اگر کوئی مقروض اپنا قرض نہیں اتار سکتا تو قرض دینے والا اپنی زکوۃ میں سے وہ قرض منہا Deduct کر سکتا ہے۔ ہمارے علماء انما الصدقات للفقراء والمساکین کی لام کو لام استحقاق کی بجائے لامے تملیک قرار دے کر , مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ وہ زکوۃ اس غریب کے قبضے میں دیں پھر اس سے مطالبہ کریں کہ وہ آپکی زکوۃ کو قرض اتارنے کے لئے استعمال کرے جبکہ اگر ایسا کیاجائے تو بھائی کو بچاتے ہوئے تینوں بہنیں ڈوب گئیں والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ نیز اسی لام تملیک کی پخ کی وجہ سے مردے کی تجھیز و تک نہیں کر سکتے کیونکہ مردہ پیسے ہاتھ میں نہیں پکڑ سکتا۔ جب یہ اپنے مدارس میں پڑھتے بچوں کے لئے زکوٰۃ وصولتے ہیں تو انکے ولی بن کر اپنی ملکیت میں لے لیتے ہیں۔ پھر ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے اکاؤنٹ سے اربوں کھربوں لامے تملیک نکلتے ہیں یہی حال مندروں کا بھی ہے۔۔انڈیا کے ایک مندر کے تہہ خانے سے انڈیا کے قومی خزانے سے زیادہ سونا برآمد ہوا ہے ۔