مسئلہ غلامی !!

اللہ پاک نے ھر وہ برائی حرام کر دی جو اسلام کا اندرونی معاملہ تھا ،،،، جس میں شراب ،جؤا ، زنا ، وغیرہ سب شامل ھے ،،،،،،،،،،،،
غلامی اسلام کا داخلی مسئلہ کبھی تھا بھی نہیں اور نہ غلام بناؤ کا کوئی حکم دیا گیا ھے ،،،،،،،،،، البتہ قیدی بنانے کا حکم دیا گیا ھے ،اور لفظ اسیر قرآن حکیم میں بار بار استعمال ھوا ھے ،،
غلامی دو طرفہ معاملہ تھا ، اگر اسلام کے حرام کرنے سے فریقِ مخالف بھی اس کو حرام سمجھ لیتا تو اللہ ایک دن بھی نہ لگاتا اس کو حرام کرنے میں ،،،،،،،،،
اگر مسلمانوں پہ یکطرفہ طور پہ حرام کر دیا جاتا اور باقی ساری دنیا کے لئے حلال رھتا تو کافروں کی موج ھو جاتی اور وہ بٹیروں کی طرح مسلمانوں کا شکار کرتے پھرتے ،، انہیں پتہ ھوتا کہ مسلمانوں پر تو غلام رکھنا حرام کر دیا گیا ھے انہوں نے تو آزاد کرنا ھی کرنا ھے البتہ ھم غلاموں کی تجارت کریں گے یوں منڈیاں مسلمان غلاموں سے بھر جاتیں اللہ پاک بڑا حکیم ھے اس نے ایک طرف تو قسم توڑنے کے کفارے سے لے کر بیوی کو ماں کہنے یا روزہ توڑنے یا قتلِ خطا تک کے لئے غلام کی آزادی ایک شرط کے طور پہ رکھ دی ،، جھنم سے اپنی گردن چھڑانے کے لئے غلام آزاد کرنے کی تلقین کی ،، لونڈیوں سے شادی کی ترغیب دی ،، مرد غلاموں سے معاہدہ کر کے انہیں آزاد کرنے کا حکم دیا کہ ان کے ساتھ ایک رقم طے کر کے ان کو آزاد کر دو تا کہ وہ کما کر تمہاری طے کردہ رقم تمہیں دے کر آزادی حاصل کر لیں ، اپنی زکوۃ بھی ان کو دینے کی تلقین کی اور صدقے کے طور پر بھی مالی مدد کر کے ان کی رقم جلد از جلد پوری کرنے کی ترغیب دی ،، لونڈی کی اولاد کو آزاد قرار دیا اور والد کا مکمل وارث ،، بنو عباس کے مشہور خلفاء لونڈی کی ھی اولاد تھے ،، جب دنیا نے بھی اس کو حرام قرار دے دیا ھے تو اب اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد یہ اسلام میں بھی حرام قرار پا چکی ھے ” اے ایمان والو اپنے معاہدے وفا کرو "( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ) کی شق کے تحت ،، اب ساری دنیا قیدی قیدی کھیلتی ھے جس میں ھم بھی شامل ھیں ،، یہ الگ بات ھے کہ آج کے قیدی کو بھی وہ حقوق حاصل نہیں جو کبھی اسلام نے غلام کو دے رکھے تھے ،
پہلے گزارش کر چکا ھوں کہ اگر اس زمانے میں عورتوں کو کیمپوں میں رکھا جاتا تو لوگوں کے پاس اپنا پیٹ بھرنے کو کچھ نہیں تھا ان کو بٹھا کر کون کھلاتا ؟ کھلا چھوڑ دو تو باھر اتنے وسائل نہیں تھے کہ یہ لوگ روزی روٹی کما سکیں کیوں کہ نہ انڈسٹری تھی اور نہ سڑکیں اور پلازے بنتے تھے کہ جہاں وہ مزدوری کر کے پیٹ پالتے ،پھر انہوں نے ڈاکے ڈال کر روٹی کھانی تھی ،، عورت اور مرد قیدی دونوں انسان تھے ان کی جنسی ضرورت بھی ایک حقیقت تھی ،، اس کا ایک انتظام تو وہ تھا جو ھٹلر نے کیمپوں میں کیا ،، دوسرا پاکیزہ نظام شریعت کا تھا کہ غلاموں اور لونڈیوں کو آپس میں بیاہ دیا جائے ،، یا مالک خود اسے ام ولد بنا لے ،،،
مسئلہ غلامی اور اسلام !
