کوئی مانے یا نہ مانے ،آج مانے یا بیس سال کی چخ چخ اور ٹینشن کے بعد مانے مگر حقیقت یہی ھے کہ گھر میں امن و سکون زن مریدی سے ھی حاصل ھوتا ھے ! آج مان لو گے تو اگلی نسل خراب ھونے سے بچ جائے گی، بچے برباد کر کے مانو گے تو ،، توبہ کا دروازہ بند ھو چکا ھو گا ،،،،،،اپنے اختیارات اپنی خوشی اور دل و جان کی گہرائیوں کے ساتھ کسی کو سونپ دینا،، محبت اسی کا نام ھے اس کے بعد ھر جھگڑا ختم ھو جاتا ھے – اسی کو انڈر اسٹینڈنگ کہتے ھیں،، جو لوگوں میں چھ سات بچے پیدا کر کے بھی نہیں ھوتی ! البتہ اپنی گاڑی سے دو ماہ میں انڈر اسٹینڈنگ ھو جاتی ھے،وہ پیٹرول کتنا کھاتی ھے،کہاں پر سوئی ھو تو کتنے کلومیٹر نکال لیتی ھے،آئل کب تبدیل کرنا ھے ،وغیرہ وغیرہ مگر میاں بیوی کو ایک دوسرے کا پتہ نہین چلتا کہ کس بات پہ غصہ آتا ھے،کس بات کا تذکرہ پسند نہیں کرتا – اس کی عادات و اطوار کیا ھیں سونے جاگنے کے اوقات کیا ھیں ،، بس چار چیزوں کی ریڈنگ کرنی ھوتی ھے اور اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا ھوتا ھے،” یا اپنا کسے نوں کر لے یا آپ کسے دا ھو بیلیا "کسی ایک کو ھتھیار ڈالنے ھونگے تو جنگ بند ھو گی اور گھر امن و امان کا گہوارہ بنے گا – اور جو محبت کرے گا ھتھیار وھی ڈالے گا ،، وہ عورت جس کا بچہ دوسری عورت نے اٹھا لیا تھا ، جب دونوں کا جھگڑا قاضی کے سامنے پہنچا تو دونوں عورتیں ثبوت فراھم کرنے میں ناکام ھو گئیں ،جس پر قاضی نے فیصلہ دیا کہ بچے کو کاٹ کر آدھا آدھا دونوں عورتوں کو تقسیم کر دیا جائے – جس پر اصلی ماں نے ھتھیار ڈال دیئے اور دعوی واپس لے کر بیٹا دوسری کو سونپ دیا کہ کم از کم زندہ تو رھے گا۔جبکہ نقلی ماں خاموش کھڑی رھی جس پر قاضی نے سچ جان لیا اور بچہ اصلی ماں کو سونپ دیا !! جس کو گھر ، اولاد اور اولاد کا مستقبل عزیز ھو گا وہ ضد چھوڑ کر حالات سے سمجھوتہ کر لے گا ! اس کا نام ھے انڈر اسٹینڈنگ – مرد کو ھینڈل کرنا اصل میں یہ سیٹ ھی عورت کی ھے،،عورت ھی اس کو پیدا کرتی ھے ،زنانہ وارڈ میں اس کا نزول ھوتا ھے،عورتیں ھی اس کو خوش آمدید کہتی ھیں،، عورت ھی اسے پالتی اور اس کی تربیت کرتی ھیں اچھی ھو یا بری، پھر ھار سنگھار کر کے اسے دوسری عورت کو سونپ دیتی ھے،، لہذا ھر ماں یہ دیکھ لیا کرے کہ وہ اپنا لعل کس کو سونپ رھی ھے ! اس کی میت بھی عورتوں میں ھی پڑی ھوتی ھے،مرد صرف غسل دینے کے لیئے اٹھانے آتے ھیں ! عورت کے بگاڑے کو عورت ھی سدھار سکتی ھے، ماں کے بگاڑے ھوئے کو بیوی ھی سدھار سکتی ھے ،، اور ماں کے سدھارے کو بیوی ھی بگاڑ سکتی ھے،، اس کا پاس ورڈ ازل سے عورت کے پاس ھے،، اور یہ ھمیشہ ماں یا بہنوں یا بیوی کے درمیان فٹ بال بنا رھتا ھے جو اپنی اپنی مرضی کی گیم اس پر کھیلتی اور اس کی سیٹنگز تبدیل کرتی رھتی ھے،، ماں کی سیٹنگز بیوی رات کو تبدیل کر دیتی صبح اماں ایک پھونک سے وہ ھٹا کر دوبارہ فیکٹری سیٹنگز ریسٹور کر لیتی ھے،، بس اتنی ساری مرد کہانی ھے ! عموماً اماں جی اپنی سلطنت میں اضافے کے لئے بیٹے کو بطورِ چارہ استعمال فرماتی ھیں تا کہ کسی غیر کی پالی پوسی پڑھی پڑھائی بیٹی ھاتھ آ جائے اور یوں وہ اپنے اختیارات کو دو گھروں تک وسیع کر لیں ! اس کے لئے شادی سے پہلے ھنگامی دورے ھوتے ھیں، لنچ کہیں اور ھوتا ھے تو برنچ کہیں اور ڈنر کہیں اور ھوتا ھے تو ونر کوئی اور ،، اس بھاگ دوڑ کے بعد آخر ایک گھر منتخب کر لیا جاتا ھے اور یوں مچھلی پکڑ کر گھر لائی جاتی ھے،، شادی کے بعد ٹیسٹ کیس کے طور پر اماں جی اپنی بیٹیوں اور بہو کا تقابل کرتی ھیں،، کوشش کرتی ھیں کہ بہو اور بیٹا جہاں جائیں ایک آدھ بہن ساتھ جائے جو ان کی سرگرمیوں میں نظر رکھے – اگر بہن کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے تو پھر بہتر ھے ھنی مون پہ نہ ھی جایا جائے ،، کیونکہ اس میں دو نقصانات ھوتے ھیں،، پہلا تو یہ کہ جس محبت کے ماحول کے لئے انسان جاتا ھے وہ کبھی حاصل نہیں ھوتا،،یہ ایسا ھی سماں ھوتا ھے جیسے افطاری سے پہلے پکوڑے سموسے اور روح افزاء سامنے رکھ کر بیٹھنے والوں کا ھوتا ھے،، بہن بھی کوشش کرتی ھے کہ وہ نہ صرف بھابھی اور بھائی کو خلوت میسر نہ آنے دے بلکہ وہ بس میں بھی کوشش کر کے میاں بیوی کے درمیان دیوارِ برلن بن کر بیٹھتی ھے،دوسرا بہن واپس آکر جو غلط رپورٹنگ کرتی ھے وہ فساد کی پہلی چنگاری ھو تی ھے،، یوں ماں کو بیٹا ھاتھ سے جاتا نظر آتا ھے اور اسے احساس ھوتا ھے کہ کشمیر لیتے لیتے مشرقی پاکستان بھی ھاتھ سے گیا ! دوسرا ٹیسٹ یہ ھوتا ھے کہ بیٹا جو چیز اپنی بیوی کے لئے خریدے وھی چیز بہن کے لئے بھی خریدے ،، چاھے وہ سونا ھو یا کپڑا ! سوال یہ ھے کہ بیٹے نے دو شادیاں نہیں کیں کہ وہ دونوں میں انصاف کرے،، زیادہ جنتی جوان سوچتے ھیں کہ بہن کے لئے پیسے نہیں تو بیوی کے لئے بھی تحفہ نہیں خریدنا،، یوں بھاوج اور نند کا تنازعہ شروع ھوتا ھے،، تنازعات میں مرد کی اھمیت بڑھ جاتی ھے،، زیادہ تر مرد مارکیٹنگ کے اس دور میں اپنی مارکیٹ ڈاؤن نہیں ھونے دیتے، وہ ماں کو بھی گولی دیتے ھیں اور بیوی کو کیپسول،، جو ایک طرف کا ھو جائے وہ چلا ھوا کیپسول گنا جاتا ھے – مگر مرد ری فِل قسم کا کارتوس ھے،ذرا سا بیوی کی طرف سے شکوہ پیدا ھوا تو اسے اپنا ریٹ گرتا ھوا محسوس ھوتا ھے،، اب یہ اس بہن کے گھر جا گھسے گا جو بیوی کی سب سے زیادہ مخالف ھے، کھانا وھاں سے کھا کر آئے گا،، اور منہ سوجا سوجا سا بنا لے گا چاھے اس بہن نے کچھ بھی نہ کہا ھو، بیوی کھانے کو پوچھے گی تو بتائے گا،، بہن کے یہاں کھا آیا ھوں،، بیوی کا تراہ نکل جائے گا، اب وہ اس رویئے کا ذمہ دار نند کو سمجھے گی،،یوں پھر قبضے کی جنگ شروع ھو جائے گی اور م
