آپ نے سچی کہانیاں اور پاکیزہ ڈائجسٹ شاید پڑھے ھونگے ، ان میں اکثر و بیشتر عزتیں لُٹنے کے واقعات بڑی تفصیل سے بیان کیئے جاتے ھیں کہ کس طرح کوئی لڑکی کسی لڑکے کی محبت میں گرفتار ھو جاتی ھے ، پھر کس طرح ظالم سماج رکاوٹ بنتا ھے ، ذات پات کس طرح رکاوٹ بنتی ھے ، لڑکی اپنے محبوب کے ساتھ فرار کا فیصلہ کر لیتی ھے اور ایک دن وہ دونوں کوچ کر جاتے ھیں – لڑکا دو چار دن اس لڑکی کے ساتھ کھیلنے کے بعد ایک دن اس کو کسی دوسرے گاھک کے آگے بیچ کر خود واپس چلا جاتا ھے اور یوں وہ لڑکی ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے مرد کا کھلونا بنتی ھوئی ایک دن کسی کوٹھے پر بیچ دی جاتی ھے ، جہاں سے وہ کسی نیک دل گاھک کے ہاتھ اپنی داستان معاشرے تک پہنچاتی ھے تا کہ لوگوں کی بچیاں اس قسم کی غلطی کرنے سے بچیں اور اپنے والدین کے تعاون سے ھی گھر بسانے کی کوشش کریں ، کسی محبت کے سراب میں مبتلا نہ ھوں –
یہ کہانی اس لئے نہیں لکھی جاتی کہ لوگوں کی بچیاں اس سچی کہانی کا اتباع کرتے ھوئے ، اپنے والدین سے بغاوت کریں اور اس برباد شدہ لڑکی کے نقشِ قدم کا اتباع کرتے ھوئے تباھی و بربادی کے رستے پر چل نکلیں – بلکہ بطورِ عبرت بیان کی جاتی ھیں کہ بچیاں اچھی طرح سوچ سمجھ لیں کہ گھر سے باھر نکالا گیا ایک چھوٹا سا قدم آخر کار ان کو کہاں اور کس مقام پر لا کھڑا کرتا ھے –
من و یزداں ایسی ھی ایک عبرتناک داستاں کے سوا کچھ بھی نہیں ، یہ قدم بقدم ایک شخص کی گمراھی کی داستان ھے وہ لاکھوں ارمان لئے چلا کس منزل سے تھا اور جا نکلا کہاں ھے – یہ خدا سے زیادہ ایک بندے کی اپنی ذات اور مصداقیت کی نفی کی کہانی ھے ، وہ ایک بات بڑے یقین کے ساتھ کہتا ھے اور پھر اگلے مرحلے میں اسی کا انکار کر کے ایک نیا موقف اختیار کرتا ھے اور پھر اس نئے موقف کو بھی خود ھی اگلے حصے میں غلط ثابت کر دیتا ھے ، جو نام تو قرآن کا لیتا ھے مگر اس پر اعتراض قصص الانبیاء جیسی کتاب کی کہانیوں سے کرتا ھے ، جو اپنے موقف کے تبدل و تغیر کے لئے ” کوہ قاف ” کا عنوان بنا کر اوٹ پٹانگ کہانیوں سے استدلال کر تا ھے – جبکہ اسلام کا ان کہانیوں سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ھے اور نہ ھی فقہاء نے ان کہانیوں کو عقیدے کی بنیاد بنایا ،، گویا جب اس نے طے کر لیا ھے کہ اس نے نہ تو خدا کو ماننا ھے نہ خدا کے کسی کلام کو ماننا ھے اور نہ ھی کسی کی رسالت کو ماننا ھے تو پھر اس کے لئے وہ ھزار بہانے بھی بنا سکتا ھے – اس سے زیادہ عقلمند تو ابوجھل اور ابولہب تھے جنہوں نے کوئی لمبی چوڑی کتاب لکھے بغیر چند جملوں میں وھی بات کہہ دی تھی جس کے لئے جناب نیاز فتح پوری صاحب کو 350 صفحے کی کتاب لکھنی پڑی ،،
اللہ پاک نے قرآن میں ھی وہ سب اعتراضات بیان کر دیئے ھیں اور ان کا جواب بھی دے دیا ھے – کوئی بھی مسلمان صرف قرآن کا ترجمہ پڑھ کر بھی ان اعتراضات اور ان کے جواب سے آگاہ ھو جاتا ھے ، نیاز فتح پوری صاحب نہ تو کوئی نیا اعتراض لائے ھیں اور نہ ھی قیامت تک کوئی اور شخص کوئی نیا اعتراض لا سکے گا ، اللہ پاک نے قرآن کی صورت انسانیت سے اپنا خطاب فرمایا ھی اس وقت ھے جب عقلِ انسانی جو سوال اٹھا سکتی تھی اٹھا چکی تھی اور جو فتنے بپا کرنا چاھتی تھی کر چکی تھی ، اسی وجہ سے رسالت کا بھی اتمام کر دیا گیا ،، اب بس نئے برتنوں میں پرانی شراب ھی پیش کی جاتی ھے جس کا تریاق قرآنِ حکیم کی صورت میں اللہ پاک نے قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا ھے –
نیاز صاحب اس بیماری میں مبتلا ھو گئے تھے جس سے ھر عالم کو پالا پڑتا ھے ، اللہ پاک قرآن حکیم میں فرماتا ھے کہ انسان کبھی بھی جہالت کی وجہ سے تفرقوں میں نہیں پڑتا یعنی ھدایت سے اپنا رستہ الگ نہیں کرتا بلکہ علم آنے کے بعد کرتا ھے گویا علم کے زور پر عقل کی گاڑی کو فٹ پاتھ پر چڑھا دیتا ھے یا پُل سے نیچے گرا دیتا ھے ، وما تفرقوا الا من بعد ما جاء ھم العلم ،، من بعد ما جاءتھم البینات ،،،، بغیاً بینھم ،، آپس کی ضدم ضدا میں علم اور وضح دلائل بینات کی موجودگی میں دین کی راہ سے الگ رستہ اختیار کر لیتے ھیں ، ھر نیا موقف اپنانے سے پہلے فتح پوری صاحب نے اس وقت کے علماء کے فتوؤں اور ان کی اپنے بارے میں آراء کا ذکر کیا ھے اور پھر زبان حال سے کہا ھے کہ اچھا لو پھر اب میں یہ بھی کہنے لگا ھوں تم جو میرا بگاڑ سکتے ھو بگاڑ لو –
فتح پوری صاحب کے ایک ایک معقول اعتراض کو پیش کر کے اس کا جواب ان شاء اللہ پیش کرتا رھونگا ،، یہ صرف ایک اجمالی جائزہ تھا جو کہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا گیا ھے
اللہ کی صفات کا تضاد
جناب علامہ نیاز فتح پوری فرماتے ھیں کہ اللہ کے نام تضادات کا مجموعہ ھیں ،، اس کو بھلا کوئی ان کے ذریعے کیسے سمجھ سکتا ھے ؟ مثلاً وہ غفور اور رحیم بھی ھے اور قہار وجبار بھی ھے ،، وہ جابر بھی ھے اور عادل بھی ھے ،،
