ملحدین کسی حدیث کو پکڑ کر اس میں سے ایک آدھ جملہ آگے پیچھے کر کے نبئ کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس پہ حملہ آور ھوتے ھیں ، اور مسلمان نوجوانوں میں نبئ کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلاتے ھیں ،، لہذا ملحدین کے پیج پہ نشر کردہ کسی بھی حدیث کا اصل کتاب میں جا کر جائزہ لینا بہت ضروری ھے ، اس کتاب کا متن ، پھر جس باب میں وہ درج ھے اس کا جائزہ کہ کن حالات میں وہ واقعہ پیش آیا اور اس سے پہلے کیا بات چل رھی ھے ،، یہ تمام چیزیں دیکھ کر ھی کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ھے –
ابوداود ایک حدیث لائے ھیں اس باب میں کہ جوان عورت کو اھل سے جدا کیا جا سکتا ھے ،، اس سے پہلے باب میں ذکر ھے کہ کسی چھوٹے بچے یا بچی کو اس کی ماں سے جدا نہیں کیا جائے گا اور نہ الگ کسی کو بیچا جائے گا –
ایک عورت بنی فزارہ سے قیدی ھو کر آئی ھے جس کے ساتھ اس کی بیٹی ھے ،، ابوبکرؓ امیرِ لشکر تھے جنہوں نے وہ بیٹی اس شخص سلمہ کو بطورِ کنیز دے دی ،، لشکر جب مدینے آیا تو نبئ کریم ﷺ نے سلمہؓ سے کہا کہ ( یا سلمہ ھب لی المرءۃ ) اے سلمہ وہ عورت مجھے ھبہ کر دو یعنی رضاکارانہ طور پہ بیت المال کو واپس کر دو کیونکہ نبئ کریم ﷺ اس عورت کا بہتر مصرف دیکھ رھے تھے ،، سلمہؓ نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ وہ لڑکی مجھے بہت پسند آئی ھے اگرچہ میں نے اس کے سامنے اپنے کپڑے نہیں اتارے یعنی وہ اپنے حال پہ ھے ،، اگلے دن آپ مجھے بازار میں ملے تو فرمایا کہ اے سلمہؓ وہ لڑکی اللہ کی خاطر مجھے لوٹا دو ،، تمہیں تمہارے باپ کا واسطہ یعنی اس کا اجر تمہارے باپ کو بھی ملے گا ،، سلمہؓ کہتے ھیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ وہ لڑکی اسی حالت میں ھے جس میں گرفتار کی گئ ھے میں نے اس میں کوئی تصرف نہیں کیا ، کوئی پیش قدمی نہیں کی اور وہ لڑکی اب آپ کے حوالے ھے ،،،،،،،،،،، کم بخت ملحد نے بس یہانتک حدیث کو نقل کیا ھے اور صرف ایک جملہ حدیث کا غائب کر کے یوں تأثر دیا ھے گویا وہ لڑکی اللہ کے رسول ﷺ کو اپنی ذات کے لئے پسند آ گئ تھی اور آپ اس لڑکی کے مالک کی منت ترلہ کر رھے تھے تا کہ کسی طرح وہ لڑکی ہتھیا کر اپنے حرم میں داخل کر کے معاذ اللہ جنسی ھوس پوری کریں ،،،، جبکہ وہ آخری ایک لائن معاملے کو بالکل الٹ کر رکھ دیتی ھے اور وہ جملہ کچھ یوں ھے ،، ” فبعث بھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی اھلِ مکۃ و فی ایدیھم اُسٰریٰ ففداھم بتلک المرءۃَ ” ( ابوداود حدیث 924 باب نمبر 389 جلد دوم )
پس اللہ کے رسول ﷺ نے اس لڑکی کو اھل مکہ کے پاس بھیج دیا جن کے پاس مسلمانوں کے کچھ قیدی تھے اور اس لڑکی کے فدیئے میں ان کو چھڑوا لیا –
اس حدیث سے پہلی بات یہ ثابت ھوتی ھے کہ ایک امیرِ لشکر کو مالِ غنیمت کی تقسیم کا حق حاصل تھا ،، لڑکی جب تقسیم کر دی گئ تو اللہ کے رسول ﷺ نے بطور رسول اور بطور حاکم و منتظم مکمل اختیار رکھتے ھوئے بھی جبر نہیں کیا اور بار بار درخواست کر کے اجر کی امید دلا کر ایک عام شخص سے وہ لڑکی رضاکارانہ طور پہ واپس لی اور اس ایک قیدی لڑکی کے بدلے کئ مسلمان قیدی چھڑا لیئے ، نیز یہ بات واضح ھوئی کہ جب کوئی قیدی بطور غلام یا لونڈی رعایا میں سے کسی کو دے دیا جاتا تھا تو پھر اللہ کے رسول ﷺ جسی ھستی بھی اس عطا کو منسوخ نہیں کرتی ، یہی فیصلہ کل اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی دیا ھے کہ عدالت تنسیخِ نکاح ( Jectitation Of marriage) تو کر سکتی ھے مگر خلع کا حق استعمال نہیں کر سکتی یہ حق صرف شوھر کو حاصل ھے ،،