سنگ تراش پہاڑی میں سے شیر کے مجسمے کو تراش کر اسے فائنل ٹچ دے رھا تھا جبکہ اس کا بیٹا پاس کھڑا بڑے غور سے اس کو دیکھ رھا تھا ،،، جونہی وہ فارغ ھوا تو اس کے بیٹے نے تجسس کے ساتھ اس سے پوچھا ،، بابا یہ شیر آپ نے بنایا ھے ؟
نہیں بیٹا ، یہ شیر اس پہاڑی میں پہلے سے موجود تھا ، میں نے اس کے اوپر پڑے ھوئے پردے ھٹائے ھیں ، اور کچھ نہیں کیا ،،
ھر ماں ایک پتھر بہو کے حوالے کرتی ھے اور وہ اس پہاڑی پتھر پر پڑے پردے ھٹا کر اس میں سے شیر برآمد کر لیتی ھے ،، یہ پتھر 20 پچیس سال سے ماں کے پاس تھا اور مزید 25 سال بھی ماں کے پاس رھتا تو بھی پتھر کا پتھر ھی رھتا ،، اس لئے کہ آدم میں سے آدم کو ایکسپلور کرنے کے لئے بیوی دی گئ تھی ،ماں نہیں دی گئ تھی ، وہ بس جنم دے کر رہ جاتی ھے ، اس کو کسی سنگ تراش کے سپرد کرنا ھی اللہ کی سنت ھے ،اللہ پاک نے آدم کو بنا کر سکون کے لئے کسی کو سونپ دیا تھا ، سکون اس کے اندر نہیں تھا کہیں سے کاپی پیسٹ ھوا تھا ،، ( هو الذي خلقكم من نفس واحدة وجعل منها زوجها ليسكن إليها – الاعراف – 189 )
اگلے دن ماں خود حیران پریشان ھو جاتی ھے کہ یہ اسی کا بیٹا ھے ؟ وہ پوچھتی پھرتی ھے یہ وھی لڑکا ھے ؟ ” بہو نے کہیں جادو تو نہیں کر دیا ،، شاید بہو کی ماں نے بیٹی کے ذریعے کوئی تعویز کر دیا ھے ،، یہ وھی جادو اور وھی تعویز ھے جو آدم علیہ السلام پہ ھوا تھا تو سکون آیا تھا ،، اور یہی اس شیر کی ماں نے بھی اپنے شوھر پہ کیا تھا کہ آج تک دوسری بات نہیں کرتا ،
ھر پرندہ جو خوراک پسند کرتا ھے اسی کے ذریعے پکڑا جاتا ھے ،، اسے پکڑنے کے لئے اسی کی پسند کا چارہ کانٹے پہ لگایا جاتا ھے تو وہ ٹریپ ھوتا ھے ،، اور پکڑے جانے کے بعد اس کی خوراک تبدیل نہیں ھوتی بلکہ وھی خوارک دی جاتی ھے تو وہ صحتمند رھتا ھے ،، لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو محبت سے پھنساتے ھیں ،،، محبت کے زور پر دنیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ھو جاتے ھیں ،، گھروالے رکاوٹ ڈالیں تو وہ گھر بار بار چھوڑ جاتے ھیں اور نہ صرف مستقبل کے تمام خدشات کو اٹھا پھینکتے ھیں بلکہ موت کے امکان تک کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور یہ صرف محبت کی بنیاد پر ھوتا ھے ،، جب تک یہ جذبہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ان میں باقی رھتا ھے تب تک ان پہ کوئی آنچ نہیں آتی ،،
پھر اچانک مرد بھول جاتا ھے کہ اس نے اس عورت کو قابو کرنے کے لئے کونسا منتر پڑھا تھا اور کونسی بِین بجائی تھی ، وہ محبت کی بجائے طاقت کے زور پر اس کو قابو کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ھے ،اور طاقت ھمیشہ نفرت کو جنم دیتی ھے ،، یہ اگر والدین اور اولاد جیسے خونی رشتے کے درمیان نفرت تخلیق کرتی ھے تو پھر یقین کریں اور کوئی رشتہ ایسا نہیں جو طاقت سے نفرت کشید نہ کرتا ھو ،یہانتک کہ اللہ کے بارے میں بھی ھر وقت طاقت ،قوت جبروت ، آگ ، ستر ستر گز زنجیریں ، خچر جتنے پچھو وغیرہ کے تذکرے ایک دن انسان کو باغی کر دیتے ھیں ،، اس لئے رب انسان کے ساتھ پیار کا رشتہ رکھنا چاھتا ھے ” یحبھم و یحبونہ ” وہ ان سے پیار کرتا ھے اور وہ اس سے پیار کرتے ھیں ،، والذین آمنوا اشد حباً للہ ” ایمان والے اللہ سے شدید محبت کرتے ھیں ”
مرد کی طاقت عورت میں نفرت بھرتی ھے اور عورت کا نفرت کا اظہار مرد کو مزید خونخوار بنا دیتا ھے ،،یوں آشیانہ نفرت کے طوفان کی زد میں آ جاتا ھے ،جسے کل آگ چھو کر بھی نہیں جلا سکتی تھی آج اس گھر کو برسات کا پانی بھی آگ لگا دیتا ھے –
عورت کو کمزور سمجھ کر زیادتی کرنے والے بھول جاتے ھیں کہ ان کی طاقت کی چابی اسی عورت کے ہاتھ میں ھے ، وہ بس چند ھی سالوں میں اولاد کو باپ کے خلاف تیار کر کے باپ کے سامنے اسی کا خون کھڑا کر دیتی ھے ، میاں بیوی میں چپقلش ھو جائے تو پائیلٹ کو فائیٹر اڑانے کی اجازت نہیں دی جاتی اس کی بیوی سے ماھرین نفسیات ملاقات کر کے اختلاف کی وجوھات کا پتہ چلاتے ھیں اور گھر کی ٹینشن ختم کر کے ھی شوھر کو جہاز سونپا جاتا ھے ، اور ھم بیوی کو ناگن بنا کر کے اپنی نسلیں اس کے حوالے کر دیتے ھیں ،، اس رشتے کی اھمیت اور حساسیت کو سمجھیں ،،
بدنصیبی کا میں قائل تو نہ تھا لیکن !
میں نے برسات میں جلتے ھوئے گھر دیکھے ھیں !
=================================================
#۱سلام #قرآن #قاری حنیف ڈآر #محبت #نفرت