تعجب اس بات پر ھے کہ علامہ اتنی بدیہی سی بات نہیں سمجھ سکے تو خود خدا اور حیات بعد الممات جیسے نہایت ھی نازک معاملات کو بھلا کیسے سمجھ سکتے تھے –
اسلام سے قبل لوگوں نے اور آج کل بھی ھندوستان کے ھندؤوں نے ھر کام کا الگ الگ دیوی یا دیوتا ٹھہرا رکھا ھے – دولت کی الگ دیوی ھے ،تخلیق کا الگ دیوتا ھے ، غضب کی الگ دیوی ھے وغیرہ وغیرہ یعنی اگر کسی کو دولت ملی ھے تو یہ کسی الگ دیوی یا دیوتا کا کارنامہ ھے لہذا بس اسی دیوتا کو خوش کرنا ھے باقی منہ دیکھتے رھیں ،، اگر آپ مصائب سے دوچار ھیں تو یہ الگ دیوی یا دیوتا کی ناراضی کا سبب ھے اب جا کر کالی کے چرن چھو لیجئے ، قربانی پیش کیجئے ، چڑھاوے چڑھایئے ،، باقی دیوتا منہ دیکھتے رھیں ،،
اس کے بالمقابل اسلام اور قرآن ون ونڈو سروس کا تعارف کراتے ھیں کہ ، اگر آپ مصائب سے دو چار ھیں تو یہ بھی اسی اللہ کی طرف سے آپ کا امتحان لیا جا رھا ھے ، اور اگر آپ مال و دولت سے نوازے جا رھے ھیں تو یہ بھی اللہ کی طرف سے آپ کا امتحان لیا جا رھا ھے- جس کو مصائب میں مبتلا کر رکھا ھے اور اس کا رزق تنگ ھے تو اس کے رزق کا قابض بھی اللہ ھے اور اگر کسی کے یہاں ہُن برس رھا ھے تو اس رزق کا باسط بھی اللہ ھے ، یہ ھے ” القابض الباسط” یہ دونوں صفات ایک دوسرے کی ضد ھیں مگر ایک ھی اللہ کی صفات ھیں کسی کے لئے وہ قابض ھے تو کسی کے لئے وھی الباسط ھے ،، اس میں نہ تو کوئی جھوٹ ھے اور فریب ،، بلکہ روزمرہ کی آنکھوں دیکھی حقیقت ھے ،،
یہی بات سورہ الفجر میں بیان کی گئ ھے کہ جب انسان کو اللہ ابتلا میں ڈالنا چاھتا ھے یعنی امتحان میں ڈالنا چاہتا ھے تو اس کو عزت تکریم اور نعمتوں سے نواز دیتا ھے تو وہ کہتا ھے کہ میرے رب نے مجھے عزت دی ، اور جب اللہ انسان کو دوسری طرح آزمانا چاھتا ھے تو اس کا رزق ناپ تول کر دیتا ھے ،جس پر وہ بندہ کہتا ھے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا ،، فرمایا ،،ھر گز نہیں ،، دونوں حالتیں بس امتحان ھیں ، تم لوگوں کا حقیقی اسٹیٹس نہیں ھے ، اس امیری اور غریبی دونوں سے تم نے رب کا تقرب اور آخرت کی عزت کمانی ھے-
( فاما الانسان اذا ما ابتلاہ ربہ فاکرمہ و نعمہ فیقول ربی اکرمن)
( و اما اذا ماابتلاہ فقدر علیہ رزقہ، فیقول ربی اھانن- کلا )
مَّا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( فاطر-2)
سورہ فاطر میں ارشاد فرمایا کہ اللہ جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دیتا ھے کوئی اس کی بندش نہیں کر سکتا – اور جس کو وہ روک لے کوئی اس کو اس کے علاوہ جاری نہیں کر سکتا اور وہ زبردست حکمت والا ھے – اس میں بھی دونوں تضاد صفات اللہ ھی کی طرف منسوب کی گئ ھیں ، الگ الگ دیوتاؤں کے عقیدے کی نفی کر دی گئ ھے اور تعویز و جادو کے ذریعے بھی بندش کرنے اور بندش کھولنے والی دکانوں کو بند کر دیا گیا ھے ۔
نیاز فتح پوری صاحب فرماتے ھیں کہ شکور ، صبور اور مومن نام تو انسان کے انفعالی جذبات کو ظاھر کرتے ھیں ،، گویا ھم اللہ کو انسان کی سطح پر اتار لاتے ھیں ،
حقیقت یہ ھے کہ یہ سارے 99 نام مختلف حیثیات و جذبات کو ظاھر کرتے ھیں ، اس کے باوجود ان کیفیات کی حقیقت یکساں نہیں ھے بلکہ انسان کی حیات انسان کی حقیقت کے مطابق ھے جبکہ اللہ کی حیات اس کی اپنی شان کے ساتھ یعنی بلا اسباب ھیں ،جبکہ ھم ھر کیفیت و جذبے کے لئے مختلف اعضاء و غریزوں کے تابع ھیں ،،
یہ بات اللہ پاک نے خود قرآن میں واضح فرما دی ھے کہ (( ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (11) اس کی مثل جیسی بھی کوئی چیز ہیں اور وہ ( اس کے باوجود) سنتا بھی ھے اور دیکھتا بھی ھے ،، یعنی سنتا ھے مگر کانوں کا محتاج نہیں اور دیکھتا ھے مگر دیکھنے کے لئے آنکھوں کا محتاج نہیں ،،
رہ گئ بات شکور کی تو اللہ پاک واقعتاً قدرشناس ھے ، کسی کی چھوٹی سی نیکی کو بھی ضائع نہیں فرماتا ، ایک ایک پیسے کی قدر کرتا ھے اور اس کی جزا دیتا ھے ، غریب کا ایک درھم بھی اس کے نزدیک امیر کے ملین کے برابر قدر رکھتا ھے ،وہ مقدار نہیں بلکہ خلوص و اخلاص دیکھتا ھے ،یہ شکور بڑا ھی سچا نام ھے – رہ گیا صبور یعنی بہت صبر کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا اور مسلسل برداشت کرتا ھے – اگر وہ صبر کرنے والا برداشت کرنے والا الحلیم نہ ھوتا تو ھم جیسے گنہگاروں کو اس زمین پر چلنے نہ دیتا ، اس مضمون کو رب صبور نے دو جگہ نہایت واضح انداز میں بیان فرمایا ھے،
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا (فاطر- 45).
اور اگر اللہ فوری پکڑے لوگوں کو ان کے کیئے پر تو اس زمین کی پشت پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑے مگر وہ ان کو مہلت دیتا ھے ایک وقت مقرر تک ،پھر جب ان کا مقرر شدہ وقت آ جاتا ھے تو بےشک اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رھا ھوتا ھے –
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ( النحل-61)..
