اللہ کے لئے دوستی اور دشمنی کرنے والوں کا کارنامہ !
وعلى الثلاثة الذين خلفوا حتى إذا ضاقت عليهم الأرض بما رحبت وضاقت عليهم أنفسهم وظنوا أن لاملجأ من الله إلا إليه ثم تاب عليهم ليتوبوا إن الله هو التواب الرحيم ( التوبہ-118)
اور ان تینوں کو بھی اس نے معاف کیا جن کے معاملے کو ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بار ہو نے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ھی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ھے، تو اللہ اپنی مہربانی سےان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں، یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔ سورہ التوبہ :118
نبی ﷺ جب تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تو وہ لوگ معذرت کرنے کے لیے حاضر ہوئے جو پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں 80 سے کچھ زیادہ منافق تھے اور تین سچے مومن بھی تھے۔ منافقین جھوٹے عذر پیش کرتے گئے اور حضور ان کی معذرت قبول کرتے چلے گئے ۔ پھر ان تینوں مومنوں کی باری آئی اور انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کر لیا۔ نبی پاک ﷺ نے ان تینوں کے معاملہ میں فیصلہ کو ملتوی کر دیا اور عام مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ جب تک خدا کا حکم نہ آئے ، ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق نہ رکھا جائے۔ اسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل ھوئی۔ حقیقت یہ ھے کہ غزوہ تبوک کے بعد منافقین کے لئے توبہ کا دروازہ بند ھو چکا تھا اور اب خود نبئ کریم ﷺ سے بھی معاف کرنے کے اختیارات واپس لے لئے گئے تھے ،لہذا صاف طور پہ فیصلہ سنا دیا گیا کہ "اب آپ استغفار کریں یا نہ کریں صورتحال میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا ، آپ ستر بار بھی استغفار کریں تب بھی اللہ ان کو بخشنے والا نہیں ھے ” (استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم ذلك بأنهم كفروا بالله ورسوله والله لا يهدي القوم الفاسقين ،( توبہ 80 ) )
یہی وجہ ھے کہ مخلص اور بدری صحابی ھوتے ھوئے بھی ان اصحاب کا عمل چونکہ منافقین کے مشابہ جرم بن گیا تھا لہذا فیصلہ آسمان کی عدالت پہ چھوڑ دیا گیا ، اور اللہ پاک ان تینوں کے ساتھ مسلمانوں سے ایک تجرباتی مکمل بائیکاٹ کرا کر رستہ دکھانا چاھتا تھا کہ منافقین کے ساتھ اب اگلے مرحلے میں کیا کرنا ھے ،، جو کہ فی الواقع کیا گیا
یہ تینوں صاحب کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے ۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہیں ، تینوں سچے مومن تھے۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ قربانیاں کر چکے تھے۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ رہے۔ ان خدمات کے باوجود جو سستی اس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہل ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا، ان حضرات نے دکھائی اس پر سخت گرفت کی گئی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے۔،،
٤۰ دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کر دی گئی۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہوگیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔ آخرکار جب ان کے مقاطعہ کو ۵۰ دن ہو گئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا۔
ان تینوں صاحبوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے ۔ اپنے بڑھاپے کے زمانہ میں جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے، انہوں نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے ، جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلایا کرتے تھے، یہ قصہ خود بیان کیا:
غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کبھی مسلمانوں سے شرکت جنگ کی اپیل کرتے تھے ، میں اپنے دل میں ارادہ کر لیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آکر سستی کر جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے ، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیار ہو تے کیا دیر لگتی ہے۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو، میں ایک دو روز بعد راستہ ہی میں اس سے جا ملوں گا۔ مگر پھر وہی سستی مانع ہوئی حتٰی کہ وقت نکل گیا۔
اس زمانہ میں جبکہ میں مدینے میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بےحد کڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ھیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے۔
