مرغی کے چوزے نے ماں سے پوچھا ،،،،،،،،،،،،، امی یہ انسان اپنے بچوں کے نام رکھتے ھیں ،، ھمارا نام کیوں نہیں رکھا جاتا ؟
بیٹا ھمارا نام بھی رکھا جاتا ھے مگر مرنے کے بعد ،،، چکن تکہ ، چکن کڑاھی ،چکن ملائی بوٹی ،،،،،،،،،،
ھمارے یہاں کسی کی خوبیوں کا بھی اعتراف اس کی زندگی میں نہیں کیا جاتا ،ھم مردہ پرست قوم ھیں ،ھمارے یہاں زندہ ہمیشہ مردہ باد ھوتا ھے ، اور مرتے ھی زندہ باد ھو جاتا ھے ،، ساری زندگی کفر کے فتوؤں میں گھِرا رھنے والا مرتے ھی نہ صرف مجتہد بن جاتا ھے بلکہ اس کا کافر اور یہودی کہنے والے ھی نیوز بریک کرتے ھیں کہ اب ان کا خلا صدیوں پُر نہیں ھو گا ، اور یہ کہ مرحوم عمر بن عبدالعزیز ثانی تھے ،، کل تک جس کے فوٹو ھیلی کاپٹر سے گرائے جاتے تھے وہ مرتے ھی رابعہ بصری ثانی بنا دی جاتی ھے ،، ھر سیاسی یا مذھبی لیڈر کے مرنے کے بعد اگلے دن کے اخبار دیکھنے والے ھوتے ھیں ،، بیوی شوھر کے مرنے کے بعد جتنی تعریفیں اس کی کر کر کے روتی ھے ان میں سے 2٪ بھی اس کی زندگی میں کر لیتی تو اس کا گھر جنت نظیر ھوتا اور شاید شوھر اتنی جلدی مرتا بھی نہ ،، اسی طرح بیوی کے مرنے کے بعد شوھر جو سسکتا پھرتا ھے کہ گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ھے ،کوئی پانی کو پوچھنے والا نہیں ، اور اپنی غلطیوں اور کوتاھیوں کا اقرار کرتا پھرتا ھے ، اس کا 10٪ بھی بیوی کی زندگی میں کرتا تو وہ اللہ کی بندی چین سے تو مرتی ،، اولاد جس قدر والدین کی موت کے بعد ان کے احسانات کا اعتراف کرتی پھرتی ھے ،کیا یہی دو بھول سننے کو ماں باپ ترس کر نہیں مر گئے ؟ الغرض ھم نے زندہ کی تعریف نہیں کرنی کہ مبادا معاشرہ ان سے استفادہ نہ کر لے ،، حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے عشرہ مبشرہ کی زندگی میں ھی ان کو جنت کی بشارت دے دی تھی ، اللہ پاک نے صحابہؓ کی تعریف میں قرآن بھر دیا اور وہ ابھی زندہ تھے ، اللہ اور رسول ﷺ کی انہی تعریفوں کو دلیل بنا کر ھی خلفاء راشدین کا انتخاب کیا گیا تھا امارت کے لئے ،، خدا را جو انسان کوئی صلاحیت رکھتا ھے اس کے جیتے جی بیان کرو دو،،،،،،،،مرنے کے بعد تو صرف اس کا مزار بنا کر چوما چاٹا جا سکتا ھے جو کہ گڑھی خدا بخش سے لے کر گھمگول شریف تک سب جگہ ھو رھا ،،،