اور اگر اللہ فوری پکڑے لوگوں کو ان کے گناہ پر تو نہ چھوڑے کوئی اس زمین پر چلنے والا مگر ان کو مہلت دیتا ھے ایک مقرر وقت تک پھر جب ان کا مقرر شدہ وقت آ جاتا ھے تو نہ وہ ایک لمحہ اِدھر ھوتا ھے نہ اُدھر ،
یہ ھے وہ صفت جس کو صبور کے نام سے بیان فرمایا ، المومن ،، امن دینے والا ھے ، اور Secure کرنے والا ھے ، اور جب ھم دمدار کیڑے تھے جب سے ھمیں مامون کر کے رکھ رھا ھے ، ھدف تک امن کے ساتھ پہنچایا ، تین اندھیروں میں ھماری سیکورٹی رکھی ھم پہ نظر رکھی تخلیق کے ھر مرحلے سے دوسرے مرحلے میں امن و حفاظت سے شفٹ کیا اور پھر اس زمین کو قسم قسم کے غلاف میں لپیٹ کر مامون کیا کہ اس کا پانی اور آکسیجن محفوظ رھیں ،، یہ تمام احسانات ایک صفت المومن میں سمو دیئے ،،
نیاز فتح پوری صاحب کے اعتراضات ھی اتنے بچگانہ ھیں کہ واقعی علماء نے اس کا جواب نہ دے کر اچھا ھی کیا ھے ، ایک عام مومن بھی سمجھ سکتا ھے کہ عام فہم باتیں بھی اس نابغہ روزگار کی سمجھ میں نہیں لگ رھیں اور جو لگ رھی ھیں وہ بالکل الٹی لگ رھی ھیں –
ایاز فتح پوری اور قرآن و رسول ﷺ !
نیاز صاحب قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتے ظاھر ھے جو اللہ کو ھی نہیں مانتا وہ اللہ کے کلام کو کیونکر مانے گا ، مگر اس کے لئے دلائل جو دیئے گئے ھیں وہ تو امید سے بھی زیادہ بچگانہ ھیں ،،
اللہ کلام کیسے کر سکتا ھے جبکہ کلام کے لئے انسانی اعضاء (پھیپھڑے ، ووکل کارڈز ، ھونٹ وغیرہ) درکار ھیں –
سرکار آج انسان نے ایسی چیزیں تخلیق کر لی ھیں جن کو نہ پھیپھڑوں کی ھوا کی ضرورت ھے ، نہ ووکل کارڈز اور نہ ھی ھونٹوں کی ضرورت ھے ،، سی ڈی میں سے بغیر پھیپھڑوں اور ھونٹوں کے ھر قسم کی مقدس و غیر مقدس آوازیں سنی جا سکتی ھیں ، قرآن کی آواز بغیر ھونٹوں کے ھی سی ڈی میں سے نکل رھی ھے ،
اسٹیفن ھاکنگ (stephenh awking) صرف سوچ رھا ھوتا ھے اور اس کی سوچ تحریر میں تبدیل ھوتی ھے اور پھر اسی کی آواز میں سنائی دیتی ھے –
کیا انسانوں کے خالق کو ھی بغیر ھونٹوں کے کلام کرنا نہیں آتا ؟ یا اپنے کلام کو اپنی سوچ سے ایک محفوظ کتاب میں پرنٹ کرنا نہیں آتا ؟
اللہ پاک نے موسی علیہ السلام سے بواسطہ درخت خطاب کیا ، کیا درخت کے پھیپھڑے اور ھونٹ نکل آئے تھے؟ اور سوچ میں نہیں بلکہ کلم اللہ موسی تکلیماً ،، اللہ پاک نے موسی علیہ السلام سے ان کی مادری زبان میں اسی طرح کلام فرمایا جس طرح واقعی بات کی جاتی ھے ، وہ موسی علیہ السلام کی سوچ میں نہیں بولا –
فرماتے ھیں کہ قرآن اگر اللہ کا کلام ھوتا تو کسی اور زبان میں ھوتا ، عرب کے منہ سے عربی قرآن تو اس عرب کی اپنی سوچ ھی ھو سکتی ھے جو غیر عربی میں سوچ ھی نہیں سکتا –
اللہ پاک اپنی دھاک بٹھانے کے لئے عبث کام نہیں کرتے ، اس نے انسانوں کو ھدایت پہنچانی تھی جو کہ منطقی طور پر ان کی اپنی زبان میں ھی ھونی چاہیے تا کہ وہ سمجھ لیں اور کل یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ ھمیں تو سمجھ نہیں آئی ، اور یوں ان سمجھے ھوئے لوگوں سے یہ بات آگے ناسمجھ لوگوں تک جائے ،، یہ اعتراض کوئی نیا نہیں اور نہ اس اعتراض کے لئے علامہ ھونا ضروری ھے یہ اعتراض جاھل مشرکین مکہ پہلے ھی کر چکے ھیں،،
اور اس کا جواب بھی اللہ پاک نے دے دیا ھے کہ اگر ھم اس قرآن کو عجمی زبان والا بناتے تو ان لوگوں نے کہنا تھا کہ اس کی آیات کھُل کر کیوں نہیں سمجھائی گئیں ؟ یہ کیسی عجیب بات ھے کہ مخاطب عرب ھیں اور کتاب عجمی نازل کی گئ ھے ؟
(( وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلاَ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ؟ )) فصلت -54
اللہ پاک نے قرآن میں بیان کر دیا ھے کہ ھر قوم میں رسول اس قوم کی زبان میں بھیجا گیا اور ظاھر ھے کہ کتاب بھی اسی قوم کی زبان میں نازل کی گئ یعنی اللہ پاک نے سریانی ،عبرانی میں بھی اسی طرح رسول اور ان کی قوم سے خطاب کیا جس طرح عربی میں خطاب کیا ، اس لئے عربی کو اللہ کی زبان قرار دے کر اس پر اعتراض کرنا ھی ایک غیر معقول بات ھے – اللہ زبانوں سے بےنیاز اور بالاتر ھے ، البتہ انسان محتاج ھیں کہ اللہ پاک ان سے ان کی زبان میں خطاب کرے اور ان کو بات سمجھائے ،گویا زبانیں انسانوں کی مجبوری ھیں ،-
محترم علامہ صاحب کی نظر میں نبئ کریم ﷺ کو بھی جوشِ جذبات میں معاذ اللہ مغالطہ لگ گیا ، وہ جس کلام کو اللہ کا کلام کہہ کر درج کرا رھے تھے ، وہ اصل میں ان کے جذبہ اصلاح کی اس کیفیت کی انتہاء تھی کہ جس میں خود ان کا اندر ھی ابل پڑا تھا جو قوم کے لئے اپنی اصلاحی اقوالِ زریں نوٹ کروا رھا تھا ، اس کیفیت کو جبرائیل بھی کہہ رھے تھے یعنی گویا کہ رسول اللہ ﷺ اور قرآن دونوں جو جبرائیل علیہ السلام کو تھرڈ پرسن کے طور پر متعارف کرا رھے ھیں کہ اس نے یہ قرآن نازل کیا رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک پر ، جبرائیل کو درمیانی راوی اور واسطہ بنایا ھی اس لئے گیا کہ کوئی اس قرآن کو محمد ﷺ کی سوچ قرار نہ دے سکے ، علامہ کے نزدیک اللہ اور رسول ﷺ دونوں کا بیان معاذ اللہ غلط بیانی تھی – جبرائیل یا کلام اللہ کا کہیں وجود نہیں تھا ، بس ایک مصلح کے جذبات کا سیلاب تھا جو قرآن کی صورت میں ان کے ابدر سے ابل رھا تھا ( اور خود رسول اللہ ﷺ کو ھی اس کی خبر نہ ھوئی اور آپ ﷺ اس کو کلام اللہ کے طور پر درج اور حفظ کراتے رھے ؟ ) اور اگر علامہ صاحب پیدا نہ ھوتے تو ھم کو بھی خبر نہ ھوتی ،،