جب نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسب معمول آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے۔ اس مجلس میں منافقین نے آکر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے ۔ یہ 80 سے زیادہ آدمی تھے ۔ حضور ﷺ نے ان میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں ۔ ان کے ظاہری عذر کو قبول کر لیا، اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا خدا تمہیں معاف کرے۔ پھر میری باری آئی۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔” خدا کی قسم اگر میں اہل دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا، باتیں بنانی تو مجھے بھی آتی ہیں، مگر آپ کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کر کے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کر دے گا۔ البتہ اگر سچ کہوں تو چاھے آپ ناراض ہی کیوں نہ ہوں، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ھے جسے پیش کر سکوں، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا “۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ” یہ شخص ھے کہ جس نے سچی بات کہی ھے،، اچھا اٹھ جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے – میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑ گئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تو نے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ھونے لگا کہ پھر حاضر ھو کر کوئی بات بنا دوں ۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں (مراد بن ربیع اور ہلال بن امیہ) نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی ، تو مجھے تسکین ہوگئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا۔
اس کے بعد نبی ﷺ نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے ۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے، مگر میں نکلتا تھا ، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سر زمین بالکل بدل گئی ہے، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں ۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسب معمول نبی ﷺ کو سلام کرتا تھا، مگر بس انتظار ھی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے ہونٹ جنبش کریں ۔ نماز میں نظریں چرا کر حضور کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں ۔ مگر وہاں حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے، اور جہاں میں نے سلام پھیرا کہ آپ نے میری طرف سے نظر ھٹائی۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قتادؓہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا۔ مگر اس اللہ کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا ” ابو قتادہ، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا ؟ “ وہ خاموش رھے ۔ میں نے پھر پوچھا ۔ وہ پھر خاموش رھے، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ "واللہ و رسولہ اعلم – اللہ اور اس کا رسول ھی بہتر جانتا ہے”
اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے نبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہِ غَسّان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا۔ میں کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ” ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے ، ہمارے پاس آجاؤ، ہم تمہاری قدر کریں گے“۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی، اور اسی وقت اس خط کو چولہے میں جھونک دیا۔
چالیس دن اس حالت پر گزر چکے تھے کہ نبی ﷺ کا آدمی حکم لے کی آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیحدہ ہو جاؤ ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں ؟ جواب ملا نہیں، بس الگ رھو ۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔
پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ھوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا ” مبارک ہو کعب بن مالک “! میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ھو گیا ھے۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرے تھے سب سے پہلے عمرؓ پہنچے جبکہ بلندی پر چڑھ کر آواز دینے والے ابوبکرؓ تھے یوں ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کو مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہوگئی۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا۔ دیکھا کہ نبی ﷺ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ھے ۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ” تجھے مبارک ھو، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ھے” میں نے پوچھا یہ معافی حضور ﷺ کی طرف سے ھے یا خدا کی طرف سے ؟ فرمایا خدا کی طرف سے، اور یہ آیات سنائیں ۔
میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں ۔ فرمایا ” کچھ رھنے دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ھے “۔ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیا ، باقی سب صدقہ کر دیا۔ پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس سچائی کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی ھے اس پر تمام عمر قائم رھوں گا، چنانچہ آج تک میں نے کوئی بات جان بوجھ کر خلاف واقعہ نہیں کہی اور خدا سے امید رکھتا ھوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا ۔