ابتدا میں ھی اگر ھم چند باتیں ذھن میں رکھ لیں تو آگے کی بات سمجھنا آسان ھو جائے گا !
1 – اسلام سے سلیبس کے اندر کا سوال کیا جائے آؤٹ آف سلیبس سوال بد دیانتی ھو گی !
2- اسلام غلامی کا موجد یا فاؤنڈر نہیں ھے ! البتہ اس کا پالا صدیوں سے قائم غلامی کے ادارے سے پڑا جو اس قدر قوی تھا کہ پوری دنیا کی معیشت اس نظام پر چلتی تھی،قوموں کی قومیں غلام بنائی جا رھی تھیں جو دوسری قومیں کی معیشت کی ریڑھ کر ھڈی بنی ھوئی تھی !
3- جس طرح تیل کے لئے کچھ معروف ممالک اور علاقے ھیں ، اسی طرح غلامی کے لیئے بھی مخصوص علاقے اور ممالک تھے،جہاں سے ھرنوں کی طرح انسانوں کا شکار کر کے انہیں غلام بنایا جاتا تھا ! اور یہ کام قبل مسیح سے جاری و ساری تھا،، امریکہ اور یورپی ممالک کی بنیادوں میں غلاموں اور لونڈیوں کا خون اور عصمتیں دفن ھیں !
4 – اسلام جب آیا تو غلام اسی طرح ایک بین الاقوامی کرنسی تھے،جس طرح ڈالر اور یورو ھیں !
اصل سوال یہ بنتا ھے کہ اسلام نے اس عفریت کا سامنا کس طرح کیا ؟
اسلامی اقدامات کے نتیجے میں غلامی کا ادارہ زوال پذیر ھو کر ختم ھو گیا یا اسلامی اقدامات نے اس بزنس کو طاقتور بنایا ؟؟؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اسلام اگر آتے ھی تمام غلاموں اورلونڈیوں کو آزاد کر دیتا خاص کر اس دور میں جب کہ عرب دنیا میں روزی روٹی کے ذرائع نہایت قلیل تھے، اور قبائل دوسرے قبیلوں کو تاراج کر کے اپنی معیشت چلاتے تھے، ھر آنے جانے والے کو پکڑ کر غلام بنا لیا جاتا ،، دو آدمی دوست بن کر چلتے اور راستے میں قوی کمزور کو مغلوب کر کے اسے باندھ کر اگلی بستی میں غلام کی حیثیت سے بیچ جاتا،، ان حالات میں ان غلاموں کو بیک قلم آزاد کر کے قبائل کو کرائے کے ھزاروں قاتل فراھم کرنا اور علاقے میں انارکی پھیلانا ھوتا ! نیز لونڈیوں کے پاس روٹی کے لئے پیشہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ھوتا،، کیونکہ ان غلاموں اور لونڈیوں کی اخلاقی اور دینی تربیت تو ھوئی نہیں تھی لہذا ان کا فوراً ان قباحتوں میں مبتلا ھو جانا یقینی تھا، اب بھی جب حکومتیں بہت سارے لوگوں کو کام سے نکال دیتی ھیں تو اسٹریٹ کرائمز میں فوری اضافہ دیکھنے کو ملتا ھے،، جن بستیوں کے قریب آ کر جھگیوں والے آکر جھگیاں لگاتے ھیں،،وھاں کی اردگرد کی بستیوں کے لونڈے اور اوباش ان جھگیوں کے گرد ھی منڈلاتے رھتے ھیں اور اخلاقی گراوٹ کا نظارہ کھلم کھلا نظر آتا ھے ! کیریاں اور رکشے رات بھر بکنگ پر آتے جاتے دیکھے جا سکتے ھیں !
اسلامی حکمت !
اسلام سے پہلے غلام بنانے کے بہت سارے راستے تھے، جبکہ رھائی کا صرف ایک رستہ تھا اور وہ بھی سوئی کے ناکے کی طرح تھا یعنی یہ کہ مالک راضی ھو کر آزاد کر دے،اور چونکہ انسان میں لالچ کا مادہ رکھا گیا ھے لہذا سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو کون چھوڑتا ھے !