گویا ؎
اک دسترس سے تیری حالی بچا ھوا تھا –
اس کو بھی تو نے آخر چرکہ لگا کے چھوڑا –
ایک طرف ان کو صادق اور امین تسلیم کرنا ، دوسری طرف آپ پہ الزام رکھنا کہ قرآن کو کلام اللہ کے طور پر پیش کر کے دانستہ یا نادانستہ غلط بیانی کی ( معاذ اللہ ) جبرائیل کو دیکھنے کا دعوی کیا جبکہ باھر کوئی جبرائیل تھا ھی نہیں بلکہ یہ آپ ﷺ کے اندر کی کوئی کیفیت ھی تھی جو جبرائیل نظر آ رھی تھی آپ ﷺ کو ،،، علامہ صاحب نے اپنی ھی ممدوح ھستی کو مریض قرار دے دیا ،، پہلے اللہ کو ھاتھ سے گنوایا ، پھر کلام اللہ سے ہاتھ دھوئے اور آخر میں رسول اللہ کو بھی کھو دیا –
اس قسم کی باتوں کے درمیان علامہ صاحب بڑی لمبی لمبی قبل مسیح کی کہانیاں سنانا شروع کر دیتے ھیں جن کے درمیان رکھ کر وہ اپنی بات بھی قاری کے دل و دماغ میں اتار دیتے ھیں –
((وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (105) وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلًا (106) قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا (107) وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا (108) وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ۩ (109) قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا (110) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا (111) بنی اسرائیل
اس قرآن کو ھم نے حق کے ساتھ نازل کیا اور یہ واقعی حق کے ساتھ نازل ھو گیا – وہ قرآن جس کو ھم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ھے تا کہ آپ اس کو لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں ، اور اھم نے اس کو نازل کیا خاص خاص مواقع کی ضرورت کے مطابق-
( من و یزداں صٖفحہ جات، 324- 329 کا تجزیہ )
نیاز فتح پوری کے علمی مذاق !
علامہ فتح پوری کا حیات بعد الممات کے بارے میں اٹھایا گیا علمی سوال یہ ھے کہ اتنے اربوں کھربوں انسانوں کے ذرہ ذرہ بن جانے والے Cells کو آخر اللہ کیسے دوبارہ اکٹھا کر لے گا ؟
اگر انسان اللہ پر یقین رکھتا ھو تو یہ سوال اٹھتا ھی نہیں ھے کہ وہ کوئی کام کیسے کر لے گا ؟؟ ایسے عقلمند علامے زمانہ جاھلیت میں بھی موجود تھے ،جن کو اللہ پاک نے یہ جواب دیا تھا کہ ؎
(( قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ (ق-4) ))
ھم اچھی طرح جانتے ھیں جو زمین ان ( کے جسم میں سے) کمی بیشی کرتی ھے ، اور یہ سب ریکارڈ ایک حفاظت کرنے والی کتاب میں موجود ھے –
پھر ارشاد فرمایا کہ تم اربوں کھربوں کو بھول جاؤ ،، آدم سے لے کر آخری آدمی تک سب کو بیک وقت اٹھا کھڑا کرنا ھمارے لئے ایسے ھی ھے جیسے ایک بندے کو اٹھا کھڑا کرنا ، کیونکہ ایک بندے پر بھی ھمارا” کُن ” ھی خرچ ھوتا ھے اور سارے انسانوں پر بھی وھی ” کُن ” استعمال ھونا ھے ،، آپ روز دس دس روپے بینک میں جمع کراتے رھیں اور 70 سال جمع کراتے رھیں ، وہ سب بس ایک دستخط سے نکالے جا سکتے ھیں ،،
(( مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (لقمان -28)
معاد یعنی دوبارہ اٹھائے جانے اور جنت ، جھنم کے بارے میں علامہ صاحب کا علمی موقف بھی کچھ زیادہ ھی علمی ھے یعنی ،، نیکی کر کے انسانی ضمیر کو جو اطمینان و سکون ملتا ھے وھی اس کی نقد جنت ھے اور ایک گنہگار کو گناہ کے بعد پچھتاوے اور پشیمانی کی جس کیفیت سے گزرنا پڑتا ھے وھی اس کی نقد جھنم ھے ،، مرنے کے بعد نہ کوئی زندگی ھے اور نہ ھی کوئی جنت یا جھنم ، یہ صرف صحراء نشینوں کودی گئ ایک نفسیاتی ڈوز (Psychological Dose) ھے ،،
مگر اس سے بڑا سوال جو اٹھتا ھے اس کا علامہ صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں کہ جن لوگوں کو بندہ مارے بغیر نیند نہیں آتی ، اور گناہ کیئے بغیر اور حرام کھائے بغیر ان کا کھانا ھضم نہیں ھوتا ، ان کے گناہ تو ان کی جنت بن جاتے ھیں اور جو ایک دفعہ سچ بول دے یا حق کی بات کر دے وہ معاشرے کے جوابی سلوک پر اتنا پچھتاتا ھے اتنا پچھتاتا ھے کہ اس کی نیکی اس کی نقد جھنم بن جاتی ھے ،،
جو قتل کر کے سزا سے بچ جاتے ھیں ان کی سزا کا کیا بنے گا ، جو لاکھوں ھزاروں کو ایٹم بم سے مروا گئے ، اور قومی جھنڈے میں دفنا دیئے گئے ان کا کیا بنے گا ؟ کوئی بیوقوف سے بیوقوف رائٹر بھی ایسی اسٹوری نہیں لکھتا کہ جس میں ھیرو جوتے کھاتا کھاتا مر جائے اور ولن موج کرتا کرتا مر جائے ،، یہ معاملہ صرف انٹرول تک چلتا ھے سرکار اگلے حصے میں ھیرو کامیاب اور ولن گرفتار ھو کر سزا پاتا ھے ، پھر اللہ پاک انسانی معاشرے کی کہانی اس طرح کیسے لکھ سکتا تھا ؟
آخرت دنیا کی دیکھی ھوئی زندگی کا لازمی اور منطقی نتیجہ ھے ،عقلِ انسانی یہ تقاضہ کرتی ھے کہ ایک ایسی دنیا دوبارہ ھونی چاھئے جہاں ظالم سے جی بھر کر بدلہ لیا جا سکے تا کہ مظلوموں کے دل تسکین پائیں اور اللہ کے لئے ان کے منہ سے تعریفی کلمات نکلیں ، یہاں تو بیچارے بے انصافی کا رونا روتے اور اللہ پاک سے گلہ کرتے کرتے ھی مر جاتے ھیں ،، لہذا جب اللہ پاک فرماتا ھے کہ ایک دن لازم ایسا آئے گا جب سارے اگلے پچھلے حاضر ھونگے ،کوئی سفارش کسی ظالم کو نہیں بچائے گی اور نہ ھی زمین برابر دیا گیا سونا اس کو گرفت سے بچا سکے گا اور نہ ھی کسی کے جرم میں دوسرا پکڑا جائے گا تو بیساختہ زبان سے نکلتا ھے ،الحمد للہ رب العالمین !
