،،،،،،،،،،،، اور عوام کی خوش گمانیاں !!
ٹوپی ھینگر پہ لٹکی ھوئی تھی ،،،،،،،،،، کوئی کاکروچ جو کہ تخلص ” لال بیگ ” رکھتا تھا اس میں داخل ھو کر استراحت فرما رھا تھا ،،،،،،،،،،،،،،،
ھم نے حسبِ معمول ٹوپی اٹھائی اور سر پہ رکھ کر پائیلٹ گیٹ سے مسجد میں داخل ھوئے ،،
نمازی انتظار میں تھے ھم نے جاتے ھی تکبیر پڑھی جس کی وجہ سے کاکروچ کی نیند میں خلل پڑا ،،
ھم نے ابھی اللہ اکبر کہہ کر ٹھیک سے ھاتھ بھی نہیں باندھے تھے کہ کاکروچ نے سر پہ چھلانگ لگا دی ،،،،،،،
حسب عادت ھمارا طراہ نکل گیا ،، ادھر ھم نے قرأت شروع کی ادھر اس نے سر پہ جوگنگ شروع کر دی ،،
کاکروچ کے ساتھ ھماری ابوظہبی میں پہلی ملاقات کے دن سے ھی نفرت کا رشتہ قائم ھے جو کہ 24 جون 1977 کو ھوٹل کے اسٹور میں ھوئی تھی جس کی روداد قلمبند کی جا چکی ھے ،،،،،،
کاکروچ نے جب جب ھمارے سر پہ وارم اپ شروع کیا تو ھماری آواز میں تھرتھراھٹ آتی چلی گئ ،جب وہ ٹوپی پہ چڑھتا تو آواز ٹھیک ھو جاتی ، جب اوپر سے چھلانگ لگا کر سر پہ گرتا تو ھماری آواز بھرا جاتی ،، بعض اھل ایمان نے اسے ھماری رقت قلبی جانا اور ان پر بھی رقت طاری ھو گئ ،،،،،،،،،، چند سسکیاں بھی سنائی دیں ،، ھمارا بس چلتا تو ھم دھاڑیں مار کر روتے مگر ،،،،،، اس وقت ساری توجہ اس طرف تھی کہ قرأت ٹھیک ھو جائے ،، ھم احتیاط سے رکوع میں گئے کہ کاکروچ اس کو اپنی توھین سمجھ کر کچھ زیادہ ھی ایکشن نہ لے لے اور سر کو کھود کر نکلنے کی کوشش شروع نہ کر دے ،، بال ھم ویسے ھی چھوٹے رکھتے ھیں ،، رونگٹے کھڑے تھے ، اس کے دوڑنے سے طبیعت میں ھیجان پیدا ھوتا ،،، رکوع میں تو کچھ خاص نہ ھوا مگر سجدے میں کاکروچ واقعی غصے میں آ گیا ،، ھم نے امام مالک کو یاد کیا جن کو بچھو نے پتہ نہیں کتنے ڈنگ مارے تھے ،، قبر کے سانپ کو بھی یاد کر لیا اور جھنم کے بچھو کو بھی مگر اس وقت سب پہ غالب وہ کاکروچ ھی لگ رھا تھا جو عابدہ پروین کی طرح سوھنے یار دی کڑہولی بھر رھا تھا ،،،،،، دوسری رکعت میں بھی ھماری آواز کا رونا اور پیچھے والوں کا سسکنا جاری رھا ،، بڑی مشکل التحیات پوری کی ،، سلام پھیرا اور جھٹ سے دو ٹشوز ڈبے سے کھینچے اور محراب کے دروازے سے باھر چھلانگ لگا دی ،،،،،،، لوگوں کا حسن ظن یہی تھا کہ قاری صاحب ھم سے آنسو چھپانا چاھتے ھیں ،،،،،،،، سبحان اللہ لوگ بھی کتنے خوش گمان ھوتے ھیں مولوی کے بارے میں ،، وہ قضا بھی پڑھ رھا ھو تو لوگ سمجھتے ھیں اشراق پڑھ رھے ھیں ،،،،،
ھمارے دوست جناب حاجی غلام مصطفی مرحوم اللہ پاک انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ، ھمارے مخالفین میں ھوا کرتے تھے اور جہاں تک ھمارے اسپیکر کی آواز جاتی تھی وھاں تک وہ نماز جمعہ نہیں پڑھتے تھے بلکہ دور کی مسجد میں جا کر پڑھا کرتے تھے کہ اس وھابی کی آواز بھی کانوں میں نہ پڑے ،،،،،،،،،،،مگر اچانک وہ دونون بھائی نہ صرف ھماری مسجد میں جمعہ پڑھنے لگ گئے بلکہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ ھماری مسجد میں ھی ڈیرہ لگا لیا ،،،،،، کافی سال بعد انہوں نے اصل صورتحال بتائی کہ ان کی نفرت محبت میں کیسے تبدیل ھوئی ،،،
کہنے لگے قاری صاحب آپ اسلام آباد سے آ رھے تھے اور ھم بھی اسی فلائیٹ میں تھے ،، ھم نے دیکھا کہ آپ نے سیٹ پہ بیٹھتے ھی اپنی قراقلی کھسکا کر آنکھوں پہ کر لی اور نہ ھی ائیر ھوسٹس کو دیکھا نہ کسی اور عورت کی طرف یہانتک کہ آپ نے کھانے سے بھی انکار کر دیا ،،، میں نے عارف سے کہا اصلی مولوی ایسے ھوتے ھیں ، اس کے بعد ھم آپ کے مستقل نمازی بن گئے ،،،،،،
جبکہ اصل صورتحال یہ تھی کہ مجھے دردِ شقیقہ کا زبردست اٹیک تھا ، گرم پانی تو دستیاب نہیں تھا ،میں نے قراقلی کو کھسکا کر ناک پہ رکھا اور گرم سانس کے ساتھ اسے پریشر ککر کی طرح گرم کر لیا ،گرم گرم سانس جب ماتھے پہ لگتی تو درد میں افاقہ ھوتا چلا گیا ،،،،، یہ بات میں نے ان دونوں بھائیوں کو بتا دی کہ بھائی میں اتنا نیک نہیں ھوں جتنا آپ نے سمجھ رکھا ھے ،،،،،
من آنم کہ من دانم ،،،،،،،،،