اسلام نے سب سے پہلے Inlets کو محدود کر کے ایک کر دیا ! جبکہ Outlets کو کھول دیا اور اس کے مختلف طریقے مشروع کر دیئے،مثلاً قتلِ خطا کی صورت میں غلام کو آزاد کرنا ! جھوٹی قسم کے کفارے میں غلام آزاد کرنا، بیوی کو ماں کہہ دینے پر غلام آزاد کرنا،، روزے کی حالت میں ھمبستری پر غلام آزاد کرنا، اگر غلام چاھے تو اپنے آقا سے رقم اور وقت طے کر کے مکاتبت کر لے اور آزاد ھو جائے اس صورت میں مالک کو کہا گیا کہ وہ اپنی زکوۃ بھی غلام کو دے سکتا ھے،، اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دی گئ کہ وہ اس کی مدد کریں !
اس کے علاوہ مخیر اور نیک لوگوں کو اللہ پاک نے ترغیب دی کہ وہ جانیں آزاد کرا کر اپنی گردن عذاب سے بچا سکتے ھیں !
نیز دنیا میں تو غلام کی اولاد بھی غلام در غلام ھوتی تھی یوں غلام اصل میں غلام پروڈیوس کرنے کی فیکٹریاں تھے، جن کی موجودگی میں غلامی کا ختم ھونا ناممکن بات تھی، امریکہ میں بھی اسے 1865 میں غیر قانونی قرار دیا گیا ھے !
مگر اسلام نے غلام کی اولاد کو ایک مکمل آزاد انسان کا رتبہ دیا ! نیز لونڈی جب کسی کو دی جاتی تھی تو وہ اس آدمی کی نصف بیوی ھوتی تھی، یعنی چونکہ وہ اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتی تھی ،، اس وجہ سے اسے لونڈی قرار دیا گیا،ورنہ اس کی اولاد ھو جانے کے بعد وہ آقا کی ام ولد یعنی بچے کی ماں بن جاتی تھی اور اس کا بچہ اپنے باپ کا نسب اور قبیلے کا نام پاتا تھااور اس کا شرعی وارث ھوتا تھا !،اولاد کے بعد ماں بیٹے کو جدا نہیں کیا جا سکتا تھا اور ام ولد کی فروخت منع تھی، یوں غلاموں کے یہاں آزاد پیدا ھوتے گئے اور غلام ختم ھوتے چلے گئے !
ایک لونڈی جب کسی کو دی جاتی تو صرف وھی اس کا جنسی پارٹنر ھو سکتا تھا،، جبکہ کافروں کے یہاں وہ وراثت میں تقسیم ھو کر سب کی جنسی بھوک مٹاتی تھی ! اور وہ اس سے پیسہ کمانے کے لئے پیشہ بھی کراتے تھے،جسے اللہ نے ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء،، کے حکم سے منع کر دیا !
جب آقا اپنی لونڈی کو کسی غلام سے بیاہ دیتا تھا تو پھر وہ اس کے لئے مطلقاً حرام ھو جاتی تھی اور صرف اسی غلام کی بیوی کی حیثیت سے رھتی تھی اور ان کی اولاد آزاد ھوتی تھی !
جو لوگ غلامی کا یورپی تصور اور مثال دیکھتے ھیں اور اسے گوگل سرچ سے لے کر دیکھتے ھیں وہ اسلام کے تصورِ غلامی کو سمجھ ھی نہیں سکتے !
سوال یہ ھے کہ اسلام نے چائنا سے لےکر سارے افریقہ پر اور ھندوستان سے لے کر پورے اسپین اور نصف فرانس تک صدیوں حکومت کی ھے، اس لحاظ سے دنیا کی منڈیاں غلاموں سے بھری ھوئی ھونی چاھئیں تھیِ ! کیا وجہ ھے کہ دنیا میں یورپین اور امریکی اور اسکینڈے نیوین ملکوں کے غلاموں کی داستانیں تو ملتی ھیں،، مسلمانوں کے بنائے ھوئے غلاموں کا کوئی سراغ نظر نہیں آتا !
اسلامی حکمتِ عملی !
اسلامی حکومت سب سے پہلے ان ھی لوگوں کو اپنی کسٹڈی میں لیتی ھے جو اسے میدانِ جنگ میں ملتے ھیں،، وہ بستیوں اور گھروں کی تلاشی لے کر غلام نہیں بناتی !
