امانت میں خیانت !!
امانت کا تصور اس سے کہیں زیادہ وسیع ھے جتنا کہ ھم سمجھتے ھیں ،،
1- انسان کو اللہ پاک کی طرف سے ایمان و کفر اور شکر و ناشکری کا دیا گیا اختیار بھی امانت ھے ،، اور یہی وہ امانت ھے جس کے اٹھانے سے پہاڑوں نے ، زمین و آسمان نے انکار کر دیا ، وہ اس کی ادائیگی کے بوجھ سے ھمت ھار بیٹھے ، اس کے بار سے ڈر گئے ،، انا عرضنا الامانۃ علی السماوات والارض والجبال فابین ان یحملنھا و اشفقنا منھا و حملھا الانسان ، انہ کان ظلوماً جھولاً ( الاحزاب ) یہ آیت ان آیات سے متصل بعد میں واقع ھوئی ھے جنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے خطبہ نکاح میں پڑھا ھے ،، شادی کرنا اور نکاح کی ذمہ داریاں اور فرائض اپنے سر لینا ،کوہ ھمالیہ سے وزنی بوجھ ھے ،،مگر لوگ نورجہان اور نصیببو لال کے گانوں کی دھن میں بغیر سوچے سمجھے اسے بڑے آرام سے اٹھا لیتے ھیں – یہ ایک عورت نہیں بلکہ پورے ایک خاندان کے حقوق اپنے سر لینا ھے ، اور لوگ آسان سمجھتے ھیں لاڑا بننا – یہ رشتہ ازدواج ،،، امانت کا رشتہ ھے ،، حافظاتۤ للغیب ،، بیویاں شوھروں کے ان رازوں کی امین ھوتی ھیں جو اس کے والدین کو بھی پتہ نہیں ھوتے ، یہ وہ رشتہ ھے جس کی مثال نہیں ملتی ، ایک خاتون کو جب غزوہ احد کے بعد اس کے والد ، بھائی اور بیٹے کے شہید ھونے کی خبر دی گئ تو اس نے دعا پڑھ کر صبر کر لیا مگر جب اسے اس کے شوھر کی شہادت کی خبر دی گئ تو اس کی چیخ نکل گئ اور وہ دھائیاں دینے لگی،، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا عورت کا مرد کے ساتھ ایک عجیب رشتہ ھے ،،،،،،،، یہ رشتہ خونی نہیں ھے مگر خونی رشتوں سے طاقتور ھوتا ھے اور اس کے دلائل بھی رکھتا ھے ،بہت ساری عورتیں اور مرد اس امانت کی ادائیگی میں کوتاھی پر ھی جھنم کی راہ لیں گے ،، قیامت کے دن فالج کے اکثر کیس اسٹروک یا کولیسٹرول کی وجہ سے نہیں ھونگے بلکہ ان کا سبب میاں بیوی کے حقوق کی عدم ادائیگی ھو گی ،، اسی طرح والدین اور دیگر رشتوں کے حقوق بھی امانت ھیں اور ان میں خیانت قابلِ مؤاخذہ ھے !
2- اللہ پاک نے حکم دیا ھے کہ امانتیں اھل لوگوں کے سپرد کرو ! النساء
اس کے تحت ووٹ ایک امانت ھے جس کے ذریعے اھل لوگوں کو ذمہ دار اور عہدیدار بنایا جاتا ھے ، اگر آپ نے کسی بھی ذاتی مفاد کی خاطر نا اھل کو ووٹ دے دیا ، کسی چور ، ڈاکو ، کرپٹ اور ظالم جابر شکص کو ووٹ دے دیا تو نہ صرف آپ نے اللہ کے دیئے گئے اختیار میں خیانت اور منافقت کی کی بلکہ اب اس شخص کے ھر برے فعل میں اس کے شریک ھو گئے ،، فوائد اور مفادات وہ لے گا اور عذاب آپ لیں گے ،، بڑا بدبخت ھے وہ شخص جو کسی کی دنیا کی خاطر اپنا دین بیچ دے ،، گھوڑوں کی تجارت پہلے گھروں اور محلوں ، گاؤں کی سطح پہ ھوتی ھے پہلے عوام بِکتے ھیں پھر اسمبلی میں منڈی لگتی ھے ،یاد رکھیں منڈی ایک چٹیل میدان کا نام ھے جہاں گھوڑے گھروں سے آتے ھیں ،، اسی طرح اسمبلی ایک خالی ھال کا نام ھے ،، اس میں کالے چٹے بکاؤ گھوڑے ھم لوگ گھروں اور دیہات اور شہروں سے بِکنے کے لئے بھیجتے ھیں ،،
