قاسم تین سال کا تھا ،،،،،،،،،،، پاکستان گرمی کی چھٹیوں میں گئے تو اس کا ماموں اس کی امی کی چادر لے کر سو گیا ،،،،،، قاسم کو چین نہیں آ رھا تھا ،، وہ بار بار ماں کا دامن پکڑ کر ماموں کی چارپائی تک لاتا اور پھر چادر کی طرف اشارہ کر کے اسے کہتا کہ یہ چادر آپ کی ھے اور یہ واپس لو ،،،،،،،، اس کی ماں چپ کر کے واپس آ جاتی ،،، اور پھر کسی کام لگ جاتی ،،،،،،،، بچہ پھر چادر پر نظر جما کر کڑھنا شروع کر دیتا ، اس کے چہرے پر ناراضی ،بے اطمینانی اور نا آسودگی کے آثار صاف نظر آتے تھے ، آخر اس بچے نے سمجھ لیا کہ یہ قبضہ ختم کرانے کے لئے مجھے ھی کچھ کرنا ھو گا ،،،،، وہ گولی کی طرح دوڑا چادر کو ماموں کے پاؤں کی طرف سے مضبوطی سے پکڑا اور پورے زور کے ساتھ کھینچ کر ماموں کے اوپر سے اتار لیا اور گھسیٹتا ھوا ماں تک لے آیا ،، ساتھ وہ توتلی زبان میں وضاحت بھی کرتا آ رھا تھا کہ یہ ” یہ میلی امی کی ھے ” یہ وہ ماموں تھا جو اسے منہ سے نکال کر کھلاتا تھا اور سپر مارکیٹ میں جس چیز کی طرف وہ اشارہ کرتا تھا وہ اسے فوراً لے کر دیتا تھا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مگر انسان کو جس سے پیار ھوتا ھے اس کی چیز کسی اور کے قبضے میں برداشت نہیں کرتا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، اللہ کے اختیارات اس کی ذات میں واپس دے دو ، ان کو ریوڑیوں کی طرح بانٹنا چھوڑ دو ،،،،،،،،،،،، سارے اس کے بندے بن جاؤ ،اور اسی کو ھر معاملے میں متصرف مان لو ۔،،،،،،،،، پھر جو تم چاھو گے ھم مان لیں گے ،،،، سگا باپ بھی کہے کہ وہ جو چاھے کر سکتا ھے تو اسے کہو کہ اس جملے کی اجازت تو اللہ نے اپنے آخری نبی ﷺ کو بھی نہیں دی تھی ،،، ولا تقولن لشيء إني فاعل ذلك غدا إلا أن يشاء الله واذكر ربك إذا نسيت وقل عسى أن يهدين ربي لأقرب من هذا رشدا ( الکہف – 23 )