ان قیدیوں کا تبادلہ پہلی ترجیح ھوتی ھے ! تبادلے مکمل ھونے کے بعد تاوان دے کر قیدی چھڑانے کی باری آتی ھے اور پھر احسان کرتے ھوئے اللہ کی خاطر چھوڑنے کی باری آتی ھے،،
اب اگر مسلمانوں کو تو پابند کر دیا جائے کہ تم قیدی نہیں رکھ سکتے ! تو ظاھر ھے دشمن کو تو آسانی ھو گی کہ انہوں نے تو ھمارے قیدی چھوڑنے ھی چھوڑنے ھیں،، البتہ ھم آزاد ھیں اور پیسے لے کر ان کے قیدی چھوڑیں گے یا چھوڑیں گے ھی نہیں اور ان کو غلام بنائیں گے جیسا کہ اس وقت دنیا کا رجحان تھا،،لہذا اللہ نے غلامی کو بیک قلم حرام نہ کر کے مسلمانوں کے ھاتھ باندھنے اور اسلام دشمنوں کے ھاتھ مضبوط کرنے سے اجتناب کیا ھے !
البتہ اب یہ بات طے ھے کہ ساری دنیا سے غلامی کا رجحان ختم ھو جانے کے بعد صرف قیدیوں کا ھی کانسیپٹ باقی ھے،،غلامی کا ادارہ بین الاقومی ضمیر کے مطابق ختم ھو کر رہ گیا ھے ! اسلام نے نہ پہلے اسے ایجاد کیا تھا اور نہ اب اس کو reborn کرنا چاھتا ھے !
لونڈی کے بعض پہلوؤں سے ھمیں ایک اور سبق بھی ملتا ھے کہ شادی شدہ لونڈی کو آزاد ھوتے ھی جو سب سے پہلا تحفہ ملتا ھے وہ اس کا اختیارِ نکاح ھے ! وہ سب سے پہلا فیصلہ یہ کرتی ھے کہ اب وہ اس نکاح کو جاری رکھنا چاھتی ھے یا نہیں ! یہ حق اسے اسلام نے دیا اور حضرتِ بریرہؓ نے اسے نبیﷺ کے دربار میں استعمال کر کے دکھا دیا ،جب انہوں نے حضرت مغیث اپنا نکاح فسخ کردیا اور اس سلسلے میں یہ اسلام کی دی گئ بے مثل آزادی ھے کہ جس کی مثال دنیا کا کوئی مذھب پیش نہیں کر سکتا کہ۔۔ اللہ کا رسولﷺ اپنی بیوی کی آزاد کردہ لونڈی کو بھی اپنے صحابی سے نکاح برقرار رکھنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ جب آپ نے اس سے کہا کہ بریرہ تجھے اس شخص پر ترس نہیں آتا؟ تو اپنا نکاح جاری کیں نہیں رکھتی ؟ تو بریرہؓ نے پلٹ کر فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ کیا یہ آپ کا حکم ھے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ تیرے حق کو اپنے حکم سے ختم نہیں کرتا،، یہ تو صرف میری سفارش ھے! اس پر حضرت بریــرہؓ نے فرمایا پھر مجھے اس سفارش یا مشورے کی حاجت نہیں !
یہ تو ایک لونڈی کا آزاد ھوتے ھی پہلا حق تھا کہ نکاح اپنی مرضی سے کرے اس کے سارے اختیارات اور آپشنز آزاد ھو گئے تھے،، ھم لوگ جو اپنی بیٹی کی پسند اور ناپسند پوچھنا اپنی چودھراھٹ کی توھین سمجھتے ھیں اور بیٹی کا اپنی پسند بتانا ایک گستاخی سمجھتے ھیں،، کیا ھم نے آزاد پیدا ھونے والی کو ایک آزاد کردہ لونڈی کا حق دینا بھی پسند نہیں کیا ! ھمارا سارا زور استخارے اور پھر استخارے اور پھر استخارے پر ھوتا ھے،، دوسروں کی زندگی کے فیصلے دوسروں سے مشورہ کر کے ھوتے ھیں،، ذاتی معاملات پر استخارہ فرما لیجئے،،ویسے بھی آج کل ایک مثال بن گئ ھے کہ” جب عرب کہے کہ ان شاء اللہ تو اس کا مطلب ھوتا ھے کہ اللہ پکڑ کر ھی کرائے تو کرائے ویسے میں نے نہیں کرنا،، اور جب جماعت والے کہیں کہ مشورے میں رکھیں گے تو سمجھ لیں یہ کام نہیں ھونا اور جب لڑکی دیکھنے والی کہے کہ استخارہ کریں گے تو بے شک سمجھ لیں کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا !
لوگ ھمیشہ آزادی اور غلامی کے درمیان تقابل کرتے ھیں اور یہیں سے وہ ٹھوکر کھاتے ھیں !
تقابل موت اور غلامی کے درمیان ھے !
ایک شخص میدان جنگ میں مغلوب ھو جاتا ھے جہاں وہ بہت سے لوگوں کی جان لے چکا ھے ! مغلوب ھو جانے کے بعد وہ غالب کی مرضی کے تابع ھے ،غالب چاھے تو تلوار کے ایک وار سے اس کا سر اڑا دے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ، وہ اپنے ھر مرنے والے ساتھی کی موت کا ذمہ دار اس مغلوب شخص کو گردان سکتا ھے ! اس خونی ماحول میں جہاں ھر طرف کٹے پھٹے لاشے بکھرے پڑے ھیں،، شریعت آگے بڑھتی ھے اور اس غالب کے نفس میں رکھے لالچ کے دیئے کو جلاتی ھے ،، اس بٹن کو دباتی ھے ! اسے مت مار ،، اسے قید کر لے اور اپنے نفعے کا سامان کر ! اس کو مار کر تمہیں کیا ملے گا،، اسے بچا لے اور اپنے کام میں لے آ ،، شریعت اس کے اندر لالچ کی جوت جگاتی ھے کہ وہ اس ماحول کے خونی ٹرانس سے ایک دفعہ نکل آئے ! یہ ھے موت اور غلامی کا آپشن ،، مار دے یا غلام بنا لے ! آزادی یہاں کوئی آپشن نہیں ھے ! اسے یا مرنا ھے یا قید ھونا ھے ! یہاں جب آپ تقابل کریں گے تو آپ شریعت کو اس غلام کا حامی اور ساتھی پائیں گے جو اس نازک وقت میں مداخلت کر کے اس کی جان بچاتی ھے ،جب انسان سگی ماں کی بھی نہ مانے !
جب جنگ ختم ھوتی ھے وہ ماحول وہ خونی فضا ختم ھوتی ھے تو اب شریعت اسے آئستہ آئستہ غلام کو آزاد کرنے پر آمادہ کرتی ھے،، ٹھیک ھے تم نے اسے اپنے فائدے کے لئے قید کیا تھا،مگر فائدے بھی دو ھیں،، ایک عارضی اور فانی فائدہ ھے ، دوسرا دائمی اور باقی رھنے والا فائدہ ھے ! تو اسے آزاد کر کے آگے آخرت میں کیوں نہیں بھیج دیتا، کہ وھاں اسے پیش کر کے اپنی جان چھڑا لے،، یوں وہ بندہ بچ بھی جاتا ھے اور آزاد بھی ھو جاتا ھے !
اگر شریعت قید کرنا بیک قلم حرام قرار دے دیتی تو یقین جانیں میدان جنگ سے مغلوب قوم کا کوئی فرد زندہ نہ پلٹتا ! اور یوں زندگی کو کوئی دوسرا موقع نہ ملتا !
غلامی ماضی کا قصہ ھے !
مگر جب بھی اس پہ بات ھو گی تو الحمد للہ اسلام کا ذکر اچھے لفظوں سے کیا جائے گا ! جس نے کوئی قانون بنائے بغیر اخلاقی قوت کے ساتھ اس کا خاتمہ کر دیا،، غلاموں کو اس طرح آزاد معاشرے میں ضم کر لیا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ھے،، !
اللہ کے رسولﷺ نے غلام اور لونڈی کی عزتِ نفس کو مجروح ھونے سے بچانے کے لئے حکم دیا !
تم اپنے غلام کو اے میرے بندے کہہ کر مت پکارو ،، اور نہ ھی کسی کنیز کو اے میری بندی کہہ کر پکارے ،،تم سب اللہ کے بندے ھو،، تم انہیں ” ائے لڑکے اور اے لڑکی کہہ کر پکارا کرو !