(( (و تری الملئکه حافین من حول العرش یسبحون بحمد ربهم و قضی بینهم بالحق و قیل الحمدلله رب العالمین ) الزمر -75
اور تو دیکھے گا فرشتوں کو کہ وہ عرش کو گھیرے اپنے رب کی تسبیح بیان کر رھے ھونگے اور انسانوں کے درمیان فیصلے حق کے ساتھ کر دیئے جائیں گے اور بس یہی کہا جا رھا ھو گا کہ ساری تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ھیں
روح کیا ھے ؟
نیاز فتح پوری صاحب انسان میں حیوانی جان کے تو قائل ھیں دیگر جانوروں کی طرح مگر روح نام کی کسی چیز کے منکر ھیں ، اس کے لئے ضروری نہیں کہ ان کے پاس کوئی دلیل ھو سوائے اس کے کہ ” ھمیں وہ لمحہ بتایا جائے کہ کب وہ روح داخل ھوتی ھے اور اس روح کے نکلنے کے الگ سے آثار بھی ھونے چاہیں ، یعنی اگر جان دو منٹ پہلے نکلی ھے تو روح دو منٹ بعد یا روح دو منٹ پہلے نکلی ھے تو جان دو منٹ بعد ،، ورنہ یہ تسلیم کیا جائے کہ روح نام کی کوئی چیز انسان میں موجود نہیں ھے بس حیوان کی طرح جیتا ھے اور حیوان کی طرح فائنل موت مر جاتا ھے – جسم کے جی اٹھنے کے تو وہ پہلے ھی قائل نہیں تھے ، اب روح سے بھی جان چھڑا لی گئ ،، گویا اخلاقیات کی بنیاد ھی ختم کر دی گئ ،،
یہ تو فلسفے جھاڑے ھیں ناں کہ ھمیں نیکی اس لئے کرنی چاہئے کہ نیکی بذاتِ خود اس قابل ھے کہ اس کو کیا جائے ،، یہ صرف فلسفے ھیں انسان کی فطرت ھے کہ وہ اپنے ذاتی نفعے کو ترجیح دیتا ھے اور اسی کی بنیاد پر دنیا کا کاروبار چلتا ھے ،بزنس کی بنیاد ھی اپنا اپنا منافع ھے ،حضرت شعیب علیہ السلام نے موسی علیہ السلام سے معاہدہ 8 سال بکریاں چرانے کا کیا تھا مگر پھر اخر میں موسی علیہ السلام سے درخواست کی کہ وہ اگر دو سال زیادہ خدمت کر لیں تو ان کی مہربانی ھو گی ،، یہ نہیں کہا کہ میں تمہیں 6 سال بعد بھی رخصت دے سکتا ھوں ، موسی علیہ السلام کی بجائے اپنا نفع سوچا کیونکہ وہ بوڑھے اور کمزور تھے ،، جبکہ موسی علیہ السلام جوان تھے اور دو سال ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھے ،نیز رب کی طرف سے ان کی وادئ مقدس میں اپائنٹمنٹ بھی دس سال بعد کی ایک رات میں تھی ،، ثم جئت علی قدر یا موسی ،، پھر تم وقتِ مقرر پر پہنچ ھی گئے اے موسی ( طہ )-
قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ ۖ( القصص)
تو جناب میں خود کما کر دوسرے کو کیوں دوں ؟ اپنے منہ سے نکال کر دوسرے کو کیوں دوں ؟ اگر کسی کو اللہ نے بھوکا رکھا ھے تو میں اسے کیوں کھلاؤں ؟ کیا میں اس کا اللہ سے زیادہ ھمدرد ھوں ؟ یا اللہ سے زیادہ با وسائل ھوں ؟ یہ وہ سوال ھیں جو دھریوں اور ملحدوں کی طرف سے قرآن میں اٹھائے گئے ھیں اور ملحد نفاق سے کام لیتے ھیں اگر وہ کہتے ھیں کہ یہ سوال ان کے دل و دماغ میں نہیں اٹھتے ،، کئ دفعہ وہ اس قسم کے سوال اپنے پیج پر لکھ کر اللہ کا تمسخر بھی اڑاتے ھیں معاذ اللہ – تو جناب اس کا جواب ھے کہ اس کی بھوک اللہ کی کمزوری کی آئینہ دار نہیں بلکہ اس کا لقمہ تیرے لقمے میں شامل کر کے تیرا امتحان بنا دیا گیا ھے ، تو نے جو کرنا ھے اللہ کی خوشنودی کے لئے کرنا ھے ، کسی اور سے شکریئے سمیت کسی قسم کے بدلے کا سوچنا بھی نہیں ،،
انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاءً ولا شکوراً ( الدھر )
خیر چلئے روح کی جانب –
اکبر الہ آبادی کا شعر ھے کہ ؎
من العلم قلیلاً یاد رکھنا ، بعد اُوتِیتُم –
نہ سمجھو گے تو کھاؤ گے اک دن جُوتی تم –
جس آیت میں تمہیں یہ خوشخبری دی گئ ھے ناں کہ تم کو علم دیا گیا ھے ۔ اسی آیت میں یہ بھی بتا دیا گیا ھے کہ بس تھوڑا سا ھی دیا گیا ھے- وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً ،،(بنی اسرائیل) اور یہ تھوڑا قیامت تک ھے تم جب بھی جس بھی موڑ پر پہنچو گے تو تمہیں پچھلا علم بہت تھوڑا محسوس ھو گا اور گزر گئے بڑے بڑے پھنے خان سائنسدان تمہیں اپنے علم کے سامنے بچے لگیں گے اور کل تم آنے والوں کو بچے لگو گے ،، اگر یہ بات تم نے یاد نہ رکھی اور اپنے علم کو ھی فائنل سمجھا تو آنے والوں سے جوتی کھاؤ گے اور اپنی انسلٹ کراؤ گے ،، اس لئے مستقبل کو اللہ کے حوالے کر کے آنے والوں کے لئے اوپن چھوڑ دیا کرو کوئی حتمی قسم مت کھایا کرو ،، دینی معاملات میں بھی بڑے بڑے لوگوں نے قسم کھا کر ایک حتمی بات کر دی ،وقت نے اس کو جھٹا ثابت کر دیا مگر ان کے محبین ان کے لئے نئی نئی مصالحے دار تاویلیں کر کے ان کی عزت بچاتے پھرتے ھیں –
روح ایک سگنل ھے جو اللہ کی طرف سے فلیش کیا جاتا ھے ، جب وہ آتا ھے تو اس کو بھی پتہ نہیں چلتا جس میں آتا ھے مگر جب جاتا ھے تو جس میں سے جاتا ھے وہ اس کو بڑی اچھی طرح جاتا ھوا محسوس کرتا ھے اگرچہ وہ آپ کو کومے میں نظر آتا ھے ،، آپ کی موبائیل سم میں نیٹ ورک کی جانب سے جب سگنل بھیجا جاتا ھے اور اپ کی سم ایکٹیو ھو جاتی ھے کیا اس وقت کوئی دھماکہ ھوتا ھے ؟ اور جب سگنل ڈس کونیکٹ کیا جاتا ھے تو کیا فون کا وزن کم ھو جاتا ھے ؟