رد کی مارکیٹ چڑھ جائے گی ،، یہ بیوی کی کچھ باتیں ماں سے شیئر کرتا رھتا ھے یوں ماں کی گڈ بُکس میں رھتا ھے،اور جنت کی ریزرویشن پکی رکھتا ھے اور فی الآخرۃِ حسنۃ کا پتہ ھاتھ میں رکھتا ھے ،ادھر ماں کی دو چار باتیں بیوی کو بتا کر فی الدنیا حسنۃ بھی کیش میں لیتا ھے،، بس تھوڑی سی ذلالت اس دن ھو جاتی ھے جس دن وہ لڑائی میں ایک دوسرے کو بتا دیتی ھیں کہ اگر میری تمہارے ساتھ کی ھے تو تمہاری بھی مجھے بتاتا ھے، ! یہ ایک فساد ٹائپ گھر کا ماحول ھے مگر بدقسمتی یہ ھے کہ یہ اکثریت کا فسانہ ھے ! اس قسم کے ماحول میں پیدا ھونے والے بچے ھر وقت جنگ کے ماحول میں پلتے بڑھتے ھیں – دادی ،اور پھوپھو کو اپنی والدہ کا دشمن سمجھتے ھیں، والد کو بھی بے انصاف سمجھتے ھیں، مجبوراً والد کے ساتھ جڑے رھتے ھیں مگر اندر سے اس کے مخالف ھوتے ھیں،،حالانکہ مرد اگر اپنی بیوی اور ماں سے مخلص نہ بھی ھو تو بھی اولاد کے ساتھ 100٪ مخلص ھوتا ھے،،لیکن یہی وہ جگہ ھے جہاں انسان نہ آگے کا رھتا ھے اور نہ پیچھے گا،، آپ گرم دیگچے کو کرتے ھیں مگر گرم سالن ھوتا ھے،،اور آپ ٹھنڈا برتن کو کرتے ھیں مگر ٹھنڈا سالن ھوتا ھے،، جس عورت کی گود میں آپ نے اپنا مستقبل اور دل کا ٹکڑا رکھا ھے اسے تتے توے پر بٹھا کر آپ کیسے گمان کر لیتے ھیں کہ اولاد ٹھنڈی رھے گی ؟ اب اولاد نہ تو پھوپھو کے گھر سے شادی کرتی ھے اور نہ چچا کے گھر سے،، یہی وجہ ھے کہ خاندان میں رشتوں کی بجائے باھر کا رجحان ھے،ایک تو یہ ڈر ھوتا ھے کہ جو ھم نے کیا ھوا ھے اس کے نتیجے میں کہیں ھماری بیٹی کے ساتھ بدلہ نہ چکایا جائے،، دوسرا طرف عورت کو یہ ھوتا ھے کہ جنہوں نے زندگی بھر میرے شوھر کے کان بھرے ھیں وہ میرے بیٹے کو کب بخشیں گے، اس طرح دونوں فریق اپنے کیئے سے ڈرتے ھوئے رشتوں کے لئے باھر دھکے کھا رھے ھوتے ھیں !اگر آپ چاھتے ھیں کہ آپکی اولاد آپ سے پیار کرے آپ سے مخلص رھے، اور اچھی تعلیم و تربیت پائے تو بیوی کے ساتھ تعلقات کو کبھی خراب مت ھونے دیں،، شریعت نے والدین کے حقوق مقرر کر دیئے ھیں اور ان کی ادائیگی بغیر کسی کا حق مارے بھی ھو سکتی ھے،،نماز میں سب سے اھم رکن سجدہ ھے جب سب کچھ کر کے انسان اپنا سر رب کے قدموں میں رکھ دیتا ھے،،مگر نماز صرف رکوع میں سر رکھے رھنے کا نام نہیں ھے،اس میں قیام بھی ھے،رکوع بھی ھے، قومہ و جلسہ و قعدہ بھی ھے،،یہ سجدے سے کم اھم ھو سکتے ھیں،،مگر نماز کے ھونے میں ان کا وجود بھی ضروری ھے،،ماں اگر سجدے کا مقام بھی رکھتی ھے تو بیوی قیام اور اولاد رکوع والی جگہ پہ رکھ لیں مگر دین اور دنیا ان سب کے ساتھ مکمل ھوتے ھیں،، نا اںصافی اللہ پاک کو سخت ناپسند ھے اور وہ اسے ظلم سے تعبیر کرتا ھے، اور ظالموں سے نفرت بھی کرتا ھے اور ان پر لعنت بھی کرتا ھے،،ماں سے محبت اپنی مٹھاس رکھتی ھے ،بیوی سے محبت اپنی مٹھاس رکھتی ھے اولاد کا پیار اپنا مزہ دیتا ھے،،ان سب مزوں کا نام زندگی ھے،، عیسی علیہ السلام کو پھانسنے کے لئے یہود نے ایک مسئلہ پیش کیا کہ حکومت کو ٹیکس دینا چاھئے یا نہیں ؟ عیسی علیہ السلام نے فرمایا اس درھم کو پلٹو ! اس پر قیصر کی تصویر بنی تھی،، آپ نے فرمایا جو قیصر کا ھے وہ قیصر کو دو -جو اللہ کا ھے وہ اللہ کو دو،،یعنی درھم پر قیصر کی مہر ھے اور تم پر اللہ کی مہر ھے ! ماں بیوی والے حصے پر شب خون نہ مارے،، اور بیوی ماں کے حصے کو ھڑپ نہ کرے،، ! جو ماں کا ھے وہ ماں کو دو اور جو بیوی کا ھے وہ بیوی کو دو !