انہیں آزاد بھی کیا تو ایسا عزت کا نام دیا کہ دنیا عش عش کر اٹھی،، آزاد ھونے والا غلام اپنے سابقہ آقا کا مولی ھوتا تھا،، مولی حذیفہ کا مطلب ھے حذیفہؓ کا آزاد کردہ غلام !
یہ غلام آزاد ھو کر بڑے بڑے جرنیل بنے طارق بن زیاد فاتح اسپین و جبرالٹر ، موسی بن نصیر کے آزاد کردہ غلام تھے ! بڑے بڑے عالم بنے ! یہ سارا نتیجہ اس حکمت عملی کا تھا جو رحمۃ للعالمین نے اپنائی تھی !
غلاموں اور لونڈیوں کے لئے دو آپشن سب سے پہلے تھے اور دو آپشن اس کے متبادل تھے !
1- پہلا آپشن تو یہ تھا کہ متعلقہ قبیلے سے بات کر کے اپنے قیدیوں کا تبادلہ کر لیا جائے !
2- دوسرا آپشن یہ تھا کہ ان کا تاوان لے لیا جائے اور ان کو آزاد کر دیا جائے !
اگر دشمن ان میں سے کوئی آپشن قبول نہ کرے تو پھر دی گئ مہلت کے بعد دو مزید آپشن تھے !
1- ان قیدیوں کو اجتماعی حراستی مراکز میں رکھا جائے، جہاں نہ تو ان کی کوئی اخلاقی تربیت ھو سکے گی،، نیز ان میں اخلاقی قباحتوں کی افزائش ھو گی جس کا مشاھدہ یورپ کے حراستی concentration camps میں کیا گیا،جہاں ھم جنس پرستی اور اس سے متعلق بیماریوں ،نیز صفائی ستھرائی کے فقدان کی وجہ سے ھزاروں لوگ لقمہ اجل بنے اور جو بچ گئے وہ دو ٹانگوں پر چلنے والے حیوان ھی تھے،ان کو انسان کہنا ھی انسانیت کی توھین تھی !
پھر یہ کہ تازہ تازہ اسلامی ریاست جو خود مالی مشکلات کا شکار تھی وہ ان کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی ! اگر لوگوں پر یہ مالی بوجھ ڈالا جاتا اور بدلے میں ان کو کوئی سہولت نہ دی جاتی تو یہ مسلمان معاشرے پر زیادتی تھی !
2- ان قیدیوں کو گھروں میں بانٹ دیا جائے ! اس کے نتیجے میں ریاست اخراجات سے بچ جائے گی،،لوگ جو کچھ خرچیں گے اس کے نتیجے میں ان قیدیوں کی خدمات سے فائدہ بھی اٹھائیں گے !
قیدیوں کو گھر کا ماحول ملے گا،، نماز، روزہ ، قرآن وہ یہ سب کچھ سنیں گے اور دیکھیں گے،جس کے نتیجے میں ان کی اخلاقی تربیت بھی ھو گی اور مسلمان ھونے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے !
غلاموں اور لونڈیوں کے آپس میں نکاح سے دونوں کی نفسیاتی اور بدنی ضرورتیں بھی پوری ھوتی رھیں گی ،، جبکہ پیدا ھونے والے بچے آزاد قرار دئیے گئے !
آقا کے ساتھ لونڈی کے تعلق کے نتیجے میں پیدا ھونے والی اولاد کو ایک عالی نسب مل جائے گا اور کل وھی لونڈی کسی قریشی کی ماں کہلائے گی،جیسے ھارون الرشید کی ماں لونڈی ھوتے ھوئے بھی تین عباسی خلفاء کی ماں تھی !
پھر سب سے بڑی بات یہ کہ قیدی کو موقع دیا گیا کہ وہ خود مزدوری کر کے اپنا تاوان ادا کر کے رھا ھو جائے ! اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکاتبت کو ترجیح دیں،، یعنی غلام کے ساتھ پےمنٹ طے کر کے قسطیں مقرر کریں اور اسے آزاد کر دیں،،اھل ایمان سے کہا گیا کہ وہ اپنی زکوۃ گردنیں چھڑانے میں استعمال کریں،،خود سلمان فارسیؓ نبی پاک کے آزاد کرائے ھوئے غلام تھے،جن کے بدلے نبی پاک نے چھ سو کھجور کے درخت اور غالباً 30 اوقیہ سونا دیا تھا !