جب مذھبی دھشت گردی سے ھمارے مدارس ، مساجد اور علماء کا کوئی تعلق نہیں ھے ،،،،،،،،،،، تو پھر ان کو مذھب کے نام پر دھشت گردی کرنے والوں کے بارے میں ترمیم پہ اتنی تشویش کیوں لاحق ھے ؟ کیا ترمیم میں مساجد یا مدارس کا نام موجود ھے ؟ پاک فضائیہ کے بیس پہ حملہ کر کے اس کے نایاب طیاروں کو نشانہ بنانے والے اور اربوں ڈالرز کا نقصان کرنے والوں کا محاسبہ اگر ھوتا ھے تو اس میں مدارس کو کیا خفگی ھے ؟ کیا نبئ کریمﷺ فوری فیصلہ نہیں کرتے تھے ؟ کیا خلفاء راشدین ایک دن میں فیصلہ نہیں کرتے تھے ؟ کیا عباسی اور اموی خلفاء کھڑے کھڑے بڑے بڑے اماموں کے سر اتروا نہین دیتے تھے ؟ کیا دس دس سال ، بیس بیس سال مقدمے چلانا سنت نبوی ھے جس کا دفاع علماء کو سونپا گیا ھے ؟
وکلاء کا واویلا تو سمجھ میں آتا ھے کیونکہ ان کی روٹی روزی کا مسئلہ ھے ، وکیل وہ بلا ھے جس کے مقدمے کا ریٹ مقرر نہیں ،، یہ مرغا دیکھ کر قیمت لگاتے ھیں ،، ان کا کوئی ایمان نہیں قاتل زیادہ پیسے دے تو یہ اس کا دفاع کرتے ھیں حالانکہ جانتے ھیں کہ وہ قاتل ھے ،جھوٹی گواھیاں بناتے ھیں جھوٹے بیان کی ریہرسل کراتے ھیں، کراس میں جھوٹے پرچے بنواتے ھیں تا کہ مدعی کو صلح پہ مجبور کیا جا سکے ،، یہ فیس کی رسید جاری نہیں کرتے ،، ان کا حال ٹیکسی کا سا ھے ، مسجد لے جاؤ یا کلب بس ان کی منہ بولی قیمت دے دو ،، بے ضمیری ان پر ختم ھے ،ذرا شرمدگی نہیں ھوتی ان کو ،، ھم نے قتل کے کیس میں راجہ ریٹائرڈ جسٹس عزیز بھٹی صاحب کو وکیل کیا فیس ایڈوانس میں لے کر وہ فوت ھوگئے ایک پیسہ واپس نہیں کیا گیا ،الٹا فائل ان کے دفتر سے واپس لینا بھی مسئلہ بن گیا !
اصولاً مقرر ھونا چاھئے کہ سول کیس کی کیا فیس ھے اور قتل کیس کی کیا فیس ھے تا کہ مقتول کے ورثاء کو کچھ تو آسانی ھو ، چوھدری اعتزاز اور لطیف کھوسہ صاحبان نارمل قتل کا کیس بھی 1996 میں 20 لاکھ میں پکڑتے تھے ، اب پتہ نہیں کیا حشر ھو گا ، لطیف کھوسہ صاحب ھمارے مخالف وکیل تھے