مغالطے

میری کوٹھیاں میرے پلازے میرے پلاٹ میرا بینک بیلنس سب میرے لئے ہے آپ پر احسان کیسا؟ میری نمازیں میرے نوافل میرے اذکار میری داڑھی میرا عمامہ اور ٹخنوں سے اوپر میری شلوار 100 فیصد میرے اپنے آپ کی قبر ٹھنڈی کرنے اور جنت کمانے کے لئے ھے پھر آپ پر احسان کیسا؟ میں کیوں چاھتا ھوں کہ آپ میرے سامنے نظر جھکا کر رکھیں؟ میں کیوں امید رکھوں کہ میں جس کو جنتی قرار دوں آسمان والا اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے؟ یہ جنت اور جھنم کے ٹکٹ جو میں بانٹتا ھوں یہ میری نمازوں کے ساتھ پروموشن کے طور پر الله مجھے دیتا ھے؟ کیا ابلیس نے بھی اپنے سجدوں کے زور پر آدم علیہ السلام کے مقام کا تعین کرنے کی غلطی نہیں کی تھی؟
اگر میرے پلازے اور کوٹھیاں مجھے یہ حق نہیں دیتیں کہ میں جھونپڑی والے کو قتل کروں . میرا تھری پیس سوٹ مجھے حق نہیں دیتا کہ پھٹے کپڑے والے کو بس سے اتار کر دس تھپڑ اس کے منہ پر مار کر اسے ذلیل کروں تو میری نمازیں مجھے یہ حق کیسے دیتی ہیں کہ میں بےنمازی کو قتل کروں یا کلین شیو کو بس سے اتار کر اس کے چہرے پر دس تھپڑ مار کر سمجھوں کہ اس کی تذلیل سے میرا آخرت کا بیلنس بڑھ گیا ھے؟ ؟؟
انسان کا مقام اللہ کے یہاں اس بات سے بھی طے ھوتا ھے کہ اس کے چلے جانے سے کتنے چولہے بجھ گئے ہیں. کتنے بچوں کی فیس اور کتنے مریضوں کی دوا کا نقصان ھوا ھے. اللہ کو محبوب وہ ھے جو اس کی مخلوق کے لئے زیادہ نفع رساں ھے. سوچیں آج ھماری آنکھیں بند ھو جائیں تو اس کے جھٹکے کہاں کہاں محسوس کئے جائیں گے؟ اپنے گھر والے تو سب کی کمی محسوس کرتے ہی ہیں. یہ تو کوئی کمال نہیں! !
کبھی آپ سخت بیمار ھوئے ھوں اور آپ کا دھیان گھر گھر بھٹکا ھو کہ فلاں کا کیا بنے گا ؟ فلاں کے بچوں کی فیس کون دے گا ، فلاں کا علاج چل رھا تھا ، فلاں کا منتھلی خرچہ جا رھا تھا ،، کبھی سوچ نے یہ سفر کیا ھے ؟ یہ سوچیں کہیں ناپی تولی جا رھی ہوتی ہیں ،، اللہ پاک نے سورہ النساء میں کیا ھی پیارا جملہ استعمال فرمایا ھے کہ مرنے والے کا دل کھول کر دکھا دیا ھے کہ وہ مرتے وقت کیا سوچ رھا ھوتا ھے ،
[ولیخش الذین لوترکوا من خلفهم ذریه ضعافا خافوا علیهم فلیتقواالله و لیقولوا قولا سدیدا] اولاد والوں کو تو یتیم کا مال کھانے سے ڈرنا چاھئے اس لئے کہ ان پر جب موت کو جب موت کا خدشہ لاحق ھوتا ھے تو اپنے کمزور بچوں کے مستقبل کے بارے میں کس قدر خوفزدہ ھوتے ہیں ، پس ان کو چاہئے کہ اللہ سے ڈریں ( اور اس بات کو ذھن میں رکھ کر کہ ان یتیموں کے باپ کا دھیان بھی ان بچوں میں اسی طرح اٹکا ھوا تھا ) سیدھی اور صاف بات کریں ،(گھما پھرا کر یتیموں کو ان کے حق سے محروم کرنے کی سعی نہ کریں ) اس کے بعد اللہ پاک نے پھر خود وراثت کی تقسیم کی ھے !!
جس کی سوچ اللہ کی مخلوق میں اٹکی ھوتی ھے ،، رب اس کی آخرت بنانے میں لگ جاتا ھے ، اس کے تو اتنے گناہ ہیں ، یہ تو بندوں میں رسوا ھو جائے گا ،، آپ اللہ کے بندوں کی دنیا کی کفالت کرتے ہیں ، اللہ پاک آپ کی آخرت کی کفالت اپنے ذمے لے لیتا ھے اور دنیا میں بھی آپ کے کام بغیر پلاننگ کے ھوتے چلے جاتے ہیں دنیا محسوس کرے نہ کرے آپ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی آپ کے لئے ھر جگہ ڈوریاں ھلا رھا ھے !!