بیرون ممالک میں ایک دفتر میں مختلف مذاھب اور مختلف مکاتبِ فکر کے لوگ اکٹھے کام کرتے ھیں ،،ان میں ھندو عیسائی ، مسلم کا کامبینیشن تو چلتا ھی رھتا ھے ،، مگر ساتھ بریلوی ،دیوبندی، شیعہ سنی ، یا حنفی اور غیرمقلد کا جوڑا بھی پایا جاتا ھے ،،، یہ سب دوستی کی فضا میں رھتے ھیں- دفتر کے پریئر ھال میں نماز پڑھاتے وقت کبھی ایک آگے ھو جاتا ھے تو کبھی دوسرا انہیں کبھی اپنی نماز کی فکر نہیں ھوتی ،جب تک اپنے اپنے فرقے کے مولوی صاحب سے بچے رھیں ،،،، جو جتنا مولوی صاحب کے قریب ھوتا جاتا ھے وہ زیادہ زھریلا ھوتا جاتا ھے ،، یہانتک کہ نفسیاتی مریض بن جاتا ھے ،،،،،،،،،،،،،
پاکستان میں ایک غیر مقلد دوست اپنے حنفی دوست سے ملنے پہنچ گیا – یہ صاحب اپنے غیرمقلد دوست کو ساتھ لے کر اپنے مکتبِ فکر کی مسجد میں چلے گئے، غیر مقلد بھی اسی دوستی کی فضا کا عادی تھا لہذا ساتھ چلا گیا ، مولوی صاحب نے خطبہ ختم کیا تو جہاں یہود و نصاری کے فتنے سے پناہ مانگی وھیں فتنہِ غیر مقلدیت سے بھی گڑگڑا گڑگڑا کر دعا مانگی ،، غیر مقلد اس دوست کا منہ دیکھ رھا تھا اور ساتھ آمین آمین بھی کر رھا تھا ،یہ صاحب کہتے ھیں کہ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ اٹھ کر اس مولوی سے کہوں کہ ” شٹ اپ ” یا اٹھ کر مسجد سے نکل جاؤں ،، یہ اللہ کی مسجد نہیں فرقے کا جماعت خانہ تھا ، امام صاحب دین کے مبلغ نہیں بلکہ مسلک کے خادم تھے اور ان کو اسی خدمت کی تنخواہ ملتی تھی ،،،،،،،،،،،،
ساؤتھ افریقہ میں شیعہ کی تعداد تقریباً نہ ھونے کے برابر ھے لہذا یہ اپنے اھلسنت بھائیوں کی مسجد میں ھی نماز پڑھتے ھیں ،، ایک دوست کہتے ھیں کہ میرے ایک شیعہ دوست جن کو میں جانتا تھا میں نے دیکھا کہ وہ بھی میرے ساتھ ھی بیٹھے ھوئے تھے ،،، عربی خطبہ ختم ھوا تو آخر میں دعا کا سیگمنٹ شروع ھوا اور مولوی صاحب نے یہود و نصاری کے ساتھ ساتھ شیعہ کے شر سے بھی خوب گڑگڑا کر پناہ مانگی ،، میں جانتا تھا کہ میرا دوست کس اذیت سے گزر رھا ھے ،مگر میرے بس میں نہیں تھا کہ اٹھ کر مولوی صاحب سے کہوں کہ اللہ تمام انسانیت کو آپ جیسوں کے شر سے پناہ دے جو بندوں کو اللہ سے دور کرتے ھیں اور اللہ کے گھروں پر قضہ کر کے بیٹھے ھیں ،انہی جیسوں کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ” تم نے خدا کے گھروں کو بھیڑیوں کے بھِٹ بنا کر رکھ دیا ھے ،،
یہ مساجد اور ان کے ( Counter Productive ) ھو چکے ھیں جس کی وجہ سے معاشرے میں اصلاح کی بجائے فساد غالب ھے ، محبت کی بجائے نفرت کا چل ھے ،، ھمارے یہاں شیعہ سمیت ھر مسلک کے لوگ جمعے اور جماعت میں شریک ھوتے ھیں ،یہانتک کہ ھندو اور عیسائی کو بھی اجازت ھے کہ وہ ھمارے جمعے کے اجتماع میں مسجد میں بیٹھ کر درس سن سکتا ھے ،،
ساؤتھ افریقہ میں شیعہ کی تعداد تقریباً نہ ھونے کے برابر ھے لہذا یہ اپنے اھلسنت بھائیوں کی مسجد میں ھی نماز پڑھتے ھیں ،، ایک دوست کہتے ھیں کہ میرے ایک شیعہ دوست جن کو میں جانتا تھا میں نے دیکھا کہ وہ بھی میرے ساتھ ھی بیٹھے ھوئے تھے ،،، عربی خطبہ ختم ھوا تو آخر میں دعا کا سیگمنٹ شروع ھوا اور مولوی صاحب نے یہود و نصاری کے ساتھ ساتھ شیعہ کے شر سے بھی خوب گڑگڑا کر پناہ مانگی ،، میں جانتا تھا کہ میرا دوست کس اذیت سے گزر رھا ھے ،مگر میرے بس میں نہیں تھا کہ اٹھ کر مولوی صاحب سے کہوں کہ اللہ تمام انسانیت کو آپ جیسوں کے شر سے پناہ دے جو بندوں کو اللہ سے دور کرتے ھیں اور اللہ کے گھروں پر قضہ کر کے بیٹھے ھیں ،انہی جیسوں کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ” تم نے خدا کے گھروں کو بھیڑیوں کے بھِٹ بنا کر رکھ دیا ھے ،،
یہ مساجد اور ان کے ( Counter Productive ) ھو چکے ھیں جس کی وجہ سے معاشرے میں اصلاح کی بجائے فساد غالب ھے ، محبت کی بجائے نفرت کا چل ھے ،، ھمارے یہاں شیعہ سمیت ھر مسلک کے لوگ جمعے اور جماعت میں شریک ھوتے ھیں ،یہانتک کہ ھندو اور عیسائی کو بھی اجازت ھے کہ وہ ھمارے جمعے کے اجتماع میں مسجد میں بیٹھ کر درس سن سکتا ھے ،،