا اور اس کو سب کے سامنے ننگا کرونگا کہ میں نے تجھ سے کتنی دعائیں کی تھیں کہ مجھے بھٹکنے سے بچا لے مگر اس وقت تو تم نے بالکل توجہ نہیں دی اور آج حساب لینے کو بڑے بن ٹھن کر بیٹھے ھو-
پہلا انداز عاشق کا ھے اور یہ دوسرے والا انداز ایک باغی کا ھے ، اللہ ہاک نے گناہ معاف کرنے کا وعدہ کیا ھے بغاوت معاف کرنے کا وعدہ نہیں کیا ،، دوسرا یہ کہ باغی کو توبہ کی توفیق بھی کم ھی نصیب ھوتی ھے –
آدم علیہ السلام سے خطا ھو ئی تھی ،، معاف ھو گئ –
ابلیس نے بغاوت کی تھی ، توبہ سے بھی محروم رھا –