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً، ( الاسراء )
یہ بات وحی والی روح پر بھی لاگو ھوتی ھے اور جان والی روح پر بھی ، دونوں ھی بس اللہ کا حکم ھیں ،۔
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ( شوری-52)
نظامی صاحب نے اپنی طرف سے اس کتاب کا پی ڈی ایف لنک لگا کر اسلام پر ایٹم بم گرایا تھا ، جبکہ حقیقت میں اس کتاب نے ملحدین کی بے بسی کو ظاھر کیا ھے ، ایک بندہ شروع سے کوئی اور چیز لے کر چلتا ھے- اور ھر سیشن پہ اپنی رائے تبدیل کرتا جاتا ھے ، مگر اس سے پہلے یہ بات مینشن کرنا نہیں بھولتا کہ وہ اس مقام پر مولویوں کے فتوے کی وجہ سے پہنچا ھے ، یہ کتاب اپنے خلاف تکفیری فتوؤں کے رد عمل کے سوا کچھ نہیں کہ بقول کسے ” نام بدنام تو ویسے بھی ھے ایسے ھی سہی ،، پہلے کہا گیا کہ خدا کو جتنا سوچو مزید گرفت سے نکلتا چلا جاتا ھے لہذا ھم تو محمد ﷺ کو ھی مانتے ھیں ،، اور پھر وھی محمدﷺ علامہ کے نزدیک وہ ذھنی مریض ثابت ھوتے ھیں جو اپنے ذھن کی سوچ کو خدا کا کلام کہتے ھیں، اپنی اندر کی کیفیت کی بنیاد پر ان کو Illusions کی وجہ سے جبرائیل ایک الگ ھستی نظر آتا ھے ، اور یہ کوئی نئ بات نہیں بلکہ ایسے نابغہ روزگار افراد پہلے بھی اس خاندان میں گزرے ھیں گویا یہ خاندانی مرض ھے جناب نیاز فتح پوری کے نزدیک ،، معاذ اللہ ثم معاذ اللہ –
نیاز صاحب جس چیز کو اگلے باب میں جانے کی بنیاد بناتے ھیں اسی بنیاد کو اگلے باب میں خود ھی مسترد کر دیتے ھیں ، مگر اس دوران مختلف غیر معروف اور غیر متداول کتابوں سے چند قصے کہانیاں پیش کر کے ان کو اسلام کا موقف بیان کرنا نہیں بھولتے – یہ بالکل ایسا ھی ھے جیسے ایک شخص وکیلِ استغاثہ کا کردار بھی ادا کر رھا ھو اور وکیل صفائی کا بھی ،جہاں چاھے خود ھی وکیل استثغاثہ کی طرف سے کمزور دلائل پیش کرے اور پھر وکیل صفائی کے طور پر ان دلائل کے پرخچے اڑا دے ،اس پر ستم یہ کہ وکیلِ سرکار بن کر ان کی تائید و تردید بھی ساتھ ساتھ کرتا چلا جائے ، حقیقت یہی ھے کہ یہ کتاب لا جواب نہیں بلکہ ناقابلِ جواب تھی ، اسی وجہ سے اس وقت کے علماء نے اس کو گھاس نہیں ڈالی ،، میں داد دیتا ھوں اس وقت کے علماء کی بصیرت کی – میں بھی اس پر اپنا وقت ضائع نہ کرتا اگر نظامی صاحب اس کی تعریف میں رطب اللسان نہ ھوتے ، اس کتاب پر زوردار تبصرہ کر کے اور جادوگروں کی رسئ کو موسی کا اژدھا ثابت کر کے نظامی صاحب نے اپنے قد و کاٹھ میں کمی ھی کی ھے ، میری ھمدردیاں نظامی صاحب کے ساتھ ھیں –
نیاز پوری اور الحاد –
ایاز نظامی صاحب نے اگر اس قدر شد و مد کے ساتھ نیاز پوری صاحب کی تصنیف پیش فرمائی تو اس کے پیچھے ظاھر ھے یہی مقصد تھا کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ الحاد کس طرح انسان میں قسط در قسط پیدا ھوتا ھے ، اس کا بیج کیونکر لگتا اور کس موسم میں پنپتا ،پھولتا اور پھلتا ھے – یہ الحاد کی دردناک داستان اپنے اندر عبرت کا سامان رکھتی ھے – ایک طرف ملحدین کو ننگا کرتی ھے کہ وہ ضد میں مبتلا ھونے کے بعد کس طرح ایک دائرے میں چکر کاٹتے ھوئے کریش کرنے سے پہلے اپنے فیول ٹینک گراتے ھیں اور پھر پاتال سے جا ٹکراتے ھیں – اپنے لئے روشنی کا ایک ایک در اور روزن بند کرتے چلے جاتے ھیں تا کہ تہہ در تہہ ظلمات میں کہیں سے روشنی کی کوئی کرن ان تک پہنچ نہ جائے
(( اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرہ-257)
اللہ ولی ھے ایمان والوں کا ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لاتا ھے ،اور جو لوگ کافر ھیں ان کے اولیاء تو طاغوت ھیں وہ ان کو روشنی سے اندھیروں کی طرف کھینچ لے جاتے ھین ، یہ لوگ آگ والے ھیں وہ اس میں ھمیشہ رھیں گے –
ولی وہ ھوتا ھے جس کو انسان اپنے امور میں کرتا دھرتا اور ذمہ دار سمجھتا ھے اور اس پر اعتماد رکھتے ھوئے اپنے معاملات اس کو سونپ دیتا ھے ،، مومن جب صدق دل سے اللہ کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ھوئے اپنا آپ اس کو سونپ دیتا ھے تو مشکل سے مشکل مرحلے میں بھی اللہ کی ھدایت جس کو اللہ کا نور کہا جاتا ھے اس تک پہنچ کر رھتا ھے ، اللہ کے نیٹ ورک کو کوئی جام نہیں کر سکتا ، بلکہ اللہ ھی کس بھی نیٹ ورک کو جام کر دیتا ھے – آیت ” اللہ نور السماوات والارض” یہی خوش خبری سناتی ھے کہ نہ صرف مادی روشنی کے سارے اسباب اللہ ھی کے پیدا کردہ ھیں بلکہ معنوی روشنی بھی اللہ ھی کے ھاتھ میں ھے ، راہ ھدایت کے سارے ذرائع اس کے دست قدرت میں ھیں ،مانگنے والے میں خلوص ھونا چاہیے ھدایت کی ڈیلیوری سروس میں کبھی تعطل پیدا نہیں ھو سکتا ، والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ، یہی گارنٹی دیتی ھے کہ جو ھماری تلاش میں نکلتے ھیں وہ منزل پر پہنچ کر رھتے ھیں کیونکہ ان کا ہاتھ ھمارے ہاتھ میں ھوتا ھے –