اس سلسلے میں یہ عذر پیش کیا جاتا ھے کہ جناب فلاں امیدوار ھے تو نیک ، صالح اور دیانتدار ،،،،،،، مگر اس کے جیتنے کے چانسز نہ ھونے کے برابر تھے ،، سوال اس کے جیتنے یا نہ جیتنے کا سرے سے ھے ھی نہیں ،، یہ تیری گواھی کا مسئلہ تھا کہ ” تو نے جھوٹی گواھی دی یا سچی کہ یہ شخص اس ذمہ داری کا اھل ھے ،جس کے لئے میں اس کو ووٹ دے رھا ھوں ،،،،، تیرے ووٹ سے ایک نا اھل کی جیت اصل میں تیری ھار اور اللہ کے اس حکم کی خلاف ورزی ھے کہ ”
إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها وإذا حكمتم بين الناس أن تحكموا بالعدل إن الله نعما يعظكم به إن الله كان سميعا بصيرا ( النساء 58 ) بےشک اللہ تمہیں حکم دیتا ھے کہ امانتوں کو ان کے اھل کے سپرد کرو اور جب بھی فیصلہ کرو لوگوں کے درمیان تو عدل کے ساتھ کرو ، بے شک اللہ تمہیں اچھی بات کی ھی نصیحت کرتا ھے ،بے شک اللہ دائم سننے والا دائم دیکھنے والا ھے ،،،
ایک سچے شخص کے اپنا سچا مقدمہ جیتنے کا امکان نہ ھو تو کیا آپ کے لئے جیتنے والے جھوٹے اور ظالم فریق کے حق میں جھوٹی گواھی دینا جائز ھو جائے گا ؟
پھر جو لوگ لوگوں کے ووٹ سے یہ ذمہ داریاں پا لیتے ھیں وہ اتنے ھی لوگوں کے امین بن جاتے ھیں ،، قومی خزانے کے امین بن جاتے ھیں ، ان کی ایک روپے کی کرپشن کروڑوں روپے کی کرپشن بن جاتی ھے کیونکہ اس روپے میں کروڑوں لوگوں کا حق ھے ،،
ووٹ کی ایک چھوٹی قسم گھر میں بھی پائی جاتی ھے جب آپ کو امی یا بیوی کے حق میں ووٹ کرنا ھوتا ھے کہ حق پہ کون ھے ، اور ھم بے ضمیر بن کر خیانت کر دیتے ھیں ،، یہی بے ضمیری اگے چل کر بڑے ووٹ میں بے ضمیر بننے کی ترغیب دیتی ھے ،،
3- اللہ پاک کی طرف سے دی گئ یہ زندگی ، یہ جسم و جاں ، یہ صلاحیتیں ، یہ سمع و بصارت، یہ سوچنے اور بولنے کی قوتیں ،، سب کی سب امانت ھیں اور ان کے بارے میں جواب دیئے بغیر زمین ھمارے قدم نہ چھوڑے گی ،جبکہ اس دن تانبے کی طرح تپتی زمین پر قدم ٹکنا محال ھو گا !!
منافق کی تیسری نشانی !
اذا عاھد غدر،،، او اذا وعد اخلف ،،
جب بھی وعدہ کرے اس کی خلاف ورزی کرے، جب عہد باندھے تو بے وفائی یا غداری کر دے !
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت میں فرمایا ،،
لا دین لِمن لا عہد لہ ،،، اس شخص کا کوئی دین نہیں جو اپنے عہد کا پابند نہیں !
