آج کل سندھ پر محمد بن قاسم کاحملہ اور راجہ داہر کا اپنے اقتدار کے لئے مارا جانا زیرِ بحث ہے ، میرے خیال میں یہ پاکستان اور اسلام ،دونوں کے خلاف بغض نکالنے کا نیا طریقہ ایجاد کیا گیا ہے، آپ پاکستان کے خلاف بات کرنا چاہتے ہیں تو خطرہ ہے کہ آئین و قانون حرکت میں آ ئے اورآپ دھر لئے جائیں تو آپ محمد بن قاسم کے خلاف بولیے جس نے پاکستان پر مشتمل علاقے فتح کر کے مسلم اکثریتی خطہ قائم کیا تھا ،جس کا پھل ہم موجودہ پاکستان کی شکل میں کھا رہے ہیں ـ اگر آپ پاکستان مردہ باد اور انڈیا زندہ باد کہنا چاہتے ہیں مگر ڈنڈے کے خوف سے نہیں کہہ سکتے تو آپ محمد بن قاسم مردہ باد اور راجہ داہر زندہ باد کہہ لیجئے آپ کا بغض بھی نکل جائے گا اور قانون کی گرفت سے بھی بچ جائیں گے ،، اگر آپ پاکستان نہ کھپے کہنا چاہتے میں مگر کہہ نہیں پاتے تو آپ محمد بن قاسم نہ کھپے اور راجہ داہر کھپے کا نعرہ لگا لیجئے ،، کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا ،، ایسے لوگوں کو صرف ۹۰ دن کے ٹرائل پر انڈیا بھیج دینا چاہیے تا کہ ان کے دل و دماغ کی ساری کھپ نکل جائے ـ
اسلام جس دور میں غالب آیا اور مدینے کی ریاست بطور اسلامی ریاست متعارف ہوئی تو اس زمانے میں کسی ملک کی کوئی تسلیم شدہ سرحد نہیں ہوتی تھی ، نہ کوئی ایسا بین الاقوامی ادارہ وجود رکھتا تھا کہ جس کی منظوری پر ہی کوئی ملک ملک قرار پاتا اور اس کی طے کردہ سرحدیں پوری دنیا تسلیم کرتی ،اور ان سرحدوں پر حملہ اس ملک پر حملہ تصور ہوتا اور کچھ ممالک مداخلت کر کے اس جارح ملک کو فوجیں واپس اپنی سرحدوں میں لے جانے پر مجبور کریں ـ
اس وقت کی صورتحال یہ تھی کہ جہاں آپ کا گھوڑا کھڑا ہے وہ آپ کا ملک ہے ، اور تھوڑی دیر بعد کسی اور کا گھوڑا اپنے شہسوار کے ساتھ وہاں کھڑا ہے تو اب وہ اس کا ملک ہے ـ ایسی صورتحال میں آپ کے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں بچتا تھا کہ اگر آپ کا اپنی ریاست میں دوسروں کے لشکر کا استقبال نہیں کرنا تو پھر آپ کا لشکر متحرک رہے اور اپنے علاقے کا دفاع کرتا رہے ،،
رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارک میں ہی اسلامی ریاست کے خلاف پڑوسیوں کے بد ارادے سامنے آ گئے تھے ، غزوہ موتہ میں قیصر کی فوج کے ساتھ مسلمان فوج کے دستے کی مڈبھیڑ میں حضرت جعفر طیارؓ ، عبداللہ ابن رواحہؓ اور زید بن حارثہؓ[ کبھی زید بن محمد کہلاتے تھے] کے ساتھ بہت سارے مسلمان شھید ہو گئے اور خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ باقی بچے کھچے مسلمان سپاہیوں کو دشمن کے نرغے سے نکال کر مدینہ لائے ، مسلمانوں کے چھوٹے سے پیٹرولنگ یونٹ نے قیصر کی تربیت یافتہ ھزاروں کی تعداد میں فوج کے ساتھ جس بہادری اور بےجگری سے ٹکر لی ، اس نے قیصر کے کان کھڑے کر دیئے اور اسے خدشہ لاحق ہوا کہ یہ لوگ اگر اب قابو نہ کیئے گئے تو پھر ان کا استقبال اپنے دارالخلافے میں کرنا پڑے گا ، لہذا وہ دو لاکھ کا لشکر جرار لے کر مدینے کی طرف روانہ ہوا ،، رسول اللہ ﷺ کو جب اپنے جاسوسوں کی طرف سے قیصر کی افواج کی نقل و حرکت کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے بھی مدینے میں قیصر سے آخری معرکہ لڑنے کی بجائے ، خود قیصر کے علاقے میں جا کر اس کا مقابلہ کرنے کا پلان بنایا اور اسلامی تاریخ میں پہلی بار نفیرِ عام ہو گیا کہ ہر قابل جنگ شخص لازم نکلے گا ، انفروا خفافا و ثقالا ،، ہلکے ہو یا بوجھل بس نکلو سوائے اندھے لنگڑے اور مریض کے جو نہیں نکلے گا وہ مسلمان نہیں ،، قحط سالی کا زمانہ تھا جو جس سے جتنا بن سکتا تھا وہ تیار کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ تیس ھزار کا لشکر لے کر نکلے ، یہ اسلامی تاریخ کا اس وقت تک کا سب سے بڑا لشکر تھا ، فتح مکہ میں دس ھزار کا لشکر استعمال ہوا تھا ،،