دوسری جانب یہ تحریر علماء کے لئے ایک مثال ھے کہ جب انسان کو فتؤوں کی توپ کے آگے رکھ لیا جائے تو وہ جانتے بوجھتے ھوئے جاھل ، دیکھتے ھوئے اندھا اور سنتے ھوئے بہرہ بن جاتا ھے ، یہ بڑی ضدی مخلوق ھے ، یہی واحد مخلوق ھے جس میں اللہ نے روح پھونکی ھے اور اس کوساتھ میں انا کا تڑکا بھی لگ گیا ،، یہی وجہ ھے کہ اللہ پاک نے موسی اور ھارون علیہما السلام کو یہ ھدایت کر کے بھیجا تھا کہ فرعون سے نرمی کے ساتھ بات کرنا تا کہ وہ نصیحت کو قبول کر لے یا ڈر جائے – اللہ کو معلوم تھا کہ فرعون نے کیا کرنا ھے مگر وہ یہ چاھتا تھا کہ حشر کی عدالت میں فرعون اپنی گمراھی کو موسی علیہ السلام کے طرز تکلم سے منسوب نہ کر دے کہ اے اللہ اس نے مجھے مخاطب ھی اس طرح کیا کہ میرا دماغ بھک سے اڑ گیا اور میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھا –
نیاز فتح پوری نے ابتدا میں ایک نظریہ پیش کیا ھے جس میں دنیا کے تمام مذاھب کو مسلمانوں میں موجود فرقوں کی طرز پرڈیل کرنے کا مشورہ دیا گیا ھے ، یعنی اللہ کے وعدے کے مطابق ھر قوم اور ھر بستی میں کسی نہ کسی ڈرانے والے کا وجود ضروری ھے ، و ان من قریۃٍ الا خلا فیھا نذیر – کوئی بستی ایسی نہیں گزری جس میں ڈرانے والا نہ آیا ھو ،، اور وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا ً،، ھم کبھی کسی قوم کو عذاب نہیں دیتے ھوتے جب تک کہ اس میں رسول مبعوث نہ کر دیں،، بالکل اس بات کو واضح کرتی ھے کہ اسلام سے پہلے کے تمام مذاھب کسی نہ کسی نبی یا رسول کے ھی پیرو ھیں کہ جنہوں نے اپنے اپنے مذھب میں مختلف بدعات داخل کر کے ان کو بگاڑ لیا ھے مگر ان کی اصل آسمانی ھی ھے جو ان کی کتابوں میں مل جاتی ھے ، بالکل اسی طرح جیسے مارکیٹ کا اسلام اور ھے اور قرآن و سنت کا اسلام اور ھے ، جو شیعہ محرم میں کرتے ھیں وہ کتابوں میں نہیں ھے اور جو میلاد پر سنی کرتے ھیں وہ بھی اسلام کی کتابوں میں نہیں ھے ، البتہ فرقوں کی اپنی اپنی کتابوں میں ھو سکتا ھے –
اللہ پاک نے تمام عبادتگاھوں کو تحفظ دیا ھے اور نبئ کریم ﷺ نے بھی میثاقِ مدینہ میں ان کو تحفظ دیا ھے بلکہ ایمان والوں کے جہاد کا نصاب ھی یہ مقرر کیا ھے کہ وہ مساجد کے ساتھ عیسائیوں کے چرچ ، ان کی خانقاہ ، یہود کے سینگاگ کا بھی تحفظ کریں گے اور اگر وہ ان کا دفاع نہیں کر پاتے تو خود ان کے جہاد پر ھی سوالیہ نشان لگ جاتا ھے –
سورہ حج کی ان آیات میں کہ جو سفرِ ھجرت کے دوران نازل ھوئیں اور مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی گئ اسی وقت یہ طے کر دیا گیا تھا کہ یہ جہاد ھر مذھب کی عبادات کے تحفظ کو یقینی بنائے گا نہ کہ ان کو تباہ کرے گا ، اللہ کی نصرت حاصل ھی اس گروہ کو ھو گی جو ان شرائط کا خیال رکھے گا اور اسی کو اللہ کی نصرت کہا گیا ھے کہ اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے شرائط کی پابندی میں تو اللہ بھی تمہاری نصرت کرنے گا تمہیں کامیاب و کامران کرنے میں –
(( ( وَلَوْلا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ( الحج- 40)
یہاں تک فتح پوری کی بات درست تھی اور قابلِ غور بھی ، مگر جب ان پر فتؤوں کی برسات ھوئی تو وہ بھی ضد میں مبتلا ھو گئے اور ایک ایک کر کے اسلام کی ھر چیز سے دست بردار ھو کر ٹھیک وھیں جا کھڑے ھوئے جہاں نظامی صاحب اور ان کی امت کھڑی ھے ، کتاب کا تازہ ترین عنوان ھونا چاھئے تھا ” الحاد کے مراحل ”
میں چیلنج دیا کرتا ھوں کہ انسانیت کوئی ایسا اعتراض اب قیامت تک نہیں سوچ سکتی جس کا ذکر قرآن نے پہلے کر کے اس کا جواب نہ دے دیا ھو،، ان کے اعتراضات ھی نہیں دل بھی پہلوں سے مشابہ ھیں ،،،
اللہ پاک نے جہاں نبئ کریم ﷺ کو ” قُل ” کہا ھے اللہ کے رسول ﷺ نے قل صرف کہا ھی نہیں بلکہ قل کے ساتھ درج بھی کرایا ھے اور یہ قل بتا رھا ھے کہ کوئی اور ھستی رسول اللہ ﷺ کو حکم دے رھی ھے ، توحید کی حد تک تو یہ بات کہی جا سکتی ھے کہ نبئ کریم ﷺ کے اندر توحید کا سمندر ٹھاٹھیں مار رھا تھا ،مگر وہ جو پچھلی امتوں کے واقعات اللہ پاک نے اپنے رسول ﷺ پر نازل فرمائے اوراس تاکید کے ساتھ کہ یہ ھم ھیں جو آپ پر یہ آیات نازل کر کے آپ اصل حقائق بتا رھے ھیں ورنہ آپ تو اس وقت ان میں موجود نہیں تھے ،،
1- ذالک من انباء الغیب نوحیہ الیک وما کنت لدیھم اذ یلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم وما کنت لدیھم اذ یختصمون … آل عمران- 44
