مکے میں جب سحر زدہ ہونے کا الزام دیا گیا تو اللہ پاک نے سختی کے ساتھ فرمایا کہ” دیکھئے تو ظالم آپ کے بارے میں کیسی مثال دے رہے ہیں ، یہ لوگ گمراہی کے اس درجے پر ہیں جہاں ھدایت کی استطاعت چھن جاتی ہے۔
اور پھر جب مدینے میں واقعی جادو ہو گیا تو اللہ بھی چپ چپ !
جبرائیل بھی ساکت۔
قرآن بھی خالی خالی۔
کیا ایسا ممکن تھا؟؟؟؟
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہو اور قرآن نازل نہ ہو؟
مکے والوں کے الزام کے سچ ہونے اور معاذاللہ قرآن کی دو آیات کے غلط ثابت ہونے پر منافقین نے بھی کوئی جلسہ نہیں کیا؟
قران اس جادو پر تبصرہ کئیے بغیر معاذ اللہ اس تضاد کے سا مکمل ہو گیا کہ وہ رسولِ اللہ پر جادو کی سختی سے تردید کرتا ہے، جبکہ بخاری کے مطابق عملی طور پر جادو ھو چکا ہے،، یہ اتنا بڑا تضاد ہے کہ جس کو کسی تاویل سے جسٹی فائی نہیں کیا جا سکتا، یا تو ایمان قرآن پر ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسحور ہیں۔
یا پھر ایمان روایات پر ہے جن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ سحرزدہ ہیں، دونوں پر بیک وقت ایمان ممکن ہی نہیں ۔
اللہ پاک فرماتا ہے کہ "اگر تم ان کے قد بت دیکھو تو آپ کو خوب بھلے لگیں،بات کریں تو ایسی کہ آپ سنتے رہ جائیں۔ وہی باتیں ہیں یہ جن کو آپ دین اور ایمان بنا کر بیٹھے ہیں۔
آپ موسی علیہ السلام کے ایک خیال سے نبئ کریم پر جادو کی دلیل لاتے ہیں، گویا آپ وہی "اذا دخل الاحتمال بطل الاستدلال”والا فقہی اصول پیش کر رہے ہیں کہ جب ایک نبی پر جادو ہو سکتا ہے تو پھر تمام نبیوں پر جادو ہونا ممکن ہے اور اللہ کی تردید والی آیات پر اپنے قیاس کو فوقیت دیتے ہو، یہ کام تو منافقین بھی نہیں کر سکے جو تم شیخ الحدیث بن کر کرتے ہو۔اسی دین سے عزت پاتے ہو جس دین کی عزت سے کھیلتے ہو۔تم وہ باڑ ہو جو دین کی حفاظت کے نام پر کھڑی کی گئی مگر پھر باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ گئ۔ رشدی کے باپ اور راج پال کے دادا ہو جو تمہی سے بیج اور کھاد لے کر اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
و قال الظالمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا۔ اور ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک مسحور شخص کے پیچھے لگے ہوئے ہو۔ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ مسحور ہونے سے بشریت متاثر ہوتی ہے نبوت متاثر نہیں ہوتی اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ محمد کی مثال موسی کی سی ہے کہ موسی پر جادوگروں نے جادو کیا تو اس کی نبوت پر کوئی اثر نہ پڑا۔ بلکہ فرمایا” انظر کیف ضربوا لک الامثال، فضلوا فلا یستطیعون سبیلا۔
ایک بقراط کہتے ہیں کہ بشریت ثابت کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہونا ضروری تھا۔ سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا ہونے یا فرشتہ ہونے کا دعویٰ کیا ہی کب تھا کہ آپ کو بشر ثابت کرنے کے لئے مسحور و مجنون و مخبوط کیا جاتا؟؟؟
مکے والے ہی نہیں بلکہ ہر امت کے رسول کو اس امت نے اپنے جیسا بشر ھونے کا طعنہ دیا۔ انما انت بشر مثلنا و ان نظنک من الکاذبین، ما انت الا بشر مثلنا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت سارے رسول یہی جواب دیتے آئے کہ انما انا بشر مثلکم یوحی الی۔ بشر تو میں تمہارے جیسا ہوں مگر فرق یہ ہے کہ مجھ پر وحی ہوتی ہے ۔
پھر فرماتے ہیں کہ اللہ نے جب مکے میں جادو کا انکار کیا تھا اس وقت واقعی جادو نہیں ہوا تھا,جادو تو مدینے میں ہؤا ہے۔ گویا اللہ کو ہی مستقبل کا پتہ نہیں تھا کہ مدینے میں جادو ہو جائے گا لہذا میں اوپن اسٹیٹمنٹ نہ دوں؟ اللہ پاک نے یہ تو فرمایا ہی نہیں کہ مکے میں جادو نہیں ہوا۔ اللہ پاک نے تو کبھی بھی جادو نہ ہونے کی بات کی ہے۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں تو واقعی الصادق تھے مگر معاذ اللہ مدینے میں جھوٹ بولتے تھے ؟
اللہ پاک نے نبی کریم کی ہمیشہ صادق ہونے اور آمین ہونے کی گواہی دی ہے اسی طرح قسم کھا کر مجنون نہ ہونے کی گواہی دی ہے ن والقلم وما یسطرون، ما انت بنعمۃ ربک بمجنون ، جبکہ مسحور مجنون ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا کہ شیطان یعنی جن جس کو چھوتا ہے اس کو مخبوط الحواس بنا دیتا ہے،جادو کا میکنزم ہی جنات کو استعمال کر کے دوسرے کو مخبوط بنانے پر چلتا ہے۔ لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس ۔گویا مسحور حقیقت میں مجنون اور مخبوط الحواس ہوتا ہے۔ یہ ہے بدبودار عقیدہ اھلسنت کا جو ناموس رسالت کے نام پر تو فساد بپا کرتے ہیں مگر حقیقت میں سب سے بڑے گستاخ رسول یہ خود ہیں۔