اس تیس ھزار کے لشکر کی جنگی تیاری کا عالم یہ تھا کہ ایک اونٹ دس آدمیوں کے لئے دستیاب تھا ،، ایک کلومیٹر کے بعد بھی اگر سوار تبدیل ہو تو دسویں آدمی کی باری دس کلومیٹر بعد آتی تھی ،اور اگر دو میل بعد تبدیل ہو تو دسویں آدمی کی باری بیس میل بعد آتی تھی ، منافق مسلمانوں کی کسمپرسی کا مذاق اڑا رہے تھے جو چندے جمع کر کے سوپر پاور کے خلاف لڑنے جا رہے تھے ۔
الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (79)توبہ
جو لوگ والنٹیرز کی طرف اشارے کرتے اور تمسخر اڑاتے ہیں اور ان لوگوں کا کہ جن کے پاس خرچنے کو توکچھ بھی نہیں مگر وہ اپنی جان پیش کر رہے ہیں اللہ کی راہ میں ، اللہ ان منافقوں سے تمسخر کرتا ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ، آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں ،آپ ستر بار بھی ان کے لئے استغفار کریں اللہ ان کو کبھی معاف نہیں کرے گا ،، ۔
[اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (80) ]
اس قدر سخت انداز اللہ پاک نے منافقین کے خلاف کبھی بھی نہیں اپنایا تھا ،مگر سامنے نظر آ رہا تھا کہ یہ لوگ قیصر کا ففتھ کالم ہی ہیں اس ریاست میں ـ
اس غزوہ کو غزوۃ العسرہ ، اور جیش کو جیش العسرہ کہا گیا ، اس غزوے میں حضرت عثمان نے ایک تہائی لشکر کا بوجھ اکیلے اٹھایا اورنو سو چالیس اونٹ اور ساٹھ گھوڑے پیش گیئے، یہ ٹوٹل تین ھزار سواروں میں سے ایک ھزار سوار عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے پیش کیا گیا، نیز دس ھزار اشرفیاں بھی پیش فرمائیں ، رسول اللہ ﷺ ان کو اشرفیوں کو گود میں رکھے الٹ پلٹ رہے تھے ،یعنی ان کو اٹھا کر گراتے تو وہ چھن چھن کرتیں تو آپ فرماتے عثمان تجھے کوئی ضرر نہیں جنت تیری لئے ہے ، اللہ پاک نے صحابہ کرامؓ کے کارنامے گنا کر ان کے لئے جنت کی بشارت دی ہے مگر نبئ کریم ﷺ نے مختلف مواقع پر دس صحابہؓ کی جنت کی تصدیق فرمائی ہے ،جن میں سے حضرت عثمانؓ کے لئے یہ موقع تھا ایک خاص کیفیت میں تسعمائة وأربعين بعيراً، وستين فرساً أتم بها الألف، وجاء عثمان إلى رسول الله في جيش العسرة بعشرة آلاف دينار صبها بين يديه، فجعل الرسول يقلبها بيده ويقول:«من جهز جيش العُسرة فله الجنة» «ما ضر عثمان ما عمل بعد اليوم» مرتين».
گویا مدنی ریاست کے دفاع کے لئے جزیرۃ العرب سے باہر لشکر کشی کی سنت خود رسول اللہ ﷺ نے طے فرمائی ،، قیصر رسول اللہ ﷺ کی لشکر میں بذات خود شرکت کا سن کر پیچھے ہٹ گیا ،، رسول اللہ ﷺ نے تبوک میں پڑاؤ فرمایا اور قیصر کے زیر اثر قبائل سے مدینے کی ریاست سے وفاداری کا عہد لیا ،، یہ مدینے کی ریاست میں پہلی ایکٹینشن تھی ،، یہی سنت محمد بن قاسم کو ھند و سندھ لائی تھی ـ اگر آپ نہیں چاہتے کہ دشمن آپ کے دروازے پر آ کر آپ سے لڑے تو آپ کودشمن کے دروازے پر جا کر لڑنا ہو گا ، ورنہ کوئی ایسا ادارہ ہو جو آپ کی سرحدوں کی سلامتی کا ضامن ہو ، اور آپ ان سرحدوں میں امن و سلامتی سے رہ سکیں ،، جو سنت طارق بن زیاد کو جبرالٹر اور اسپین لے کر گئ ، جو خالد بن ولید کو ایران و عراق لائی ، جو موسی بن نصیر کو افریقہ میں لے کر گئ سعد بن وقاصؓ کوایران ، افغانستان اور چین تک لے کر گئ وہی محمد بن قاسم کو سندھ میں لائی ،، جونہی ہم نے اس طرف سے اغماض برتا اسلامی ریاست سکڑنا شروع ہو گئ ـ
عرض بس اتنا کرنا تھا کہ محمد بن قاسم نے بطور جرنیل اسلامی ریاست کے احکامات کی تعمیل کی ہے ، اور اس کے معاندین کا سارا غصہ اسلام کے خلاف ہے جس کی نمائندگی محمد بن قاسم کر رہا تھا ـ جس علاقے میں بھی مسلمان گئے وہاں کے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کا دفاع کیا یہی کچھ داہر نے بھی کیا ،، مسلمان سندھ کو اٹھا کر عراق یا مدینے نہیں لے گئے تھے ـ رہ گیا مالِ غنیمت تو وہ اس زمانے کا دستور تھا ، لوگوں پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں تھا ، فوجی اخراجات کے لئے ایک ذریعہ چندہ تھا تھا یا مال غنیمت ،،
قاری محمد حنیف ڈارـ