یہ غیب کی خبریں ھیں جو ھم آپ کو وحی کرتے ھیں ورنہ آپ ان کے پاس نہیں تھے جب وہ قرعہ کے لئے اپنی قلمیں ڈال رھے تھے اور نہ آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رھے تھے –
2- وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَى مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ ﴿ القصص-44﴾
اور آپ اس وقت وادئ سینا کے مغربی حصے میں موجود نہیں تھے اور نہ ھی یہ سارا واقعہ دیکھ رھے تھے( جو موسی علیہ السلام پر گزرا )
3- وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ﴿القصص-45﴾
اور نہ آپ اس وقت اھل مدین میں مقیم ھو کر ان پر ھماری آیات پڑھ رھے تھے ( جب موسی اور شعیب علیہما السلام میں مکالمہ چل رھا تھا ) بلکہ ھم ھی رسول بھیجنے والے تھے
اسی طرح قرآنِ حکیم کو پڑھنے والا عام انسان بھی اس بات کو محسوس کر لیتا ھے کہ کہاں اللہ پاک اپنے رسول کو بطور متکلم حکم دے رھا ھے ،کہاں وعدہ کر رھا ھے اور کہاں وعید سنا رھا ھے – اتنے بڑے علامہ کا ساری حیثیتیں رسول اللہ ﷺ کو دے دینا کہ وھی خدا تھے ،جو کہ متکلم تھے ، وھی جبرائیل تھے جو کہ واسطہ تھے اور وھی محمد ﷺ تھے کہ جو مخاطب تھے ، اور جس پر یہ کیفیت گزر رھی تھی وہ خود ھی اس سے آگاہ نہیں تھے بلکہ علامہ صاحب کو اپنے اندر سے وحی نے آگاہ کیا ھے ، جبکہ جس ھستی پر قرآن نازل ھوا وہ اس کے ایک ایک لفظ کو کلام اللہ کے طور پر درج کرا رھے ھیں اور اپنا کلام اس دوران لکھنے پر پابندی لگا رھے ھیں ، اپنا کلام نماز میں نہیں پڑھتے بلکہ اللہ کا کلام ھی ھمیشہ پڑھتے ھیں ،،
پہلے اللہ علامہ کی سمجھ میں نہ آیا ،، پھر رسالت بھی سمجھ میں نہ آئی اور رسالت کو نبی ﷺ کی اپنی اپچ سمجھ لیا کہ آپ نے بہت ضبط کیا مگر آخرکار پھٹ پڑے اور توحید کا بیان شروع کر دیا ،،،
اس سلسلے میں وحی کے لفظ کو لے کر لغت سے اس کے معانی بیان کیئے گئے کہ شیاطین بھی وحی کرتے ھیں ( اپنے دوست کے دل میں خیال ڈالتے ھیں)،، موسی کی ماں کو بھی وحی کی گئ( دل میں خیال ڈالا گیا ) ، اور شھد کی مکھی کو بھی وحی کی گئ اور زمین کو بھی وحی کی جائے گی جب وہ اپنے راز فاش کرے گی ،، گویا رسول اللہ ﷺ پر وحی بھی خیال قسم کی تھی ،، ایک لفظ کے لغوی معانی پچاس بھی ھو سکتے ھیں مگر جب رسول ان میں سے کوئی متعین کر لیتے ھیں تو بس وھی مفھوم شرعی کہلاتا ھے –
جبکہ رسولوں کو وحی کی اقسام اللہ پاک نے ایک ھی آیت میں بیان کر دی ھیں ،،
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ -إِلا وَحْيًا، 2- أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ 3- أَوْ يُرْسِلَ رَسُولا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ (شوری- 51) اللہ کسی بشر سے آمنے سامنے گفتگو نہیں کرتا بلکہ ،،
1- یا تو براہ راست اس پر وحی کرتا ھے ( اور نبئ کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق یہ وحی کی سخت ترین صورت ھوتی ھے یعنی جب رسول کو ھی فرشتے کا کام بھی کرنا پڑ جائے یعنی وحی رسول پر ھی ڈی کوڈ ھو رھی ھو تو رسول دھری مشقت میں ھوتے ھیں اور اس وقت آپ ﷺ کا وزن اس قدر بڑھ جاتا تھا کہ اونٹنی کی ٹانگیں کانپنا شروع ھو جاتیں ،پھر وہ بیٹھ جاتی اور آخر بے بسی کے عالم میں اپنی گردن زمین پر ڈال دیتی ، اس وقت رسول اللہ ﷺ اس کیفیت میں بھی اس پر ترس کھاتے ھوئے اس پر سے اتر جاتے تھے ،خود رسول اللہ ﷺ کا حال کیا ھو گا جس بوجھ سے اونٹ جیسے لدو جانور کا یہ حال ھو گیا ھے -؟ یہ وحی ایک مسلسل ٹک ٹک ٹک ٹک ٹک کی طرح نازل ھو رھی ھوتی تھی جیسے کوئی زنجیر ایک پتھریلی زمین پر گھسیٹی جا رھی ھو شیاطین اس وحی کو ڈی کوڈ نہیں کر سکتے تھے ، اس کا ڈی کوڈر صرف رسول کے اندر رکھا جاتا ھے جہاں وہ الفاظ اور آواز کا روپ دھارتے جا رھے ھوتے تھے) جبکہ وحی کے نزول کے بعد وھی تلاوت کرتے ھوئے اونٹنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ،
2- قسم ھے کہ خود پردے کے پیچھے رہ کر کسی دوسری چیز کو کلام کے لئے استعمال فرمانا جیسا کہ درخت میں سے اللہ کی آواز موسی علیہ السلام کو آ رھی تھی اور وہ درخت تجلیات سے بقع نور بنا ھوا تھا ، اسی طرح طور پر بھی پہاڑ کے پیچھے سے آواز آیا کرتی تھی اور موسی علیہ السلام کے کان اس کو سنا کرتے تھے اس لئے موسی علیہ السلام کی وحی کو سب رسولوں سے الگ نام دیا گیا یعنی ” کلم اللہ موسی تکلیماً ” اللہ نے موسی سے بات کی جس طرح عام بات کی جاتی ھے
3- یا رسول یعنی فرشتے کو پیغامبر بنا کر بھیجا جاتا ھے کہ وحی پہلے فرشتے پر ڈی کوڈ ھوتی ھے اور فرشتہ اس کو الفاظ کی صورت میں رسول ﷺ تک پہنچاتا ھے – رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق یہ وحی کی سب سے آسان قسم ھوتی تھی کہ براہ راست تجلیوں کا بار فرشتہ سہہ لیتا تھا
|
|
|
|