مجھے اپنی قلبی رقت کی وجہ سے بہت سے جانوروں کے بچے پالنے کی سعادت نصیب ھوئی ھے ، جس سے مجھے کائنات کے پالنے والے کی عظمت کا شدت سے احساس ھے ،، ایک چڑیا کا بچہ اٹھا کر لے آؤ تو پورے گھر کو وختہ پڑ جاتا ھے ،، اس وقت میں سوچتا ھوں کہ اگر مجھے اتنے اعضاء اور اسباب کے ساتھ اس کو پالنا اتنا مشکل لگ رھا ھے تو وہ بے چاری جس کے پاس نہ میری طرح کے ھاتھ ھیں ، نہ پیسے کہ جا کر اپنے بچے کے لیئے ڈبل روٹی لا کر اسے گیلا کر کے بچے کو کھلائے ،، وہ اسے کیسے پالتی ھو گی اور کیوں پالتی ھو گی ؟؟ کیونکہ اسے تو یہ لالچ بھی نہیں کہ یہ بڑا ھو کر قدرت اللہ شھاب بنے کا اور پھر مجھے کما کر کھلائے گا ،،،،،،، نہ اسے یہ لالچ ھے کہ یہ بڑا ھو کر قاری حینف بنے گا اور مجھے حج کرائے گا ،، وہ کیوں گھنٹوں خوراک ڈھونڈ کر پھر اپنے پوٹے میں اسے نرم کر کے پھر اپنے پوٹے میں سے نکال کر اسے کھلاتی ھے ؟ جب کہ ھمیں جیب سے نکال کر دیتے ھوئے تکلیف ھوتی ھے ،، پھر اس کو تو نہ جنت کی لالچ ھے نہ جھنم کا ڈر ،،، اسے صدقہ جاریہ کا بھی لالچ نہیں اور نہ یہ لالچ کہ میرا چڑا سا بچہ حافظِ قرآن بن کر سات چڑیوں کو بخشوائے گا ،،،، پھر اسے یہ بھی لالچ نہیں کہ بڑا ھو گا تو اپنی بہن کی بیٹی سے بیاھوں گی اور بھانجی کو بہو بنا کر لاؤں گی ،، پھر وہ آخر کیوں اپنے معدے میں سے نکال بچے کو کھلاتی ھے ؟ اس کی خاطر بلی پر جھپٹتی ھے ،، صرف محبت کی خاطر ،، وہ محبت جو اللہ پاک نے 100 حصے کر کے 99 اپنے پاس رکھے ھیں اور صرف ایک فیصد کائنات کی تمام مخلوق میں بانٹی ھے ،جس سے سارے جانور ثواب و عقاب سے بالا و بے نیاز ھو کر اپنی اولاد پالتے ھیں ،، اور اڑ جانے پر ، الگ ھو جانے پر اولاد کو طعنے بھی نہیں دیتے ،، جب اس ایک فیصد محبت نے دنیا میں دھمال مچا رکھی ھے سانپ اور بھیڑیئے سے لے کر چیونٹی اور گھوڑے تک سب اپنی اولاد کے صدقے واری جاتے ھیں ،،، میرے اس مولا کی رحمت کا کوئی اندازہ کر سکتا ھے جس اکیلے کے پاس 99 حصے ھیں اور وہ خرچ کرتا ھے تو کم بھی نہیں ھوتے ،،،،،،،،،، حشر میں جب اس کی رحمت اپنے بندوں پر برسے گی تو ،،،،،،، ابلیس جیسا لعنتی و مردود اور راندہ درگاہ باغی بھی امید سے سر اٹھا کر دیکھے گا کہ شاید اس رحمت کی کوئی چھینٹ اس پہ بھی پڑ جائے ،،،،،،،
جاری ھے