اس سے اندازہ ھوتا ھے کہ اللہ پاک کے حکم ” فأعرضوا عنھم ” کو صحابہؓ نے عملی جامہ کس شان سے پہنایا ھے کہ اللہ پاک جو اندر کی کیفیات سے بھی آگاہ ہے وہ فرما رھا ہے کہ ضاقت علیھم انفسھم،، ان کی جان اٹک کر رھی گئ اور زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ھوگئ ،،، تو منافقین کے ساتھ کیسا اعراض برتا گیا ھو گا ،، ان کو نہ تو کوئی اپنی شادی بیاہ میں بلاتا ، نہ بیع و شراء میں گواہ بناتا ،نہ ان کے سلام کا جواب دیتا اور نہ ان سے کلام کرتا وہ اپنے گھروں میں ھی ذلت کی سانسیں لے کر ختم ھو گئے ، یہ تصور تک نہیں کیا جا سکتا کہ کسی نے کبھی ان کو اس کی اجازت دی ھو گی کہ وہ ان سے اللہ کے رسول ﷺ کے کسی قول و فعل کو روایت کرے ،،،،
تاریخ اگر ان 80 آدمیوں کے نام سے نا آشنا ھے تو اس کا کریڈٹ مدینے کے لوگوں کے خلوص کو جاتا ھے ،، انہوں نے اپنے برتاؤ سے نفاق کے ساتھ بالکل وھی کیا جو روس نے چرنوبل ایٹمی پلانٹ کے اوپر کنکریٹ کا پہاڑ کھڑا کر کے کیا تھا کہ اس کی ایٹمی تابکاری باھر نہ نکلے ، اھلِ مدینہ نے اپنے کردار کے پہاڑ تلے نفاق کی تابکاری کو اس طرح سمیٹ لیا کہ دنیا میں ان منافقوں کا نام تک نسیا منسیاً ھو گیا ،، ان کی نسلوں تک نے اپنے منافق اعزاء و اقارب سے رشتہ داری کا کبھی ذکر نہ کیا ،،
آیات 80 تا 84 کے نزول کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے ان منافقین کے اقارب کو پیغام دے دیا کہ وہ ان کی موت پر ان کو جس طرح چاھیں دفن کر سکتے ھیں یعنی جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے سے اب کوئی فرق پڑنے والا نہیں ،جب ان کے بارے میں رسول ﷺ کی سفارش رد کر دی گئ ھے تو عام مسلمانوں کی سفارش یا دعا کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئ ،، جن منافقین کی بیویاں مخلص مسلمان تھیں ان کو منافقین سے جدا کر دیا گیا اور مخلص اولاد نے بھی ان سے قطع تعلق کر لیا ،ان سے سلام ،کلام اور لین دین ، گواھی شہادت کا تعلق بھی توڑ لیا گیا ،، لہذا ذلت سے بچنے کے لئے یہ منافقین خود ھی صحراء میں موجود اپنے اونٹوں کے باڑوں کی طرف نکل گئے ،جو جہاں مرتا وھیں ریت میں دبا دیا جاتا ،،
یوں منافقین نشانِ عبرت بن کر اپنے انجام کو پہنچ گئے اور مسلمانوں کو ان کے خون سے ھاتھ بھی نہیں رنگنے پڑے
وعلى الثلاثة الذين خلفوا حتى إذا ضاقت عليهم الأرض بما رحبت وضاقت عليهم أنفسهم وظنوا أن لاملجأ من الله إلا إليه ثم تاب عليهم ليتوبوا إن الله هو التواب الرحيم ( التوبہ-118)
اور ان تینوں کو بھی اس نے معاف کیا جن کے معاملے کو ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بار ہو نے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ھی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ھے، تو اللہ اپنی مہربانی سےان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں، یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔ سورہ التوبہ :118
نبی ﷺ جب تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تو وہ لوگ معذرت کرنے کے لیے حاضر ہوئے جو پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں 80 سے کچھ زیادہ منافق تھے اور تین سچے مومن بھی تھے۔ منافقین جھوٹے عذر پیش کرتے گئے اور حضور ان کی معذرت قبول کرتے چلے گئے ۔ پھر ان تینوں مومنوں کی باری آئی اور انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کر لیا۔ نبی پاک ﷺ نے ان تینوں کے معاملہ میں فیصلہ کو ملتوی کر دیا اور عام مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ جب تک خدا کا حکم نہ آئے ، ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق نہ رکھا جائے۔ اسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل ھوئی۔ حقیقت یہ ھے کہ غزوہ تبوک کے بعد منافقین کے لئے توبہ کا دروازہ بند ھو چکا تھا اور اب خود نبئ کریم ﷺ سے بھی معاف کرنے کے اختیارات واپس لے لئے گئے تھے ،لہذا صاف طور پہ فیصلہ سنا دیا گیا کہ "اب آپ استغفار کریں یا نہ کریں صورتحال میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا ، آپ ستر بار بھی استغفار کریں تب بھی اللہ ان کو بخشنے والا نہیں ھے ” (استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم ذلك بأنهم كفروا بالله ورسوله والله لا يهدي القوم الفاسقين ،( توبہ 80 ) )
یہی وجہ ھے کہ مخلص اور بدری صحابی ھوتے ھوئے بھی ان اصحاب کا عمل چونکہ منافقین کے مشابہ جرم بن گیا تھا لہذا فیصلہ آسمان کی عدالت پہ چھوڑ دیا گیا ، اور اللہ پاک ان تینوں کے ساتھ مسلمانوں سے ایک تجرباتی مکمل بائیکاٹ کرا کر رستہ دکھانا چاھتا تھا کہ منافقین کے ساتھ اب اگلے مرحلے میں کیا کرنا ھے ،، جو کہ فی الواقع کیا گیا