اس کو تفصیل سے سمجھنے کے لئے اس مثال کو دیکھیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،
عدالت میں ھر شخص سے اس کے مذھب کی کتاب پر حلف لیا جاتا ھے اس حسن ظن کے ساتھ کہ یہ کتنا بھی گنہگار ھو مگر اپنی کتاب پر ھاتھ رکھ کر جھوٹ نہیں بولے گا ،، اب اگر وہ کتاب پر حلف لے کر بھی جھوٹ بول دے تو پھر اس کا کوئی دین نہیں،،
اس نے قرآن پر ھاتھ رکھ کر جھوٹ بولنا ھے ،، گیتا اور بائیبل پر ھاتھ رکھ کر بھی جھوٹ ھی بولنا ھے ،، گویا” لا دین لہ "،، ( اللہ کی قسم اس لئے نہیں لی جاتی کہ اللہ سب مذھبوں کا ایک ھے )
ھر مذھب کی کتاب اس شخص کا اللہ سے کیا گیا عہدنامہ ھوتا ھے ، ایک تحریری معاہدہ ھوتا ھے ، اسی لئے اسے Testament کہا جاتا ھے ،عہدنامہ قدیم old Testament, عہد نامہ جدید New testament , عہد نامہ اخیر Last testament ،،،،
اس کی مزید تشریح اللہ کے رسول ﷺ نے کچھ یوں فرمائی ھے کہ ” ما آمنَ بالقرآنِ من استحل محارمہ ” وہ شخص قرآن پر ایمان نہیں لایا جس نے اس کے حرام کو حلال کر لیا ،، یا اس کی حرام کردہ حدوں میں جا پڑا ،،،
عہد چھوٹا ھو یا بڑا ، اس کی بد عہدی پر مؤاخذہ ضرور ھونا ھے ،، و اوفوا بالعہد ، ان العہد کان مسئولا ،، وعدوں کی پابندی کرو یقیناً وعدوں کے بارے میں پرسش ھونی ھے ( بنی اسرائیل ) یہ بد عہدیاں گھر سے شروع ھوتی ھیں اور پھر محلوں اور بازاروں ، عدالتوں اور پارلیمنٹوں میں آتی ھیں ،، بد عہدیوں کا کوئی درخت یا پودا نہیں ھوتا ، یہ انسانی کردار کا ھی پھل ھے ،، ھم بچوں سے بدعہدی کرتے ھیں تو وہ اسے معمولی بات سمجھ کر دوسروں سے بد عہدی کرتے ھیں ، ھم نے بیوی سے ایک وعدہ کیا اسے امی کے دباؤ پر توڑ دیا ،، ماں سے ایک وعدہ کیا تھا کہ چھوٹے بھائی کو باھر بلواؤں گا ، اسے بیوی کے دباؤ پہ توڑ دیا ، ایک بچے سے وعدہ کیا تو اسے دوسرے بچے کی ضد پر توڑ دیا -الغرض یہ عفریت ھمارے گھر پرورش پاتا ھے ،،
مکے سے دو مہاجر نکلے مگر مشرکین مکہ کے ھاتھ لگ گئے ،، مکے سے مشرکین کا لشکر بدر کی جنگ کے لئے نکل چکا تھا ،، مشرکین نے مہاجروں سے سارا مال لے لیا اور ان سے یہ وعدہ لیا کہ وہ مکی لشکر کے خلاف نہیں لڑیں گے ،، اور ان کو چھوڑ دیا ،، مکے والوں نے محمد مصطفی ﷺ کے کردار پر اعتماد کرتے ھوئے ان دونوں کو چھوڑا تھا کہ اگر یہ لوگ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کر کے لڑنا بھی چاھئیں گے تو محمد ﷺ ان کو عہد کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیں گے ،، اور نبئ کریم ﷺ نے اپنے کردار سے مکے والوں کے اس حسنِ ظن کو ثابت کر دکھایا -یہ مکی مہاجر سیدھے میدانِ بدر پہنچے اور سارا واقعہ بیان کر کے جہاد میں شرکت کا شوق ظاھر کیا ،،،،،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تم دونوں عہد دے چکے ھو ، اب تم اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے تم لوگ مدینے چلے جاؤ ،، اور آرام کرو ، مجھے یقین ھے میرا رب مجھے تمہارے بغیر بھی فتح دے گا کیونکہ فتح اس کے حکم سے ملتی ھے ،، تعداد سے نہیں ملتی ،، انہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ وہ عہد ھم سے تلوار کی نوک پر لیا گیا تھا ،، آپ نے فرمایا میں جانتا ھوں ،مگر مومن جب کسی سے عہد کر لیتا ھے تو اپنا ھاتھ دوسرے آدمی کے ھاتھ میں دے دیتا ھے ،، تم بظاھر اس وقت آزاد ھو مگر تمہارے دونوں ھاتھ اس عہد سے بندھے ھوئے ھیں جو تم دے آئے ھو ،،،،،،، اسی کے Symbol کے طور پر ھمارے یہاں وعدہ کرتے وقت ھاتھ پہ ھاتھ مارا جاتا ھے اور ” سَٹ سَجۜی ” کا نعرہ لگتا ھے یعنی مجھے داہنا ھاتھ دو ،،، نہ کوئی سلامتی کونسل تھی ، نہ اقوامِ متحدہ نہ جنیوا کنوینشن اور نہ انٹرپول ، نہ تحریری معاہدہ تھا اور نہ ھی حدیبیہ کا صلح نامہ ، مگر نبئ کریم ﷺ کی ذات نے کسی ڈر کے بغیر مجرد سیرت کے زور پر عہد کی پابندی کی اور صحابہ سے بھی کروائی ، جب کوئی اپنی ذات میں بدعہد ھو تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کی گارنٹی نہیں دے سکتی ،، اسی لئے فرمایا ،، لا دین لمن لا عہد لَہ ،، وعدہ خلاف کا چونکہ کوئی دین نہیں لہذا کتاب اللہ پر اس کے عہد کا بھی کوئی اعتبار نہیں ،،،