یہ تینوں صاحب کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے ۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہیں ، تینوں سچے مومن تھے۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ قربانیاں کر چکے تھے۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ رہے۔ ان خدمات کے باوجود جو سستی اس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہل ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا، ان حضرات نے دکھائی اس پر سخت گرفت کی گئی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے۔،،
٤۰ دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کر دی گئی۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہوگیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔ آخرکار جب ان کے مقاطعہ کو ۵۰ دن ہو گئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا۔
ان تینوں صاحبوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے ۔ اپنے بڑھاپے کے زمانہ میں جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے، انہوں نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے ، جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلایا کرتے تھے، یہ قصہ خود بیان کیا:
غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کبھی مسلمانوں سے شرکت جنگ کی اپیل کرتے تھے ، میں اپنے دل میں ارادہ کر لیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آکر سستی کر جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے ، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیار ہو تے کیا دیر لگتی ہے۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو، میں ایک دو روز بعد راستہ ہی میں اس سے جا ملوں گا۔ مگر پھر وہی سستی مانع ہوئی حتٰی کہ وقت نکل گیا۔
اس زمانہ میں جبکہ میں مدینے میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بےحد کڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ھیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے۔
جب نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسب معمول آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے۔ اس مجلس میں منافقین نے آکر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے ۔ یہ 80 سے زیادہ آدمی تھے ۔ حضور ﷺ نے ان میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں ۔ ان کے ظاہری عذر کو قبول کر لیا، اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا خدا تمہیں معاف کرے۔ پھر میری باری آئی۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔” خدا کی قسم اگر میں اہل دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا، باتیں بنانی تو مجھے بھی آتی ہیں، مگر آپ کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کر کے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کر دے گا۔ البتہ اگر سچ کہوں تو چاھے آپ ناراض ہی کیوں نہ ہوں، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ھے جسے پیش کر سکوں، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا “۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ” یہ شخص ھے کہ جس نے سچی بات کہی ھے،، اچھا اٹھ جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے – میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑ گئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تو نے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ھونے لگا کہ پھر حاضر ھو کر کوئی بات بنا دوں ۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں (مراد بن ربیع اور ہلال بن امیہ) نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی ، تو مجھے تسکین ہوگئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا۔
اس کے بعد نبی ﷺ نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے ۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے، مگر میں نکلتا تھا ، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سر زمین بالکل بدل گئی ہے، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں ۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسب معمول نبی ﷺ کو سلام کرتا تھا، مگر بس انتظار ھی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے ہونٹ جنبش کریں ۔ نماز میں نظریں چرا کر حضور کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں ۔ مگر وہاں حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے، اور جہاں میں نے سلام پھیرا کہ آپ نے میری طرف سے نظر ھٹائی۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قتادؓہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا۔ مگر اس اللہ کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا ” ابو قتادہ، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا ؟ “ وہ خاموش رھے ۔ میں نے پھر پوچھا ۔ وہ پھر خاموش رھے، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ "واللہ و رسولہ اعلم – اللہ اور اس کا رسول ھی بہتر جانتا ہے”
اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے نبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہِ غَسّان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا۔ میں کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ” ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے ، ہمارے پاس آجاؤ، ہم تمہاری قدر کریں گے“۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی، اور اسی وقت اس خط کو چولہے میں جھونک دیا۔
چالیس دن اس حالت پر گزر چکے تھے کہ نبی ﷺ کا آدمی حکم لے کی آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیحدہ ہو جاؤ ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں ؟ جواب ملا نہیں، بس الگ رھو ۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔
پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ھوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا ” مبارک ہو کعب بن مالک “! میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ھو گیا ھے۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرے تھے سب سے پہلے عمرؓ پہنچے جبکہ بلندی پر چڑھ کر آواز دینے والے ابوبکرؓ تھے یوں ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کو مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہوگئی۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا۔ دیکھا کہ نبی ﷺ کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ھے ۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ” تجھے مبارک ھو، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ھے” میں نے پوچھا یہ معافی حضور ﷺ کی طرف سے ھے یا خدا کی طرف سے ؟ فرمایا خدا کی طرف سے، اور یہ آیات سنائیں ۔
میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں ۔ فرمایا ” کچھ رھنے دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ھے “۔ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیا ، باقی سب صدقہ کر دیا۔ پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس سچائی کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی ھے اس پر تمام عمر قائم رھوں گا، چنانچہ آج تک میں نے کوئی بات جان بوجھ کر خلاف واقعہ نہیں کہی اور خدا سے امید رکھتا ھوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا ۔
اس سے اندازہ ھوتا ھے کہ اللہ پاک کے حکم ” فأعرضوا عنھم ” کو صحابہؓ نے عملی جامہ کس شان سے پہنایا ھے کہ اللہ پاک جو اندر کی کیفیات سے بھی آگاہ ہے وہ فرما رھا ہے کہ ضاقت علیھم انفسھم،، ان کی جان اٹک کر رھی گئ اور زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ھوگئ ،،، تو منافقین کے ساتھ کیسا اعراض برتا گیا ھو گا ،، ان کو نہ تو کوئی اپنی شادی بیاہ میں بلاتا ، نہ بیع و شراء میں گواہ بناتا ،نہ ان کے سلام کا جواب دیتا اور نہ ان سے کلام کرتا وہ اپنے گھروں میں ھی ذلت کی سانسیں لے کر ختم ھو گئے ، یہ تصور تک نہیں کیا جا سکتا کہ کسی نے کبھی ان کو اس کی اجازت دی ھو گی کہ وہ ان سے اللہ کے رسول ﷺ کے کسی قول و فعل کو روایت کرے ،،،،
تاریخ اگر ان 80 آدمیوں کے نام سے نا آشنا ھے تو اس کا کریڈٹ مدینے کے لوگوں کے خلوص کو جاتا ھے ،، انہوں نے اپنے برتاؤ سے نفاق کے ساتھ بالکل وھی کیا جو روس نے چرنوبل ایٹمی پلانٹ کے اوپر کنکریٹ کا پہاڑ کھڑا کر کے کیا تھا کہ اس کی ایٹمی تابکاری باھر نہ نکلے ، اھلِ مدینہ نے اپنے کردار کے پہاڑ تلے نفاق کی تابکاری کو اس طرح سمیٹ لیا کہ دنیا میں ان منافقوں کا نام تک نسیا منسیاً ھو گیا ،، ان کی نسلوں تک نے اپنے منافق اعزاء و اقارب سے رشتہ داری کا کبھی ذکر نہ کیا ،،
آیات 80 تا 84 کے نزول کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے ان منافقین کے اقارب کو پیغام دے دیا کہ وہ ان کی موت پر ان کو جس طرح چاھیں دفن کر سکتے ھیں یعنی جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے سے اب کوئی فرق پڑنے والا نہیں ،جب ان کے بارے میں رسول ﷺ کی سفارش رد کر دی گئ ھے تو عام مسلمانوں کی سفارش یا دعا کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئ ،، جن منافقین کی بیویاں مخلص مسلمان تھیں ان کو منافقین سے جدا کر دیا گیا اور مخلص اولاد نے بھی ان سے قطع تعلق کر لیا ،ان سے سلام ،کلام اور لین دین ، گواھی شہادت کا تعلق بھی توڑ لیا گیا ،، لہذا ذلت سے بچنے کے لئے یہ منافقین خود ھی صحراء میں موجود اپنے اونٹوں کے باڑوں کی طرف نکل گئے ،جو جہاں مرتا وھیں ریت میں دبا دیا جاتا ،،
یوں منافقین نشانِ عبرت بن کر اپنے انجام کو پہنچ گئے اور مسلمانوں کو ان کے خون سے ھاتھ بھی نہیں رنگنے پڑے